مثالی حکمران ۔۔۔حضرت عثمان ؓ
مولانا مجیب الرحمن انقلابی
سیدنا حضرت عثمان غنیؓ جنہیں حضور اکرمؐ کی دو بیٹیوں حضرت سیدہ رقیہؓ اور حضرت سیدہ ام کلثومؓ کے ساتھ یکے بعد دیگرے نکاح کی وجہ سے ذوالنورین کہا جاتا ہے۔ اسلام کی خاطر دو مرتبہ ہجرت کرنے کی وجہ سے ذوالہجرتین کے لقب سے بھی یاد کیے جاتے ہیں ۔ آپؓ پیکر شرم وحیا تھے انسان اور فرشتے دونوں آپؓ سے حیا کرتے ۔ آپؓ حافظ قرآن، جامع القرآن اور ناشرالقرآن بھی ہیں۔ آپؓ نے خلیفہ اول سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ کی دعوت پر اسلام قبول کرتے ہوئے اپنے آپ کو نورایمان سے منور کیا ایک روایت کے مطابق آپؓ اسلام قبول کرنے والوں میں چوتھے نمبر پر ہیں جس کی وجہ سے آپؓ السابقون الاولون کی فہرست میں بھی شامل ہیں ۔ آپؓ کو عشرہ مبشرہ صحابہ کرامؓ میں بھی شامل ہونے کی سعادت حاصل ہے۔
آپؓ کے فضائل ومناقب ، سیرت وکردار روشن اوصاف وکمالات اور سنہرے کارناموں سے تاریخ اسلام کے صفحات روشن ہیں۔
آپؓ سفید رنگ ، خوبصورت وباوجاہت اور متوازن قدوقامت کے مالک تھے ، گھنی داڑہی اور دراززلفوں والے سیدنا حضرت عثمانؓ ذوالنورین جب لباس زیب تن کرکے عمامہ سے مزین ہوتے تو انتہائی خوبصورت معلوم ہوتے ، اعلیٰ سیرت وکردار کے ساتھ ساتھ ثروت وسخاوت میں مشہور اور شرم وحیاکی صفت میں بے مثال تھے، آپؓ رہن سہن ، اخلاق واطوار اور کردار میں حضور ؐ کے طریقوں کو ہی مشعل راہ بناتے اور آپؓ کا ہر کام سنت نبوی ؐ سے ہی مزین وآراستہ ہوتا۔
امام ترمذی ؒ حضرت انسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ بیعت رضوان کے موقعہ پر سیدنا حضرت عثمان غنیؓ ، حضور اکرم ؐ کی طرف سے سفیر بن کر مکہ گئے تھے ۔۔۔کہ خبر مشہور ہوگئی حضرت عثمان غنیؓ شہید کردئیے گئے ۔۔۔حضوراکرم ؐ نے فرمایا کہ کون ہے جو حضرت عثمان غنیؓ کا بدلہ لینے کیلئے میرے ہاتھ پر بیعت کریگا اس وقت موجود تقریباً چودہ سو صحابہ کرامؓ نے حضور اکرم ؐ کے دست مبارک پر ’’موت کی بیعت‘‘ کی ۔۔۔اس موقعہ پر حضور اکرم ؐ نے اپنا ایک ہاتھ حضرت عثمان غنیؓ کا ہاتھ قرار دیتے ہوئے دوسرے ہاتھ پر رکھتے ہوئے فرمایا کہ یہ بیعت عثمانؓ کی طرف سے ہے اس کو بیعت رضوان اور بیعت شجرہ کہتے ہیں ۔ کیونکہ یہ بیعت ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر لی گئی تھی اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس بیعت شجرہ میں شریک تمام صحابہ اکرمؓ کیلئے اپنی رضا اور خوشنودی کا اعلان فرمایا ہے۔ جنگ تبوک کے موقعہ پر حضوراکرمؐ نے صحابہ کرامؓ کو اس جنگ میں مال خرچ کرنے کی ترغیب فرمائی۔۔۔اس موقعہ پر سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ نے گھر کا تمام سامان اور مال واساب اور سیدنا حضرت عمر فاروقؓ نے نصف مال لاکر حضور کے قدموں میں ڈھیڑ کردیا ۔۔۔اس وقت سیدنا حضرت عثمان ذوالنورینؓ نے عرض کیا کہ میں ایک سواونٹ سامان سے لدے ہوئے اللہ کے راستے میں جہاد کیلئے دیتا ہوں۔۔۔حضور ؐ نے دوبارہ ترغیب دی تو حضرت عثمان غنیؓ پھراٹھے اور کہا کہ میں دوسواونٹ مزید دیتا ہوں ۔۔۔