حساس معاشرتی موضوع پر بنائی جانے والی ڈرامہ سیریل’’جلتی بارش‘‘
نجی چینل سے ان دنوں کامیابی کے ساتھ آن ائیر جانے وانے والی ڈرامہ سیریل ’’جلتی بارش‘‘ کی خاص بات کرداروں کی مناسبت سے فنکاروں کا انتخاب ہے۔منفرد موضوع پر بنائے جانے والے اس ڈرامہ کی ڈائریکشن اور سکرپٹ کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے ۔ اداکاروں میں انمول ،نوید رضا ،اختر حسنین ،مریم ٹوانہ،حنا رضوی اورنعمان حبیب شامل ہیں ۔ ڈرامہ سیریل ’’جلتی بارش ‘‘کے پروڈیوسرز اختر حسنین،عدنان صدیقی ،ڈائریکٹر امجد حسین خان ،رائٹر دلاور خان اور حنا ہما نفیس ہیں ۔ اپنے پراجیکٹ کے حوالے سے پروڈیوسراختر حسنین نے بتایا کہ میرے ڈائریکٹر نے ڈرامے کو اعلیٰ اور معیاری بنانے کے لئے بہت محنت کی ہے میں کے کام سے پوری طرح مطمئن ہوں۔ مجھے امید ہے کہ آنے والی اقساط میں یہ ڈرامہ سیریل مزید دلچسپ ہوجائے گی۔فی الحال اس سے زیادہ کہنا بے معنی ہے دوران ریکارڈنگ پورے یونٹ نے میرے ساتھ مکمل تعاون کیا جس کے لئے سب کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتاہوں’’جلتی بارش‘‘میں تمام فنکاروں نے اپنے اپنے کردار اتنی خوبصورتی سے نبھائے ہیں کہ حقیقت کا گمان ہوتا ہے۔میں مستقبل میں بھی اس ٹیم کے ساتھ ڈرامہ بنانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔اختر حسنین نے مزید بتایا کہ میرے ادارے سیریل انٹرٹینمنٹ نے کبھی بھی معیار کے معاملے میں سمجھوتہ نہیں کیا ہے۔میرا ماننا یہ کہ ایک اچھے پراجیکٹ کو بنانے لئے وقت اور پیسے دونوں کی ضرورت ہوتی ہے۔علمان اپنی بہن حورم سے بہت محبت کرتا ہے ۔ کیونکہ حورم کی پیدائش کے وقت اس کی والدہ انتقال کرگئی تھیں اور حورم کو سنبھالنے کی ذمہ داری اسی پر آگئی تھی لہٰذا اس کی ہر چھوٹی سے چھوٹی ضرورتوں کا دھیان اس کا خیال اسی نے رکھا تھا۔ والد صاحب بزنس میں مصروف رہے پھر وہ پڑھنے کے لیے ملک سے باہر چلا گیا مگر وہاں پر بھی اس کا دھیان حورم پر ہی تھا اس کی ایک ہی تو بہن ہے اس کا کون دھیان رکھتا ہوگا کون اس کی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کو پورا کرتا ہوگا یہی خیال اُسے پڑھائی میں پر توجہ نہیں کرنے نہیں دیتا تھا پھر ایک روز حورم کی ای میل نے اُسے مطمئن کردیا اس نے اپنی ای میل میں اپنی فرینڈ ثروت کا ذکر کیا جو کہ اسی کے ساتھ کالج میں پڑھتی ہے۔ ثروت ایک درمیانے درجے کے گھرانے کی لڑکی ہے اس کا ایک بھائی بھی ہے عامر جو تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اپنے لاوبالی پن سے باہر نہیں نکل پایا وہ اپنے ماحول کے ہاتھوں مجبور ہے۔ ثروت کی ماں رقیہ وہی روایتی ماؤں کی طرح اپنی بیٹی کو اچھے گھر میں خوش و خرم دیکھنا چاہتی ہے ۔ویسے تو وہ ہمیشہ ثروت کو روکتی رہی حورم سے ملنے سے مگر جب اس نے حورم کے بھائی علمان کو دیکھا اور حورم کی شان و شوکت دیکھی تو وہ حورم سے مرغوب ہو گئی اور حورم کے گھر ثروت کی شادی کے سہانے خواب سجانے لگی جبکہ وہ جانتی تھی کہ علمان ریمل کو چاہتا ہے مگر حورم ثروت کو پسند کرتی ہے اسی لیے آگر رشتہ حویلی سے آیا تو وہ انکار نہیں کرے گی۔