جماعت اسلامی۔۔۔منزل ہے کہاں تیری؟

جماعت اسلامی۔۔۔منزل ہے کہاں تیری؟
 جماعت اسلامی۔۔۔منزل ہے کہاں تیری؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اگر یہ کہا جائے کہ لاہور کے حلقہ این اے120 کے ضمنی انتخاب نے جماعتِ اسلامی کو چاروں شانے چت کر دیا ہے تو بے جا نہیں ہو گا، جماعت اسلامی ان جماعتوں سے بھی پیچھے رہ گئی ہے جو پہلی بار انتخابی عمل میں شریک ہوئیں۔ پیپلز پارٹی کا المیہ اپنی جگہ ہے،لیکن جماعتِ اسلامی کا دُکھ تو نہ بھولنے والا ہے، نجانے متعلقینِ جماعت اسلامی اسے کیسے بھلا پائیں گے؟۔۔۔مَیں نے جماعتِ اسلامی کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے۔

مولانا مودودیؒ کی ’’تعلیمات‘‘ سے لے کر قاضی حسین احمد کی قاضی آ رہا ہے‘‘ مہم تک، پھر جب سراج الحق نے امارت سنبھالی تو اُن کی سادگی اور ایمانداری کے حوالے سے بہت کچھ لکھا اور اس توقع کا اظہار کیا کہ اب جماعتِ اسلامی صحیح معنوں میں ایک سیاسی جماعت بن کر اُبھرے گی،مگر یہاں تو معاملہ ہی اُلٹ ہو گیا، مقبولیت کی بجائے عدم مقبولیت کا سفر جماعتِ اسلامی کے گلے پڑ گیا ہے۔اُسی لاہور میں، جہاں جماعتِ اسلامی کی ہمیشہ ایک نمائندگی رہی ہے اور منصورہ بھی واقع ہے، جماعتِ اسلامی اتنے ووٹ بھی حاصل نہیں کر سکی، جتنے اُس کے ورکر پولنگ کے دن کام کر رہے ہوں گے۔ اب پتہ نہیں جماعتِ اسلامی کی مجلس شوریٰ اس ہار پر غور کرتی ہے یا نہیں اور اس کی کوئی ذمہ داری قبول کرتا ہے یا معاملہ اِسی طرح چلتا رہے گا۔


پہلا سوال تو یہی ہے کہ جماعتِ اسلامی نے بلا سوچے سمجھے اور زمینی حقائق کا ادراک کئے اِس ضمنی انتخاب میں کودنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ پیپلزپارٹی اور جماعتِ اسلامی اگر اس انتخاب میں حصہ نہ لیتیں تو شاید اتنا نقصان نہ ہوتا جتنا حصہ لینے کی صورت میں ہوا ہے۔ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ صرف قومی اسمبلی کی خالی نشست دیکھ کر انتخاب لڑنے کا فیصلہ کر لیا جائے۔یہ تو اندھے کو بھی معلوم ہے کہ جماعتِ اسلامی نے یہ انتخاب جیتنا نہیں تھا، کیونکہ لاہور سے ہمیشہ اُس نے دوسری جماعتوں کے ساتھ اتحاد کیا ہے اور اپنا حصہ مانگا ہے،مگر اس بار ایک ایسے انتخابی معرکے میں جسے ہر شخص مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے درمیان دنگل قرار دے رہا تھا، جماعتِ اسلامی تن تنہا میدان میں آ گئی۔حلقے میں اپنی نمائندگی کبھی موجود نہ ہونے کے باوجود بلند بانگ دعوؤں کا جمعہ بازار لگا دیا، پھر ایک ایسے شخص کو امیدوار بنایا،جس کے بارے میں حلقے کے عوام بہت کم جانتے تھے۔ لیاقت بلوچ جیسے کسی لیڈر کو میدان میں اُتارا ہوتا تو ایسی جگ ہنسائی کم از کم نہ ہوتی،جیسی اب ہوئی ہے۔

جماعتِ اسلامی کو معرضِ وجود میں آئے کتنی دہائیاں ہو گئی ہیں،مگر وہ جماعت کی بجائے ایک پریشر گروپ ہی نظر آتی ہے۔ اُس کی ریلیاں بہت بڑی ہوتی ہیں، جلسے بھی کامیاب رہتے ہیں،لیکن ووٹ دینے کوئی نہیںآتا۔ دیکھا جائے تو جماعتِ اسلامی نے ترقی کی بجائے اپنی گرفت کو کمزور کیا ہے۔ کراچی سے ایک آدھ سیٹ نکل آتی تھی، وہ بھی ہاتھ سے گئی، لاہور سے کامیابی مل جاتی تھی، اب وہ بھی قصۂ پارینہ بن چکی ہے۔ خیبر پختونخوا میں اس کا ایک پودا لگا ہوا ہے، تاہم وہاں بھی اب اس کی حیثیت ایک ثانوی جماعت کی ہے۔ مَیں حیران ہوتا ہوں کہ تنظیمی لحاظ سے اِس قدر منظم جماعت اتنی کمزور کیوں ہے اور لاہور جیسے بڑے شہر میں اسے عوام نے اتنی بری طرح مسترد کیوں کیا ہے؟


ویسے تو ہمارے ہاں جتنی ایسی جماعتیں ہیں جو مذہبی بیک گراؤنڈ کے ساتھ سیاست کرتی ہیں، وہ دوچار نشستیں جیت کر اقتدار میں آنے والی پارٹی کا حصہ بن جاتی ہیں، کوئی بھی ایسی جماعت نہیں جو کبھی بڑی اکثریت کے ساتھ پارلیمنٹ میں آئی ہو، تاہم جماعت اسلامی ایک ایسی جماعت ہے، جس کی جڑیں پورے مُلک میں موجود ہیں، چاروں صوبوں میں اس کی تنظیم بھی ہے اور حامی بھی، لیکن عوامی سطح پر اسے شاید اس لئے پذیرائی نہیں ملی کہ اس پر سیاست سے زیاہ مذہبی جماعت ہونے کی چھاپ موجود ہے۔ پاکستان جیسے مخلوط اور کسی حد تک لبرل معاشرے میں جماعت اسلامی کو رجعت پسند جماعت سمجھا جاتا ہے، حالانکہ قاضی حسین احمد اور اب سراج الحق نے بڑی کوشش کی کہ جماعت اسلامی کو ایک روشن خیال، ترقی پسند اور غریب پرور جماعت ثابت کر سکیں، مگر انہیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ یہ جماعت اسلامی ہی ہے، جس نے یہ نظریہ بھی دیا کہ مُلک میں تبدیلی موجودہ انتخابی نظام سے نہیں آ سکتی ،اس کے لئے اسلامی انقلاب کی ضرورت ہے، لیکن ظاہر ہے اس بات کی تائید کرنے والے بہت تھوڑے ہیں۔ پھر یہ تضاد بھی جنم لیتا ہے کہ جماعتِ اسلامی جس سسٹم کی مخالفت کرتی ہے، اسی کے تحت انتخابات میں حصہ بھی لیتی ہے۔ وہ مذہبی جماعت کا چُغہ بھی پہنے رکھنا چاہتی ہے اور سیاست کے منجدھار میں بھی اترتی ہے۔ یہ دوعملی بھلا کیسے عوام کو متاثر کر سکتی ہے۔

جماعت اسلامی اگر یہ راہ اختیار کرے کہ ہم نے ایک اصلاحی اور احتسابی تنظیم کے طور پر کام کرنا ہے، تاکہ معاشرتی خرابیوں کی اصلاح کر کے ایک فلاحی اسلامی معاشرے کی بنیاد رکھ سکیں، تو شاید اس کے ساتھ عوام کی ایک بڑی تعداد شامل ہو جائے، مگر جب وہ سیاست کے ذریعے طاقت چاہتی ہے اور اسی طاقت کا حصہ بننا چاہتی ہے، جو بقول اس کے ساری برائیوں کی جڑ ہے تو یہ تضادم اس کے پاؤں کی زنجیر بن جاتا ہے۔