آپ ؐ نے پھر ترغیب دی تو حضرت عثمان غنیؓ نے کہا کہ میں تین سو اونٹ مزید دیتا ہوں ۔۔۔حضور اکرم ؐ نے غزوہ تبوک میں مال خرچ کرنے کی دوبارہ ترغیب دی تو مجسم جو دوسخاسیدنا حضرت عثمان غنیؓ نے چوتھی مرتبہ کہا کہ میں دوسو اونٹ اور ایک ہزار اشرفیاں مزید دیتا ہوں ۔۔۔یہ سن کر حضور اکرمؐ منبر مبارک سے نیچے تشریف لائے اور حضرت عثمان غنیؓ کی اس بے مثال سخاوت وفیاضی پر اس قدر خوش تھے کہ حضور ؐ اشرفیوں کو اپنے دست مبارک الٹ پلٹ کرتے اور فرماتے تھے ’’ماضرعثمان ماعمل بعدھذا لیوم ‘‘یعنی آج کے بعد عثمانؓ کا کوئی کام اس کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے حضور ؐ کو اتنا ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے نہیں دیکھا کہ آپ ؐ کی بغل مبارک ظاہر ہوجائے مگر عثمان غنیؓ کیلئے جب آپ ؐ دعا فرماتے تھے ۔۔۔ جب حضور اکرم ؐ ہجرت فرماکر مدینہ منورہ تشریف لائے تو میٹھے پانی کی آپ ؐ اور صحابہ کرامؓ کو بڑی دقت وتکلیف تھی صرف ایک میٹھے پانی کا کنواں تھا جس کا نام ’’بیئر رومہ ‘‘تھا جو ایک یہودی کی ملکیت میں تھا، وہ یہودی جس قیمت پر چاہتا مہنگے داموں پانی فروخت کرتا ۔۔۔ حضور اکرم ؐ نے فرمایا کہ جو شخص اس کنویں کو خرید کے اللہ کے راستہ میں وقف کردے اس کو جنت ملے گی ۔۔۔حضرت عثمان غنیؓ نے اس کنویں کو خرید کے وقف کردیا۔ سیدنا حضرت عثمان غنیؓ ایک مدت تک کتابت وحی جیسے جلیل القدر منصب پر بھی فائز رہے ہیں جن کے بارے میں قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے تعریف فرمائی ہے اس کے علاوہ آپؓ حضور اکرم ؐ کے خطوط وغیرہ بھی تحریر کیا کرتے تھے ۔
سیدنا حضرت عثمان غنیؓ کی یہ حالت تھی کہ رات کو بہت تھوڑی دیر کیلئے سوتے تھے اور تقریباًہر رات نما زوعبادت میں مشغول رہتے۔ نماز تہجد میں قرآن کثرت سے پڑھنا آپؓ کا معمول تھا ۔ آپؓ صائمہ الدہر تھے سوائے ایام ممنوعہ کے کسی دن روزہ کا ناغہ نہ ہوتا تھا جس دن آپؓ شہید ہوئے اس دن بھی آپؓ روزہ سے تھے ہر جمعۃ المبارک کو دوغلام آزاد کرتے ۔۔۔ سیدنا حضرت عمر فاروقؓ قاتلانہ حملہ میں شدید زخمی ہونے کے بعد جب دنیا سے رخصت ہونے لگے تو صحابہ کرامؓ نے ان سے درخواست کی کہ آپؓ اپنا جانشین وخلیفہ مقرر فرمادیں۔ سیدنا حضرت عمر فاروقؓ نے ’’عشرہ مبشرہ ‘‘صحابہ کرامؓ میں سے چھ نامور شخصیات، حضرت عثمان غنیؓ ، حضرت علی المرتضیٰؓ ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ ، حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ اور سعید بن زیدؓ کو نامزد کرکے ’’خلیفہ ‘‘کے انتخاب کا حکم دیا ۔۔۔بالآخر حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے خفیہ رائے شماری کے ذریعہ سیدنا حضرت عثمان غنیؓ کو خلیفہ نامزد کیا۔