حورم ثروت کا ہر طرح سے خیال کرتی ہے جب بہن کی طرف سے علمان کو تسلی ہوئی تب اس کا دھیان ریمل کی طرف گیا جو پچھلے تین سال سے اُس کی دوست ہے اور اسے پسند کرتی ہے پسند تو اسے علمان بھی کرتا ہے مگر اسے اس بات کا احساس اس وقت ہوا جب حورم کی طرف سے اس کی توجہ تھوڑی کم ہوئی۔ دونوں نے ایک دوسرے سے اظہار محبت کیا اور ایک رومانوی زندگی کی ابتداء ہوئی۔ ریمل شروع ہی سے باہر رہی ہے اس کے طور طریقے الگ ہیں یہ ہی بات تو حورم کو اندر ہی اندر کھائے جارہی ہے کہ وہ علمان کا خیال ٹھیک سے نہیں رکھ سکے گی۔ ریمل کے والدکا انتقال ہوچکا ہے اور وہاں وہ ہوسٹل میں رہتی ہے اسی وجہ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ علمان کے ساتھ پاکستان آگئی پاکستان میں اس نے ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب شروع کردی اور علمان نے اپنے بابا کا بزنس سنبھال لیا ریمل کی ماں صوفیہ بھی ریمل کے پاس پاکستان آگئیں حورم نے ضد کی کہ بھائی کی خوشیاں دیکھنا چاہتی ہے اور آخرکار بھائی مان گیا اور یوں دونوں کی شادی کی تیاریاں شروع ہوگئیں مگر شادی کی خوشیوں میں وہ لوگ یہ دھیان ہی نہیں کرپائے کہ کہیں ایک دبی ہوئی چنگاری ان لوگوں کی خوشیوں کو جلا سکتی ہے ۔بس اسے ایک ہوا ملنے کی دیر ہے اور یہ ہوا اُسے مل گئی ۔ کہتے ہیں نہ اکثر اوقات حالات ایسا رخ اختیار کر لیتے ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں وہ کچھ کرنا پڑجاتا ہے جس کا ہم نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا ہوتا ہے یہ ہی ہوا ریمل ،علمان ،حورم اور زوار کے ساتھ زوار ریمل کا کزن ہے جو حورم سے ریمل کے ساتھ ہی ملا اور اسے حورم کافیافی اچھی لگی تھی۔ ثروت کا بھائی عامر کی بری صحبت نے اسے کہیں کا نہ چھوڑا حالات بد سے بد تر ہوتے چلے گئے ۔یہاں تک کہ ریمل کا ثروت کو لے کر علمان سے جھگڑے شروع ہو گئے جبکہ حورم گھر میں شادی کی تیاریوں میں مصروف تو ہے مگر ریمل کو لگتا ہے کہ ثروت علمان میں دلچسپی لینے لگی ہے اور وہ ان دونوں کا رشتہ توڑنا چاہتی ہے مگر ایسا نہیں ہے کیوں کہ ریمل کے دل میں اس کے لئے شک پیدا ہو گیا ہے اسی لئے وہ ثروت کے بارے میں ایسا سوچتی ہے در حقیقت حورم علمان کی چھوٹی بہن ہے لہٰذا علمان ثروت کو بھی اسی طرح سمجھتا ہے اس کی بھی ہر ضرورت کا دھیان رکھتا ہے۔ ثروت کی ماں کو اس بات کا بہ خوبی اندازہ تھا کہ حورم ثروت کو لے کر بہت Possesiveہے لہذا اس نے ہمیشہ ثروت کو سمجھایا ہے کہ وہ اس گھر کے لئے ایمانداری کے ساتھ اپنا بہترین دے اور کسی بھی طرح سے علمان کے دل میں جگہ بناکے مگر ہر بار ثروت نے روقیہ کی باتوں کو ایک کان سے سنا اور دوسرے سے نکال دیا وہ یہاں کسی کا رشتہ توڑنے نہیں چاہتی تھی وہ تو خود اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے اسے یقین تھا کہ ریمل وقت کے ساتھ خود ہی ٹھیک ہوجائے گی۔ریمل اور علمان کے درمیان نہ چاہتے ہوئے بھی غلط فہمیاں پیدا ہو رہی تھیں ۔