نواز شریف دائیں سے بائیں ہو گئے؟
تجزیہ نگاروں کی اکثریت کہتی نظر آتی ہے کہ مسلم لیگ نون کے قائد اور سابق وزیراعظم محمد نواز شریف دائیں سے بائیں بازو کے ہو گئے ہیں، وہ دائیں بازو کے سیاسی رہنما تھے جن کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بہت بنتی تھی، وہ ننانوے کی دہائی کے آخر میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے امیر المومنین بھی بننا چاہتے تھے مگر مشرف کے مارشل لاء اور جلاوطنی نے ان کے خیالات میں بنیادی اور جوہری تبدیلی پیدا کی۔ دائیں سے بائیں بازو کی طرف جانے کے حوالے سے سب سے بڑی دلیل ان کی صحافیوں کی ایک تنظیم سیفما کے پلیٹ فارم پر کی گئی ایک تقریر ہے جس کے دو حصے اہم ہیں، ایک حصہ یہ ہے جس میں وہ ہندووں کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ان کا اور ہمارا رب ایک ہی ہے اور دوسرا حصہ یہ کہ وہ بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ سیفما ایک ایسی تنظیم ہے جس کے صحافتی سے زیادہ سیاسی مقاصد ہیں، یہ وہ صحافی ہیں جو مذہب سے ہی نہیں بلکہ کچھ تشریحات میں جاتے ہوئے تقسیم کے بھی مخالف سمجھے جاتے ہیں، یہ ہمیں واہگہ بارڈر پر چراغ جلاتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔
وہ دانشور جو خود کو بائیں بازو کے محافظ اور ترجمان سمجھتے ہیں وہ اس امر پر بہت خوش ہیں کہ پاکستان میں ووٹروں کی سب سے بڑی نمائندہ جماعت کے سربراہ ان کے دھڑے میں آ گئے ہیں مگر اس خوشی کو منانے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ دائیں اور بائیں دھڑے کی بنیاد اور حقیقت کیا ہے۔ میرے ساتھ پی ٹی وی کے ایک پروگرام میں ایک نیم دانشور نے اس پر ٹاکرا کر ڈالا۔ برطانیہ اور دولت مشترکہ کے دیگر ممالک کی مجالس آئین ساز ایک سیاسی تصور کی اتباع کرتے ہوئے نصف دائرے کی شکل کی جبکہ فرانسیسی پارلیمان اور دنیا کے دیگر ممالک کی مجالس قوانین ساز کو مستطیل شکل میں رکھا جاتا تھا۔ فرانس کی 1789ء کی مجلس قانون ساز میں چند اصطلاحات وضع ہوئیں جو دراصل سیاسی جماعتوں کی ترتیب کو ظاہر کرتی تھیں۔ اس مستطیل پارلیمنٹ میں دائیں بازو، وسطی اور بائیں بازو کی جماعتیں تھیں۔ دائیں بازو سے مراد قدامت پسند جماعتیں، وسطی جماعتوں سے مراد اعتدال پسند جماعتیں اور بائیں بازو سے مراد انتہا پسند جماعتیں یعنی سوشلسٹ اور کمیونسٹ جماعتیں تھیں۔ یہاں ہماری عمومی تعریف اتنی سادہ نہیں رہی اور اس میں مذہب بھی شامل ہو گیا اور ایک وقت آیا کہ بائیں بازو کے ایشیاء سرخ ہے کہ نعرے کے جواب میں دائیں بازو نے ایشیاء سبز ہے کا نعرہ لگا دیا۔
یہ درست کہ جب میاں نواز شریف نے سیاست شروع کی تو وہ اسٹیبلشمنٹ کے مخالف نہیں تھے اور اسٹیبلشمنٹ نے ایک اتحاد آئی جے آئی بھی بنوایا جس کی سربراہی سیاسی چابکدستی کے ساتھ انہوں نے حاصل کر لی مگر اس کے بعد سیاست کے طالب علموں نے دیکھا کہ نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے منظور نظر نہیں رہے۔ اگر دائیں بازو کا مطلب صرف یہ ہے کہ ملک میں طاقت کے حقیقی سرچشموں کی اطاعت کی جائے تو نوے کی دہائی کے آغاز میں ہی نواز شریف وزیراعظم بننے کے بعد دائیں بازو کے نہیں رہے تھے اور یہی وجہ ہے کہ انہیں کچھ ہی عرصے بعد نکال باہر کیا گیا مگر متبادل میں بھی دائیں بازو کا کوئی رہنما نہیں تھا، ان کے سامنے بائیں بازو کی ہی رہنما محترمہ بے نظیر بھٹو تھیں ۔ مقامی لغت میں دائیں بازو کی تعریف مذہب کو ریاستی معاملات میں بااثر رکھنے کی حمایت کے ساتھ ساتھ بھارت کی اندھا دھند مخالفت کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔میاں نواز شریف نے نوے ہی کی دہائی میں د وسرا یوٹرن بھی لے لیا۔ آئی جے آئی کا مقبول ترین نعرہ تھا، ’ تم نے ڈھاکہ دیا، ہم نے کابل لیا، اب لینا ہے کشمیر، ٹوٹے شملہ کی زنجیر‘، ڈھاکہ دینے کے ساتھ ساتھ کابل لینے کے ذکر نے اس نعرے کو بہت ہی ذومعنی بنا دیا تھا۔ اب ہم سب جانتے ہیں کہ ہم کابل کس طرح لینا چاہ رہے تھے اور کابل کے اس طرح لینے کی ہم نے کیا قیمت ادا کی، بہرحال میاں نواز شریف کی طرف سے واجپائی کو بس کے ذریعے واہگہ بلانا اور مودی کو ہیلی کاپٹر پر جاتی امرا لے جانا دائیں بازو سے بغاوت سمجھی جاتی ہے۔
