یہ ایک عجیب سا منظر تھا۔شیطان کی آماجگاہ میں نورحق کی شمع روشن ہونے جاری تھی۔
’’اگر آپ چاہتی ہیں ہمیشہ کے لیے نجات پاجائیں تو اس نیک کام میں دیر کیسی۔ لیکن۔۔۔‘‘ اس بار عبدالودود نے رادھا کو مخاطب کیا۔
’’پرنتو کیا۔۔۔تم رک کیوں گے؟‘‘ رادھا پہلی بار براہ راست عبدالودود سے مخاطب ہوئی۔
’’اسلام لانے سے پہلے غسل کرنا ضروری ہوتا ہے‘‘ اس نے کہا۔
’’یہاں آنے سے پہلے اشنان کرکے آئی تھی۔‘‘ رادھا نے سر جھکا کر کہا۔
’’بھائی محمد شریف آپ انہیں کلمہ پڑھا کر یہ سعادت حاصل کریں‘‘ عبدالودود نے محمد شریف سے کہا۔
’’یہ حق بھائی فاروق خان کا ہے۔ کیوں کہ انہی کی کوششوں سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس بہن کو قبول کیا‘‘ محمد شریف نے مسکرا کر میری طرف دیکھا۔
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر94 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’مم۔۔۔میں اس قابل کہاں؟‘‘ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔
’’بھائی عبدالودود! یہ کام آپ کو ہی کرنا ہوگا یوں بھی آپ ایک قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘
’’اگر آپ بھائیوں کی یہی خواہش ہے کہ یہ سعادت مجھے نصیب ہو تو میں سب سے پہلے اس پرودگار کا شکر ادا کرتاہوں جس سے قبضے میں سب مخلوق کی جان ہے۔ پھر آپ لوگوں کا شکریہ‘‘یہ کہہ کر وہ بڑے وقار سے آگے بڑھا اور اپنا صافہ جو اس کے کندھے پر تھا آگے بڑھاتے ہوئے بولا۔
’’اسے تھام لیجئے اور جو کچھ میں پڑھوں اسے دہراتی جائیے گا‘‘ اس نے نظریں جھکا کر رادھا سے کہا۔ اس کے بعد وہ مقدس فریضہ ادا کیا جانے لگا جس کے لئے جن وانس کو اس دنیا میں بھیجا گیا ہے کلمہ پڑھا کر ہم سب نے دعا کی۔ مجھے اب تک جتنی کوفت ہوئی تھی سب دھل گئی۔ محمد شریف کے والد صاحب کے الفاظ یاد آئے جنہوں نے اشارتاً مجھے بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ نا چیز سے کوئی نیک کام لینا ہے۔ اس کے بعد محمد شریف ہی کے ذریعے حضرت ابولحان صاحب نے بھی مجھے مبارکباد دی تھی۔ رادھا کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ معلوم نہیں ندامت کے تھے یا خوشی کے۔
’’بھائی فاروق! آپ انہیں اسلام کے بارے میں کچھ بتائیے‘‘ محمد شریف نے مجھے مخاطب کیا۔
’’محمد شریف میں تو خود ابھی طفل مکتب ہوں یہ فریضہ تو آپ کوہی سر انجام دیناہوگا۔ رادھا سرجھکائے کھڑی تھی۔
محمد شریف اسے چیدہ چیدہ باتیں سمجھانے لگا۔
’’اللہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ وہی تمام جہانوں کا مالک ، خالق، رازق ہے۔ اسی کے قبضے میں سب مخلوق کی جان ہے۔ وہی زندگی دیتا ہے اور موت بھی۔ اس نے ہر ایک کا وقت مقرر کر رکھا ہے۔ ہم سب کولوٹ کراسی کے پاس جانا ہے۔ اللہ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔۔۔‘‘محمد شریف اپنی خوبصورت آواز میں اسلامی تعلیمات کا درس دے رہا تھا۔ رادھا سر جھکائے آنسوؤں سے لبریز آنکھوں سے سن رہی تھی۔ اللہ پاک بڑا رحیم ہے جس کو چاہتا ہے ہدایت عطا فرما دیتا ہے۔ ایک ہندو جن زادی جو ہر دم ، دیوی ، دیوتاؤں کی پوجا پاٹ میں لگی رہتی اب مشرف بہ اسلام ہوگئی تھی مجھے اس بات کی بہت خوشی تھی۔