ثروت کے سامنے علمان اور ریمل کا رشتہ ٹوٹنے کے دہانے پر تھا اوردوسری طرف شیراز جو کہنے کو عامر کا دوست تھا اسے ہر بار ڈھیر سارے پیسے یہ کہہ کر دیتا کہ اس کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ اسی کا ہے یہاں تک کہ ظہور میان (عامر کے ابا)کے علاج کے لئے بھی شیراز نے ہی پیسے دیئے تھے مگر ایسا کر کے اس نے کوئی احسان نہیں کیا تھا گھر کے کاغذات جس گھر میں یہ لوگ رہتے ہیں اپنے پاس گروی رکھ کر دیئے تھے ان دنوں اس کا عامر کے گھر زیادہ آنا جانا نہیں تھا پر جب آنا جانا ہوا تب اس کی نظرثروت پہ پڑی اور وہیں وہ اسے اپنا دل دئے بیٹھا اس کے بعد اس نے عامر پر اپنی مہربانیوں کے دروزے کھول دیئے عامر کو بگاڑنے کا اصل زمہ دار شیراز بھی ہے۔اس نے پیسوں کا تقاضہ شروع کردیا کیوں کہ وہ جانتا تھا ثروت پڑی لکھی لڑکی ہے ایسے ہی تو اس کے ہاتھ نہیں آجائے گی اس نے عامر کو پھسانے کو کوشش کی مگر وہ داؤ بھی ناکام رہا علمان کی مدد سے عامر بج گیا پھر اس نے عامر سے صاف لفظوں میں کہا اسے کاروبار جمانے کے لئے رقم کی ضرورت ہے آگر پیسے کا انتظام نہ ہو سکا تو اسے گھر بیچنا پڑے گا عامر کے ہوش اڑگئے روقیہ سے بات کی تو وہ الگ پریشان ہو گئی ثروت کے پاس کوئی ایسا راستہ نہیں تھا جس سے وہ اپنا گھر بچائے اور اس بار شیراز کا تیر نشانے پہ لگا تھا ریمل اور علمان کا رشتہ سلامت رہے اس لئے ثروت اب حورم سے بھی کم ہی ملتی تھی روقیہ نے شیراز کو گھر بلایا اور بڑے پیار سے اسے سمجھانے کی کوشش کرنے لگی باتوں باتوں میں اس نے شیراز سے یہ بھی کہا کی جوان بیٹی ہے ساتھ کہاں در در ٹھوکریں کھاؤں گی ایک بار اس کو اپنے گھر کا کر دوں دعا کروں اللہ غیب سے رشتہ بھیج دئے اسی بات کا شیراز نے فائیدہ اٹھایا اور روقیہ سے کہہ دیا خالہ کیوں پریشان ہوتی ہو میں کروں گا ثروت سے نکاح پھر گھر کی بات گھر میں ختم ہوجائے گی اپنوں میں کیسا لین دین سمجھو میرا جو کچھ بھی ہے تمھارا ہی ہے ۔ رقیہ کو جیسے سانپ سونگ گیا ہو جبکہ عامر کوشی سے جھوم اٹھا ثروت نے شیراز کے منہ پر صاف انکار کیا جس پر شیراز کو بہت برا لگا مگر اس نے خود کو سنبھالتے ہوئے روقیہ کو سوچنے کو کہا شادی یہ پھر در در کی ٹھوکریں ۔شیراز کی بات سن کر رقیہ ڈر گئی کرتی بھی کیا اس کے پاس چھپانے کے لئے سر یہ ہی ایک چھت ہی تو تھی اپنے بوڑھے وجود اور جوان بیٹی لے کر کہان در بدر پھر تی شیراز کے پاس دولت تو بہت ہے ہاں ہے تو تھوڑا بدماش مگر کیا ہے عورت اپنی پہ آجائے تو بگڑے سے بگڑے مرد کو بھی سدھار کر رکھ دئے ثروت کو سمجھانے کی روقیہ کے پاس یہ ہی باتیں رہے گئیں تھیں ثروت کے پاس اس شادی کے سوا کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا۔علمان کا ریمل کے ساتھ تناؤ اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ زوار بھی ان دونوں کو سمجھانے سے قصر ہے وہ تو خود حورم کو پسند کرنے لگا ہے حورم بھی اس کو چاہنے لگی ہے دونوں کی منگنی بھی ہو گئی ہے مگر جہاں زوار اور حورم کا رشتہ مضبوط ہورہا ہے وہیں علمان اور ریمل کے درمیان رنجشیں بڑھتی جارہی ہیں ایسے میں ثروت کی موجودگی علمان کو کافی سکون دینے لگی ہے وہ نہیں جانتا کہ اسے دل ہی دل میں ثروت سے لگاؤ ہونا شروع ہو گیا ہے اور اس کی خبر اس وقت ہوئی جب ثروت کی شادی کی خبر اسے حورم سنائی اس پہلے بھی وہ اکثر ثروت کو مس کیا کرتا تھا کیوں کہ ثروت نے تقریباًحورم کے گھر آنا چھوڑ ہی دیا تھا اور علمان جانتا تھا کہ یہ سب ریمل کی وجہ سے ہوا ہے کیوں کہ ریمل نے ثروت کے گھر جاکے ثروت کو زلیل کیا تھا ۔ علمان اب ریمل سے دور دور رہنے لگا تھا اس کا نتیجہ تو ایک دن ایسا ہی ہونا تھا ریمل نے سامنے سے خود علمان کو شادی سے انکار کردیا۔ثروت کی شادی شیراز سے ہو رہی تھی حورم کو جب خبر ہوئی کہ شیراز کس قسم کا انسان ہے تو اس نے روقیہ کو کہا کہ یہ شادی نہ کرئے پر اس نے حورم کو صاف انکار کردیا حورم ثروت کو لے کر کافی پریشان ہو گئی تھی وہ جیتے جی ثروت کو شیراز سے شادی کر کے زندگی برباد کرنے نہیں دئے سکتی تھی اس نے علمان کو بتایا علمان نے روقیہ سے بات کی رقیہ کے دماغ نے کام دکھا دیا اس نے ایسی چال چلی کہ علمان کہ سامنے ثروت بلی کا بکرا معلوم ہونے لگی اس نے روقیہ کے سامنے اپنی اور ثروت کی شادی کا پیغام رکھا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ شیراز سے لی گئی ساری رقم میں ابھی آپ کو دیتا ہوں آپ اس کے منہ پر ماردیں اور ثروت کا نکاح آج ہوگا میرئے ساتھ ۔ علمان نے ثروت سے شادی کر لی جائے کیونکہ علمان کی محبت اس سے دور جاچکی ہے وہ اندر سے ٹوٹ گیا ہے بہن کی خوشی کے خاطر اُس نے یہ فیصلہ بھی کرلیا کہ وہ ثروت سے شادی کرلے اور وہ حورم کا خیال رکھے گی اور اس طرح ثروت دلہن بن کے علمان کے گھر میں آگئی۔
شروع شروع تو ثروت نے حورم کی بڑی آؤبھگت کی اماں جہیز میں آگئی ہیں اور وہ بھی انہی کے ساتھ رہتی ہیں مگر کوئی انہیں دیکھ کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ کبھی وہ غریب بھی تھیں۔ ثروت حورم کا بہت خیال رکھتی جبکہ عامر ابھی بھی ویساہی تھا ۔
علمان نے عامر کو اپنے آفس میں نوکری بھی دی تاکہ وہ بہتر زندگی کی طرف آئے مگر اس کی عادت مفت کی روٹیاں توڑنے کی ہو گئی تھی ۔زندگی میں کافی کچھ بدل گیا تھا علمان ثروت کے ساتھ خوش تو تھا مگر آج بھی اسے ریمل کی یاد ستاتی تھی ۔ذوار اورحورم کی شادی طے ہو گئی تھی ۔زوار نے ایک دن اسے ڈنرپہ حورم بہت خوش تھی ثروت نے اسے بہت خوبصورت تیار کیا وہ ذوار سے ملنے جارہی تھی راستے میں کار خراب ہوئی ۔سامنے ہی اسے روڈ کراس کر کے جاتا تھا اس نے ڈرائیور سے کہاں میں چلی جاؤں گی اور بس نکلتے ہی کچھ قدم بعد اس کا اکسیڈنٹ ہوگیا ۔۔حادث میں اس کا نیچے کا دھڑ پیرالائز ہو گیا ۔حورم کی زندگی میں جیسے اندھیرا چھانے لگا ہو ۔وہ بہت بہادر لڑکی تھی وہ اپنا بوج کبھی بھی ذوار پر نہ ڈالتی پر ذوار کو اللہ جانے کیا ہوا کہ وہ حورم سے منگنی توڑ کر چلا گیا ۔اکسیڈینٹ کے بعد وہ پہلی اور آخری بار ملنے آیا تھا حورم سے ریمل نے بھی اس کو خوب سنائی پر ذوار کے اس بھی وجہ تھی ایسا کرنے کی وہ اپنی زندگی میں حورم کو اس حال مین نہیں دیکھ سکتا تھا ۔ریمل کی ماں صوفیہ کو لگا کہ ریمل اور ذوار کو ایک دوسرے سے شادی کے بارے میں سوچنا چاہیے مگر یہ دونوں تو علمان اور حورم کے حصار سے اب تک باہر نہیں نکل پائیں ہیں ۔وہ ان کے سوا کسی کے بارئے میں نہیں سوچ سکتے تھی۔۔اور آگے بہت کچھ ہے جو حالات اور واقعات کے پیش نظر سامنے آئے گا۔