گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں ۔۔۔ ایک شام صوفی تبسم کے نام

گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں ۔۔۔ ایک شام صوفی تبسم کے نام

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نظر کے زاوئے سب رائیگاں تھے
زمیں کی تہہ میں بھی آسمان تھے

نیو ہاسٹل، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے طلبا کی ایسی اقامت گاہ ہے جو 1922ء میں تعمیر ہوئی تھی اور اسے تعمیر ہوئے ایک صدی گزرنے والی ہے مگر آج بھی یہ نیو ہاسٹل کے نام سے مشہور ہے کیونکہ اس کی روایات ہمیشہ کی طرح تروتازہ ہیں۔یہاں نہ صرف طلبا کو بہترین اقامتی سہولیات مہیا کی جاتی ہیں بلکہ ان کی ذہنی نشوونما اور تعلیم و تربیت کی لے غیر نصابی سرگرمیوں کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔یہاں کی تعلیمات و روایات سے یہاں کے لئے اقامتی طلبا بہت کچھ سیکھتے ہیں اور اپنی عملی زندگی میں ان اقدار کا پرچار بھی کرتے ہیں۔یہی خوبیاں ہیں جو یہاں کے طلبا کو یونیورسٹی کے دوسرے طلبا سے ممتاز کرتی ہیں۔
صوفی غلام مصطفی' تبسم نے اپنی ساری زندگی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے لئے مختلف خدمات سرانجام دیتے ہوئے گزاری۔وہ یہاں شعبہ فارسی کے سربراہ رہے اقبال ہاسٹل کے ساتھ ساتھ نیو ہاسٹل کے سپرنٹنڈنٹ کے طور پر بھی فرائض سرانجام دیے۔ ان کی بیش بہا خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے نیو ہاسٹل کی بزم نذیر نے ایک شام ان کے نام مختص کی۔ اس خوبصورت شام میں ایک زبردست مشاعرے کا اہتمام کیا گیا۔ نیو ہاسٹل کے درودیوار برقی قمقموں اور روشنیوں سے جگمگا رہے تھے۔ ہاسٹل کے صحن میں مہمانان گرامی اور طلبا کے لئے گاؤ تکیے لگائے گئے اور مشاعرہ پڑھنے والے شعرا کرام کے لئے ایک چبوترا مختص کیا گیا جسے گلاب کی پتیوں اور خوشبوؤں سے سجایا گیا۔
وقت مقررہ پر مشاعرے کا آغاز ہوا۔ راقم نے آغاز میں نظامت کے فرائض سر انجام دئے۔ مشاعرے کی صدارت وطن عزیز کے نامور محقق، نقاد، ماہر لسانیات اور شاعر پروفیسر ڈاکٹر سعادت سعید نے کی جبکہ مہمانان خصوصی میں وارڈن نیوہاسٹل پروفیسر ڈاکٹر طاہر کامران، ڈین اورینٹل لینگوئجز اینڈ اسلامک لرننگ پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال شاہد، سپرنٹنڈنٹ اقبال ہاسٹل ڈاکٹر خالد محمود سنجرانی اور سابق وارڈن نیو ہاسٹل پروفیسر ڈاکٹر اطہر حسین شاہ شامل تھے۔
مشاعرہ پڑھنے والے دیگر شعرا کرام میں واجد امیر، شبیر حسن، اقبال ثاقب، عدنان محسن، عمران فیروز، شجاع الرحمن ڈوگر، سرمد فروغ ارشد، زوہیر لطیف، عدنان فاروق، محمد اویس، اسامہ ضوریز، فہد محمود سوختہ، محمد کفیل رانا، محمد زوہیب عالم، پیر شاہ شاکر اور عبدالرحمان شامل تھے۔