’’یہ تھیں ابتدائی تعلیمات، باقی میں حضرت صاحب سے گزارش کروں گا کہ وہ آپ کو باقاعدہ اسلامی تعلیمات سے روشناس کرائیں۔‘‘ محمد شریف نے کہا۔
’’فاروق! میں نے تمہیں بہت کشٹ دیا ہے پرنتو میں گلط راہ پر چل رہی تھی۔ مجھ سے جو بھی ہوا انجانے میں ہوا۔ تمری سندرپتنی بھی میرے کارن کشٹ بھوگ رہی ہے۔ مجھے شما کر دو‘‘ رادھا کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اللہ کے پسندیدہ دین کا اعجاز ہے کہ اس پر چلنے والا خود کی نفی کرکے اللہ کی خوشنودی کی خاطر ہر دم معافی اور مغفرت کا طلبگار رہتا ہے۔
’’رادھا! وقت گمراہی میں تم سے جو کچھ بھی ہو اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں کیونکہ جن انس شیطان کے بہکاوے میں آکر گناہ کرتے ہیں۔تمہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے پسندیدہ بندوں میں شامل کرلیا ہے۔ تم بہت خوش نصیب ہو۔‘‘میں آبدیدہ ہوگیا۔
اچانک کمرہ ایک بار پھر تاریکی میں ڈوب گیا۔ لیکن ایک منٹ کے بعد دوبارہ روشن ہوگیا۔ سامنے نظر پڑی تو میں ششدر رہ گیا۔ دیوار کے پاس ایک قطار میں سات آدمی لنگوٹیاں پہنے کھڑے تھے۔ سب سے آگے ایک ہٹا کٹا طویل القامت شخص تھا۔ اس کے سارے جسم پر بال ہی بال تھے۔ سر انڈے کے چھلکے کی طرح صاف درمیان میں موٹی سی چوٹی لٹک رہی تھی۔ اس نے جسم پر زرد کا کوئی سفوف مل رکھا تھا۔ قد اس کا تقریبا ساڑھے چھ فٹ ہوگا۔ گلے میں کئے موٹے دانوں کی مالا لٹک رہی تھیں۔ اس کی آنکھیں بڑی بڑی اور سرخ انگارے جیسی تھیں۔ ماتھے پر تین مختلف رنگوں کی لکیریں کچھی ہوئی تھیں۔ اس کے پیچھے ایک قطار میں کندھے سے کندھا ملائے دوسرے بچاری کھڑے تھے۔ سب کے حیلے ایک جیسے تھے۔ صرف کالی داس کے بڑے بڑے جھاڑ جھنکار سفید بال اور بے ہنگم داڑھی مونچھیں تھیں۔ باقی سب گنجے اور درمیان میں موٹی موٹی چوٹیاں لٹک رہی تھیں۔ جنہیں انہوں نے اپنے سینوں پر ڈال رکھا تھا۔ سب سے آگے والے بچاری کے چہرے پر گہری سنجیدگی چھائی ہوئی تھی۔ وہ بتوں کی مانند ساکت کھڑے تھے حتیٰ کہ پلک بھی نہیں جھپک رہے تھے۔ سب سے آگے کھڑا بچاری یک ٹک رادھا کو گھور رہا تھا۔
’’مہاراج! یہی وہ پاپن‘‘ کالی داس نے رادھا کی طرف انگلی سے اشارہ کیا۔
’’مجھے کیا بتاتا ہے مورکھ! سب جانتا ہوں‘‘ اس کی آواز خاصی گرجدار تھی۔
’’کنیا! کیا کالی داس ستیہ کہہ رہا ہے؟‘‘ اس نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد رادھا سے سوال کیا۔
’’ہاں اس نے جو کہا ہے ستیہ ہے‘‘ رادھا نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔
’’میں تجھے ایک اوسر دیتا ہوں تو دیوتاؤں سے شما مانگ لے۔ مجھے وشواس ہے دیوتا تجھے شما کر دیں گے‘‘ اس نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’میں تمہیں اپدیش دیتی ہوں کہ تو بھی اس راہ کو چھوڑ کر دھرم اسلام سویکار کر لے۔ مجھے وشواس ہے سنسار بنانے والا تجھے شما کر دے گا‘‘ رادھا نے اسی انداز سے جواب دیا۔
