پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش میں بھارت خود سفارتی سطح پر تنہا ہورہا ہے
تجزیہ: قدرت اللہ چودھری
کیا بھارت پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش میں خود تنہا نہیں ہوتا جا رہا؟ بھارتی میڈیا نے اپنی حکومت کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے پاکستان کے خلاف جس پروپیگنڈے کا آغاز کیا ہے اس کی حقیقت بھی طشت از بام ہوچکی ہے۔ بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان اور روس کی جنگی مشقیں منسوخ کردی گئی ہیں جبکہ اس خبر میں سرے سے کوئی صداقت نہیں کیونکہ یہ پندرہ روزہ مشقیں حسب پروگرام منعقد ہوں گی۔ روس کی جانب سے بھی مشقوں کی تصدیق کردی گئی ہے، یہ جنگی مشقیں اپنی نوعیت کی پہلی ہیں جو پاکستان اور روس کے درمیان ہو رہی ہیں۔ اس سلسلے میں روس نے بھارت کے احتجاج کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ خطے کے ملکوں کا جو نیا اتحاد مستقبل قریب میں بننے والا ہے ان مشقوں کو بھی اس سلسلے کی کڑی قرار دیا گیا ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ یہ مشقیں رکوانے کیلئے بنفس نفیس ماسکو جانے والے تھے کہ اڑی میں بھارتی فوجی مرکز پر حملہ ہوگیا اور تیل کے ذخیرے میں آگ لگ گئی جس کے بعد راجناتھ نے روس کا دورہ ہی منسوخ کردیا، وہاں سے انہوں نے امریکہ جانا تھا یہ دورہ بھی منسوخ ہوگیا۔ خطے کی بڑی طاقت کے ساتھ پاکستان کی جنگی مشقیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان اور روس کے تعلقات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف اس وقت نیویارک میں ہیں اور اپنے خطاب سے پہلے عالمی رہنماؤں سے مفید ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ پیر کے روز انہوں نے امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور برطانوی وزیراعظم تھریسا مے سے ملاقات کی تھی، منگل کو وہ جاپانی وزیر اعظم شیزو ایبے، ترک صدر رجب طیب اردوان اور دوسرے رہنماؤں سے ملے۔ اس دوران مسلمان ملکوں کی سب سے بڑی تنظیم او آئی سی کے رابطہ گروپ کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے دیا جائے۔ اجلاس میں کشمیر کی صورتحال پر تشویش ظاہر کی گئی اور وہاں کشمیریوں سے ہونے والی زیادتیوں پر اظہار افسوس کیا گیا۔ پوری اسلامی دنیا جس طرح کشمیریوں کے موقف کی حمایت میں ڈٹ کر کھڑی ہوگئی ہے، کیا یہ پاکستان کی تنہائی پر دلالت کرتی ہے یا کامیاب سفارت کاری کی مظہر ہے؟ بھارت کے اندر ایسے سیاستدانوں کی کمی نہیں جو کھلم کھلا کہہ رہے ہیں کہ گیم نریندر مودی کے ہاتھوں سے نکل چکی ہے۔ کشمیر سے توجہ ہٹانے کیلئے مودی نے 15 اگست کو لال قلعے کی تقریر میں جس طرح بلوچستان کا تذکرہ کیا تھا اس پر خود بھارت میں ان پر نکتہ چینی ہو رہی ہے۔ بھارتی میڈیا اپنی حکومت کے حق میں گمراہ کن خبریں چلا رہا ہے۔ سارک کانفرنس کے متعلق کہا گیا کہ مودی اس میں شریک نہیں ہوں گے حالانکہ بھارتی حکومت نے ابھی اس سلسلے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ فرض کریں مودی نہیں بھی آتے تو اس سے کیا فرق پڑے گا؟ سارک کانفرنس تو پہلے ہی اپنی افادیت کھوتی جا رہی ہے اور بھارتی رہنماؤں کا رویہ یہی رہا تو اس کی اہمیت مزید کم ہو جائے گی۔ سارک کانفرنس میں بھارت نے اپنی جو چودھراہٹ بنا رکھی ہے وہ بھی متاثر ہوگی اس سے پاکستان کو کیا فرق پڑتا ہے۔ بھارت کے چھوٹے ہمسائے اس کے طرزعمل سے پہلے ہی نالاں ہیں سری لنکا نے پاکستان سے جے ایف 17 تھنڈر طیارے خریدنے چاہے تو بھارت نے اس پر دباؤ ڈالا اور اس کی بجائے بھارتی طیارے خریدنے کا مشورہ دیا جن کا جے ایف 17 تھنڈر سے کوئی مقابلہ بھی نہیں۔ بھارت اپنے چھوٹے ہمسایوں کو اسی طرح کے دباؤ میں رکھنا چاہتا ہے۔ افغانستان کی حد تک تو اسے کامیابی حاصل ہوئی ہے اور وہاں وہ پاکستان کی مخالفت میں پیش پیش ہے لیکن یہ افغانستان کے سوچنے کا مقام ہے کہ اس طرح وہ اپنے ملک میں امن و امان کی فضا کس طرح قائم کر پائے گا پاکستان پوری نیک نیتی سے افغانستان میں امن کی کوششیں کر رہا ہے۔ بھارت کا اگر یہ خیال تھا کہ اڑی کے واقعے کے بعد دنیا پاکستان کے خلاف بھارت کے نقطہ نظر کی قائل ہو جائے گی تو اس کی یہ کوشش ناکام ہوچکی ہے۔ کشمیر بدستور دنیا کا مرکز نگاہ ہے جس کا ثبوت او آئی سی کے رابطہ گروپ کی قرارداد ہے۔
مودی نے بلوچستان کے متعلق اپنی تقریر میں جو پتہ پھینکا تھا، وہ ناکام ہوچکا ہے۔ براہمداغ بگٹی کو سوئٹزر لینڈ نے شہریت دینے سے انکار کردیا ہے جس کے بعد اب کسی بھی یورپی ملک میں انہیں شہریت ملنے کا امکان نہیں۔ اب ایک اطلاع یہ ہے کہ وہ بھارتی شہریت کیلئے درخواست کریں گے تاہم اس اطلاع کی صداقت بھی یقینی نہیں۔ دس سال سے براہمداغ بگٹی سوئس شہریت کی امید لگائے بیٹھے تھے جس میں ناکامی ہوئی، اب بھارت کی شہریت لے کر ان کے سارے منصوبے طشت از بام ہو جائیں گے۔ نیوکلیئر سپلائرز گروپ (این ایس جی) اور سلامتی کونسل کی نشست کے مسئلے پر بھارت کی عالمی سطح پر جو سبکی ہوچکی ہے وہ تو کسی سے پوشیدہ نہیں ایسے میں بھارت کا پاکستان کو تنہا کرنے کا خواب تو منتشر ہوچکا ہے خود بھارت کی تنہائی صاف نظر آ رہی ہے۔