سیدنا حضرت عثمانؓ نے 24ھ میں نظام خلافت سنبھالی اور خلیفہ مقرر ہوئے تو شروع میں آپؓ نے 22لاکھ مربع میل پر حکومت کی اس میں سے بیشتر ممالک فتح ہوچکے تھے لیکن ابھی یہاں مسلمان مستحکم نہیں ہوئے تھے، اور خطرہ تھا کہ یہ ممالک اور ریاستیں دوبارہ کفر کی آغوش میں نہ جائیں لیکن سیدنا حضرت عثمان غنیؓ نے فوج کو جدید عسکری انداز میں ترتیب دیا ، آپؓ کے دور خلافت میں اسلام کا پہلا بحری بیڑاتیار کرکے ’’بحراوقیانوس‘‘میں اسلام کا عظیم لشکر اتار دیا طیا تھا۔ اس طرح پاپائے روم پر سکتہ طاری کرکے آپؓ کی فوجوں نے فرانس ویورپ کے کئی ممالک میں اسلام کے آفاقی نظام کو پہنچایا ۔۔۔اسلامی فوجوں نے دور عثمانی میں ہی سندھ، مکران ، طبرستان، اور کابل سمیت متعدد ایشیائی ممالک فتح کئے، آپؓ کے دورخلافت میں اسلامی حکومت سندھ اور کابل سے لیکر یورپ کی سرحد تک پہنچ گئی ۔۔۔آپؓ نے مفتوحہ علاقوں میں چھاؤ نیاہ قائم کیں، چراگاہوں میں مویشیوں کیلئے چشمے کھدوائے رعایا کی آسائش کیلئے سڑکیں ، پل اور مسافر خانے بنوائے سیلاب کے خطرہ کے پیش نظر آپؓ نے مدینہ منورہ سے تھوڑے فاصلہ پر بند بنوایا اور نہر کھدواکر سیلاب کا رخ دوسری طرف موڑ دیا، مساجد کو تعمیر اور آباد کیا، آپؓ نے مسجد نبوی ؐ میں توسیع کرکے اس کوایک خوبصورت اور حسین عمارت میں بدل دیا سیدنا حضرت عثمان غنیؓ ہرتین یا چھ ماہ کے بعد گورنروں اور عمال حکومت کے نام ہدایات جاری کرتے رہتے اور پوری حکومتی مشینری کو عدل وانصاف کے تقاضے پورے کرنے اور رعایا پروری کا حکم جاری کرتے ۔۔۔ایک مرتبہ سیدنا حضرت عثمان غنیؓ نے گورنروں کے نام حکم نامہ جاری کیا جس میں یہ تحریر تھاکہ !
’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے امام یا امیر کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ قوم کا نگران یا چرواہا ہو اور اللہ تعالیٰ نے اس کو اس لئے امیر نہیں بنایا کہ وہ عوام کو ٹیکسوں کے بوجھ تلے روند ڈالے‘‘۔
سیدناحضرت عثمان ذوالنورینؓ کو مصر کے بلوائی شہید کرنے کے درپے تھے اور مختلف سازشوں میں مصروف تھے اور پھر ساڑھے سات سو کے قریب بلوائیوں نے ایک خط کا بہانہ بناکر مدینہ منورہ پہنچ کر بغاوت کا ایک ایسا وقت طے کیا کہ جب مدینہ منورہ کے تمام لوگ حج پر گئے ہوئے ہوں اور صرف چندلوگ یہاں ہوں، اور پھر ان بلوائیوں نے ایک سازش کے تحت مدینہ منورہ پر قبضہ کرکے 35ھ میں ذیقعد کے پہلے عشرہ میں باغیوں نے سیدنا حضرت عثمان غنیؓ کے گھر کا محاصرہ کیا اور پھر حضرت عثمان غنیؓ پر چالیس روز تک کھانا اور پانی بند کردیا گیا ۔ جبکہ اس دوران بعض صحابہ کرامؓ نے باغیوں کا سرکاٹنے کی اجازت چاہی تو آپؓ نے انکار کرتے ہوئے فرمایاکہ ’’مجھ سے یہ نہ ہوگا حضور اکرمؐ کا خلیفہ ہوں اور خود ہی حضور اکرم ؐ کی اُمت کا خون بہاؤں ۔ ‘‘
حافظ عمادالدین ابنِ کثیرؒ نے ’’البدایہ والنھایہ ‘‘میں لکھا ہے کہ باغیوں کی شورش میں سیدنا حضرت عثمان غنیؓ نے صبرواستقامت کا دامن نہیں چھوڑا ۔۔۔ محاصرہ کے دوران آپؓ کا کھانا اور پانی بند کردیا گیا اور چالیس روز سے بھوکے پیاسے 82سالہ مظلوم مدینہ ،خلیفہ سوم سیدنا حضرت عثمان ذوالنورینؓ کو جمعۃ المبارک 18ذوالحجہ کو روزہ کی حالت قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے انتہائی بے دردی کے ساتھ شہید کردیا گیا اور سیدنا حضرت عثمان غنیؓ 12دن کم 12سال تک اسلامی سلطنت قائم کرنے اورنظام خلافت کو چلانے کے بعد جام شہادت نوش کرگئے ۔