تلاوت قرآن پاک اور نعت رسول مقبولؐ سے آغاز کرنے کے بعد راقم نے صدرِ بزمِ نذیر محمد عمر نظامی کو دعوت دی جنہوں نے آ کر صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کا جامع تعارف پیش کیا اور اپنی سالانہ رپورٹ سنائی۔جونیر شعراء عبدالرحمان اور پیر شاہ شاکر نے اپنی مختصر نظمیں سنائیں اس کے بعد محمد زوہیب عالم آکر اور مندرجہ ذیل پنجابی شعر پر خوب داد وصول کی
بڑی محنتاں توں پیچھے جا کمایا
جھولی بھر کے میں سکھاں دی لے آیا
تے ٹھگاں نال واہ پے گیا
اس کے بعد ابھرتے ہوئے نوجوان شاعر محمد کفیل رانا کو دعوت کلام دی۔ان کا ایک بہت خوبصورت شعر کچھ یوں تھا،
یعنی اک اور سجدہ واجب ہے
یعنی اب تم خدا کی صورت ہو
اس کے بعد راقم نے مسند نظامت ایک سینئر طالب علم محمد علی ظاہر کو سونپ دی جنہوں نے اپنا لکھا ہوا کلام پیش کرنے کے بعد اگلے شاعر فہد محمود سوختہ کو بلایا
نظر کے زاوئے سب رائیگاں تھے
زمیں کی تہہ میں بھی آسمان تھے
مچھیروں کو غلط فہمی نے مارا
جزیرے پانیوں کے رازداں تھے
سوختہ کے اس قدر خوبصورت کلام کو سننے کے بعد اگلے شاعر اسامہ ضوریز کو مدعو کیا گیا۔اسامہ ضوریز کا کلام بہت پردرد تھا۔ایک شعر ملاحظہ ہو،
خدا تو چاہے گا خوابوں میں سب رہیں مصروف
خدا تو چاہے گا بندوں کی نیند پوری ہو
پھر مدیر راوی محمد اویس کو بلایا گیا، ان کے پیش کردہ کلام سے ایک خوبصورت انتخاب:
پہلے بڑھتے تھے فقط ہاتھ گریباں تلک
پھر کسی روز کسی جیب سے خنجر نکلا
شعراء کرام نے اپنے خوبصورت کلام سے محفل کو چار چاند لگا دیے تھے۔ہاسٹل کے طلباء بالخصوص سائنس کے طلبا بڑی گرم جوشی کا اظہار کررہے تھے۔محمد علی ظاہر نے اگلے شاعر عدنان فاروق کو دعوت دی کہ وہ اپنا کلام سنائیں۔ان کا یہ شعر ہر خاص و عام نے بہت پسند کیا:
خواب گزیدہ لوگوں نے جب شب کے پیڑ کو کاٹا تھا
آوازوں کے گھپ جنگل میں خوف بھرا سناٹا تھا
پھر سینئر شاعر زوہیر لطیف کو مدعو کیا گیا۔انہوں نے اپنے سنائے گئے اشعار پر خوب داد سمیٹی۔بقولِ شاعر:
کس قدر تسکین اسے گلشن جلانے سے ملی
یہ خبر ہر ہر بریدہ آشیانے سے ملی۔
ہچکچاتا تھا تمھارے سامنے پہلے پہل
پھر ذرا ہمت تمھارے مسکرانے سے ملی
اب باری تھی جناب عمران فیروز کی،جو منفرد لب و لہجے کی شاعری کے حوالہ سے اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں۔انہوں نے اپنی ایک مشہور اور طویل نظم ’’سسی‘‘ سنائی جس پر حاضرین محفل سر دھنتے رہے اور بے تحاشہ داد دیتے رہے۔بعد ازاں ان سے ایک غزل کی فرمائش کی گئی جس پر انہوں نے یہ غزل سنائی:
سب ہاتھ اٹھا کے بول اٹھے کیا کمال ہے
میں چیختا رہا کہ یہ میں نے نہیں کیا
لٹکا رہا پرندہ ہوا کی صلیب پر
کٹتے ہوئے شجر کی طرف دیکھتا رہا