بات تشریحات کی ہے اور تشریحات میں پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی حکمت عملی کو بھی اپنے اپنے طور بیان کیا جاتا ہے۔ اس کی مثال کچھ یوں ہے کہ جب قائداعظم ؒ نے پاکستان کے آئین کے لئے قرآن کا حوالہ دیا اور اصغر سودائی نے ان کے جلسوں میں نظم پڑھی اور نعرہ لگایا کہ پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ،تو اس سے ثابت کیا گیا کہ قائداعظم دائیں بازو کے تھے مگر دوسری طر ف قیام پاکستان کے موقعے پر اسمبلی سے انہوں نے اقلیتوں بارے اپنا مشہور پالیسی خطاب کیا تو انہیں بائیں بازو میں ڈال لیا گیا۔ اگر ہم مذہب سے قربت اور دوری کی بنیاد پر ہی دائیں اور بائیں بازو کے فیصلے کرتے ہیں توپھر ہمیں اور بھی بہت کچھ دیکھنا ہو گا ۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم بائیں بازو کے رہنما سمجھے جاتے تھے مگر انہوں نے قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کا کارنامہ سرانجام دیا، ان کے دور میں ہی اتوار کی بجائے جمعے کی چھٹی کی گئی ( جسے نواز شریف نے ہی واپس دوبارہ اتوار کی ہفتہ وار تعطیل میں تبدیل کر دیا) اور یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ میاں نواز شریف گورنمنٹ کالج میں بھٹو مرحوم کے حامی سمجھے جاتے تھے۔
ہم موجودہ صورتحال پر دوبارہ آجاتے ہیں کہ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور بھارت سے برابری کی بنیاد پر دوستی کے خواہش مند ہی بائیں بازو والے ہوتے ہیں تو پھر نواز شریف بائیں بازو کی طرف آ چکے ہیں لیکن اگر بائیں بازو کی تعریف یہ ہے کہ وہ سیکولر ( مستند تعریف کے مطابق مذہب کے مخالف) ہوتے ہیں ہیں تو پھر وہ ہرگز بائیں بازو کے رہنما نہیں ہیں۔ دلچسپ امر تو یہ ہے کہ عمران خان کے ساتھ جس کلاس نے سفر شروع کیا وہ علی ظفر اور ابرار الحق کے گانوں کو انجوائے کرنے والی تھی مگرجب عمران خان صاحب طالبان کے حق میں تحریک چلاتے ہوئے پائے گئے تو وہ بھی نہ صرف بائیں بازو کی تعریف سے باہر نکل گئے بلکہ اسٹیبلشمنٹ کی کھلی ڈلی اطاعت سے وہ دائیں بازو کے لیڈر ہی قرار پائے۔ میں نے پہلے کہا کہ یہ بات تشریحات کی ہے اور حقیقی تشریحات کے مطابق پاکستان میں کوئی بھی ملک گیر اور مقبول سیاسی جماعت مکمل طور پر بائیں بازو کی قرار نہیں دی جا سکتی۔ ان میں اے این پی ا ورایم کیو ایم کی اپنی ایک الگ جگہ ہے مگر یہ دونوں ہی ملک گیر جماعتیں نہیں ہیں۔ ہماری تمام مقبول سیاسی جماعتیں پاکستان کے عوام کی اکثریت کی مذہبیت پسندی کی بنیاد پر سنٹررائیٹ کی جماعتیں قرار پاتی ہیں۔
میاں نواز شریف نے اقتدار سے باہر نکالے جانے کے باوجود ابھی تک کوئی واضح’ اینٹی آرمی‘ اور’ اینٹی جوڈیشری‘ سٹیٹمنٹ جاری نہیں کی، ان کی جماعت کے رہنماوں کا آن دی ریکارڈ یہی کہنا ہے کہ وہ فوج اور عدلیہ کو بطور ادارہ نہیں بلکہ کچھ افراد کو نواز شریف کے خلاف سازش کاذمہ دار سمجھتے ہیں اوریہ الگ بات ہے کہ وہ عمران خان کو مہرہ قرار دینے کے بعد ان افراد کا نام نہیں لیتے جن کا خان صاحب مہرہ بنے۔نواز شریف کا خاندان بنیادی طور پر میاں محمد شریف مرحوم کا خاندان ہے او رمیاں محمد شریف کا خاندان مذہب سے پوری طرح وابستہ ہے۔ اس کے افراد مذہبی فرائض کوادا کرتے اور اس کی بیٹیاں مشرقی اور اسلامی روایات کے عین مطابق حلئے اورلبا س میں نظر آتی ہیں۔ میاں نواز شریف کا دینی شخصیات اور قائدین کے ساتھ قریبی رابطہ رہتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب این اے ایک سو بیس میں انتخابات ہو رہے تھے تو اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر بننے والی دونمائندہ مذہبی قوتوں کی موجودگی کے باوجود پیر اعجاز ہاشمی، راغب نعیمی اورساجد میر سمیت تمام علمائے کرام اور تمام مکاتب فکر مریم نواز شریف کو اپنی حمایت کا یقین دلاتے نظر آئے۔میں بائیں بازو کا ہونے کے لئے بھارت سے خوشگوار تعلقات کے قیام اور اسٹیبلشمنٹ کے ناپسندیدہ بن جانے کی وجوہات کو کافی نہیں سمجھتا، اس کی شرائط کچھ اور بھی ہیں جو زیادہ سخت بھی ہیں اور ہم جیسے مذہب سے محبت کرنے والوں کے لئے کافی حد تک ناخوشگوار بھی ہیں۔