پھر ایک اور تضاد جسے عوام آسانی سے ہضم نہیں کر پائے، وہ جماعت اسلامی کی نظریۂ ضرورت پر مبنی سیاست ہے ۔ مثلاً ایک طرف وہ مسلم لیگ( ن) کو لوٹ مار کرنے والی جماعت قرار دے کر نواز شریف کے خلاف جلسے بھی کرتی رہی اور عدالت عظمیٰ میں بھی گئی، لیکن دوسری طرف جب آزادکشمیر میں انتخابات ہوئے تو اس کی اتحادی بن گئی۔ خیرپختونخوا میں تحریک انصاف کی اتحادی ہے اور حکومت کا حصہ بھی ہے،تاہم جب قومی اسمبلی میں حکومت کی مخالفت کا موقع آیا تو تحریک انصاف کو خیرباد کہہ دیا۔ایک واضح نظریے کی کمی کے باعث بھی جماعتِ اسلامی کے حامیوں میں کنفیوژن ہے کہ وہ کس کے ساتھ ہیں اور کس کے نہیں؟۔۔۔مثلاً لاہور کے الیکشن کو ہی لیں۔ جماعت اسلامی اگر تحریک انصاف سے اتحاد کر لیتی جو کہ فطری بات بھی تھی کہ دونوں نے نواز شریف کو نااہل کرانے کے لئے مشترکہ جدوجہد کی،تو اُس کی ساکھ بھی رہ جاتی اور شاید اس کا اپنا ووٹر بھی باہر نکل آتا۔ ہمارے ایک دوست طارق قریشی نے سوشل میڈیا پر یہ سوال رکھا ہے کہ کیا جماعت اسلامی کے اکابرین کو یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ اب امین احسن اصلاحی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے سیاست کو خیر باد اور خدمت و تبلیغ کو اپنانے کا وقت آ گیا ہے؟۔۔۔ اس پر لوگوں کی جو آرا سامنے آئی ہیں، ان میں بطور خاص اس نکتے کو اُٹھایا گیا ہے کہ قاضی حسین احمد نے جماعت اسلامی کو جس ڈگر پر ڈال دیا تھا، اب وہ اُس سے واپس نہیں آ سکتی،اب امین احسن اصلاحی کے نظریے کی جماعت اسلامی میں کوئی جگہ نہیں رہ گئی، البتہ لبادہ اب بھی وہی پہنایا گیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی عوام کو قائل نہیں کر سکی، اُس کے بارے میں عوام کے ذہنوں میں شکوک بھی ہیں اور سوالات بھی۔ سراج الحق کی ہر تقریر ایسی ہوتی ہے، جیسے کوئی ترقی پسند مقرر خطاب کر رہا ہو،لیکن ایک ایسے معاشرے میں جہاں جدید زندگی کے اثرات غالب آ چکے ہیں،آپ قدامت پسندانہ معاشرے کی بات کرنے لگتے ہیں،جس سیاسی جماعت میں داخل ہونے کے لئے ایک مکمل تربیتی کورس اور ذہن بنانا پڑتا ہو، وہ ایک عام پاکستانی کی آواز کیسے بن سکتی ہے؟اُس کے مسائل کیسے سمجھ سکتی ہے؟


سراج الحق اکثر اپنی تقاریر میں یہ جملہ کہتے ہیں کہ اقتدار میں آ کر مُلک سے کرپشن، ظلم، ناانصافی اور غربت و امارت کا فرق ختم کر دیں گے،مگر سوال یہ ہے کہ وہ اقتدار میں آئیں گے کیسے؟۔۔۔ اقتدار میں آنے کے لئے تو عوام کے ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے حوالے سے جماعت اسلامی کتنی تہی دست ہے اس کا لاہور کے ضمنی انتخاب سے سب کو پتہ چل گیا ہے۔جماعت اسلامی اس انداز سے سو سال بھی چلتی رہی تو صورتِ حال یہی رہے گی۔سیانے کہتے ہیں کہ بعض چیزیں خود زیرو ہوتی ہیں،لیکن کسی کے ساتھ مل جائیں تو اس کی قدر بڑھا دیتی ہیں۔جماعت اسلامی کی خوبی بھی یہی ہے۔تنہا پرواز کا شوق اسے لے ڈوبتا ہے، البتہ کسی کے ساتھ اتحاد کرتی ہے تو ایک دو سٹیٹس اُس کے حصے میں بھی آ ہی جاتی ہیں،لاہور کے انتخاب نے بتا دیا ہے کہ جماعت اسلامی کو اسی پر قناعت کی عادت ڈالنی چاہئے تاکہ پردہ پڑا رہے۔

مزید :

کالم -