اب تو محفل اپنا رنگ جما چکی تھی اور طلباء واہ واہ کرتے نہ تھکتے تھے۔نیو ہاسٹل کی فضا میں ایک پر سرور کیفیت طاری تھی۔شعرا کرام کے پیش کردہ خوبصورت کلام اور ان کو ملنے والی داد سنتے ہوئے ہاسٹل کے ملازمین بھی اطراف کی راہداریوں میں کھڑے ہو کر مشاعرہ دیکھنے لگے، گویا نیو ہاسٹل میں موجود ہر فرد اس علمی و ادبی محفل سے بھرپور لطف اندوز ہو رہا تھا۔اب شاعری کو اوڑھنا بچھونا سمجھنے والے شاعر جناب عدنان محسن کو کلام پیش کرنے کی دعوت دی گئی۔انہوں نے اپنے منفرد اور جذبات سے بھرپور کلام سے حاضرین کے دل موہ لئے۔پھر شعبہء فارسی کے ممتاز استاد محترم ڈاکٹر اقبال ثاقب نے واحد پنجابی نظم ’’اکلاپا‘‘ سنائی اور خوب داد سمیٹی۔ان کے بعد اگلے شاعر شبیر حسن کو مدعو کیا گیا۔انہوں نے بھی اپنے جاندار کلام کی بدولت سماں باندھا۔مشاعرہ اپنے عروج پر تھا۔اب جناب واجد امیر کو کلام سنانے کی دعوت دی گئی۔ان کے کلام پر حاضرین محفل داد دیتے نہ تھکتے تھے۔
مندرجہ ذیل اشعار خاص طور پر بہت پسند کئے گئے:
جاتا بھی کس لیے درِ نخوتِ پناہ پر
پہنچا ضرور طشت میں سر، میں نہیں گیا
ان کے بعد مہمانِ خصوصی پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال شاہد نے اپنا کلام پیش کیا۔دامنِ وقت کی غربت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انہوں نے فقط ایک ہی نظم سنائی جسے محفل میں موجود سب احباب نے خوب پذیرائی بخشی۔پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال شاہد کے بعد صدرِ مشاعرہ جناب پروفیسر ڈاکٹر سعادت سعید کو کلام پیش کرنے کی دعوت دی گئی۔یہ مشاعرے کے آخری لمحات تھے اور سب لوگ جنابِ صدر کا کلام سننے کے لئے بے تاب تھے۔انہوں نے ان اشعار سے آغاز کیا:
صندلیں زمیں اپنی مرمریں مکاں اپنا
کون مرنا چاہے گا چھوڑ کر جہاں اپنا
منحرف زباں سے ہم ہو گئے تو پھر کیا ہے
اس نے بھی تو بدلا ہے بارہا بیاں اپنا
اس غزل کے اختتام پر حاضرینِ محفل نے انہیں اپنی مشہورِ زمانہ نظم ’’جنازے واپس نہیں آتے‘‘ سنانے کے لئے کہا۔بعد ازاں ایک اور فرمائش پر استادِ محترم نے یہ غزل سنائی:
ریزہ ریزہ سامنے ہر شکل کا منظر لگا
آئینے کے رخ پہ جیسے عکس کا پتھر لگا
اس کے ساتھ ہی یہ محفلِ مشاعرہ انجام بخیر ہوئی۔ سپرنٹنڈنٹ نیو ہاسٹل جناب خادم علی خان نے سب مہمانوں کی آمد کا شکریہ ادا کیا اور شعراء کرام میں اعزازی شیلڈز تقسیم کیں۔انہوں نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ آئندہ بھی ایسی تقاریب کا انعقاد ہوتا رہے گاکیونکہ ایسی محافل و تقاریب طلباء کے اندر چھپی صلاحیتوں کو باہر لانے کا سبب بنتی ہیں۔صدر بزمِ نذیر محمد عمر نظامی نے تمام معاملات بخوبی سرانجام دیے جانے پر اطمینان کا اظہار کیا اور سپرنٹنڈنٹ نیو ہاسٹل خادم علی خان کی طلباء کے لئے کی جانے والی کاوشوں کا اچھے الفاظ میں تذکرہ کیا۔
***

مزید :

ایڈیشن 1 -