’’مہاراج وشنو داس! تمری آگیا ہوتو میں اس پاپن کو چٹیا سے پکڑ کر کالی ماتا کے چرنوں میں لے جاؤں؟‘‘ کالی داس بھڑک کر بولا۔ وشنوداس نے اس اشارے سے خاموش کیا اور عبدالودود سے مخاطب ہوا۔
’’کیا تو نہیں جانتا تھا کالی داس کے آشرم میں آنے کی راہ ہے پرنتو جانے کی نہیں؟‘‘
’’میں کیا جانتا ہوں اورکیا نہیں تم اس میں اپنا وقت برباد نہ کرو اور جو کچھ اس محترم خاتون نے تم سے کہاہے اسے مان کر صراط مستقیم پر آجاؤ۔ اللہ پاک بڑا غفور الرحیم ہے تمہارے سارے گناہ معاف کر دے گا‘‘ عبدالودود نے کمال اطمینان سے جواب دیا۔
’’ہوں۔۔۔‘‘ اس نے ہنکارہ بھرا۔
’’تو جو کچھ میرے چیلے کالی داس نے کہا ہے وہ ٹھیک ہے۔ میں نے تجھے اوسر دیا تھا پرنتو تومورکھ ہے۔۔۔ٹھیک ہے کالی داس تو اپنے من کے ارمان نکال لے‘‘ اس نے کالی داس کا اشارہ کیا۔
کالی داس آگے بڑھا اور وشنو داس کے سامنے جھک کر دونوں ہاتھ جوڑے پھر رادھا کی طرف دیکھا۔ اس کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ تھی۔ اس کے موٹے اور بھدے ہونٹ متحرک ہوگئے۔ وہ آنکھیں بند کیے کچھ پڑھ رہا تھا۔ رادھا کے سکون و اطمینان میں ذرا فرق نہ آیا۔ اچانک کالی داس بھیانک چیخ مار کر زمین پر گر گیا۔ عبدالودود کا چہرہ سرخ انگارہ بن چکا تھا۔ وشنو داس جو دو قدم پیچھے ہٹ کر اطمینان سے کھڑا تھا بری طرح چونک گیا۔ اس کی آنکھوں میں اچانک شعلوں کا رقص شروع ہوگیا۔ چہرہ بری طرح پھڑکنے لگا۔
’’پاپی! تیری یہ مجال۔۔۔؟ تو وشنو داس کے چیلے پر وار کرے‘‘ وہ غیض و غضب میں دھاڑا۔ پھر گلے سے مالا اتار کر عبدالودود کی طرف پھینکی۔ عبدالودود نے زقند بھری اور ایک طر ف ہٹنے لگا۔ لیکن مالا کسی برق کی طرح اس کے گلے میں پھندے کی طرح پڑ چکی تھی۔ وہ دھڑام سے نیچے گر گیا۔ اس کا خوبصورت چہرہ اذیت کے باعث بگڑ چکا تھا۔ آنکھیں باہر کو ابل آئیں۔ وہ دونوں ہاتھ گلے پر رکھے پھڑک رہا تھا۔ محمد شریف نے دیکھا تو جلدی سے آگے بڑھا لیکن دوسری مالا نے اس کا بھی یہی حشر کیا۔ میں بری طرح بوکھلا گیا۔
’’اب کیا وچارہیں؟ تیری سہائتا کرنے والے تو گئے اب کیا کہتی ہے؟‘‘ اس نے قہر ناک نظروں سے رادھا کی طرف دیکھا ۔ مالا جیسے ہی عبدالودود کی گلے میں پڑی کالی داس خود بخود ٹھیک ہرکر کھڑا ہوگیا تھا۔
’’تم کیول اتنا کر سکتے ہو کہ میرے پران لے لو۔۔۔پرنتو جو راہ میں چنی ہے اس پر سے نہ ہٹوں گی‘‘ رادھا کے اطمینان میں ذرا فرق نہ آیا۔ البتہ وہ محمد شریف اور عبدالودود کو تکلیف پر بے چین ضرور تھی۔
’’چل آگے بڑھ اور ان ملیچھوں کو کالی ماتا کے چرنوں میں پھینک آ۔۔۔میں آتا ہوں‘‘ وشنوداس نے ایک بچاری سے کہا۔
’’مہاراج اس ملیچھ کا کریہ کرم بھی کر دو جس کے کارن یہ سب کچھ ہوا‘‘ کالی داس نے جھجکھتے ہوئے کہا میں پوری جان سے لرز گیا۔ وشنو داس نے ایک بال اپنے سینے سے توڑا اور میری طرف پھینکنے ہی والا تھا کہ بیرونی دروازہ ایک دھماکے سے کھلا۔ سب نے چونک کر دیکھا۔ کھلے دروازے میں ملنگ کھڑا تھا۔(جاری ہے )
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر96 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں