امریکہ کی پاکستان بارے غلط فہمیاں
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقوامِ متحدہ کے سالانہ اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے واشگافانہ انداز میں کہا ہے کہ اگر شمالی کوریا ایٹمی تجربوں سے با زنہ آیا اور امریکہ اور اُسکے حلیفوں کو محسوس ہُوا کہ شمالی کوریاکی سرگرمیوں امریکہ اور اور اِ سکے حلیفوں کے مُفادات کے خلاف ہیں تو امریکہ اپنے اتحادی ممالک کے ساتھ پوری شدت کیساتھ حملہ کرکے شمالی کوریا کو صفحہ ءہستی سے مٹا دے گا۔ اُنہوں نے کوریا کے صدر کو ”راکٹ مین“ کے خطاب سے پُکارا اور مزید کہا کہ راکٹ مین خُود کُشی کی راہ پر گامزن ہے۔ جس کا منطقی نتیجہ موت ہے۔ یہ بیان دیتے ہوئے اُن کی آواز میں بالکُل لرزش نہ تھی۔ اُنکو اِ س بات کی بھی پرواہ نہ تھی کہ رُوس اور چین امریکہ کے بارے کیا سوچیں گے یا کل کو تیسر ی عالمی جنگ بھی چھڑ سکتی ہے۔ وُہ اِن تمام چیزوں سے بے نیاز دکھائی دے رہے تھے۔
دُنیا کے سیا ستدان ایسے بیانات جاری کرنے کے لئے اقوام متحدہ جیسے فورم کو استعمال نہیں کرتے۔ لیکن صدر ٹرمپ روا یت شکن صدر مشہور ہیں۔ وُہ روزِ اول ہی سے ایک مُتنازعہ شخصیت رہے ہیں۔ اور وُہ اپنے شہرت کو قائم رکھتے ہوئے بغیر لگی لپٹی رکھے بیانات داغ دیتے ہیں۔ سیاسی طور پر ایسے بیانات شاید سنجیدہ سیاستدانوں کے لئے عجیب و غریب ہوں لیکن عوام اُنکے ایسے بیانات سے یہ تا ثر لیتے ہیں کہ وُہ اپنے دِل کی بات ہرگز نہیں چھُپاتے۔ اُن کے نزدیک امریکہ اور اُسکا مُفاد سب سے پہلے ہےں۔ وُہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ اُن کے آج تک کے بیانات سے یہ بات صاف ہُو چُکی ہے کہ وُہ سیاستدان ہر گز نہیں بلکہ مُلکی امُور کو بھی بزنس کے طرح چلاتے ہیں۔ اگر اُنہوں نے یہ کہا کہ وُہ شمالی کوریا کو ملیا میٹ کر دیں گے تو وُہ ایسا کرنے پر قادر ہیں۔ وُہ اپنے ارادے کو ہر طریقے سے عملی جامہ پہننانے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکی فوج کاسالانہ بجٹ سات سو ارب ڈالرز تک پہنچ چُکا ہے۔ بیشک اِس رقم کا ذکر کرنا مُناسب محسوس نہیں ہوتا لیکن وُہ اپنی تقریر کے ذریعے دُ ُنیا بھر کے تمام ممالک کو متنبہ کرنا چاہتے تھے کہ امریکہ کو شکست دینا آسان نہیں وُہ امریکی فوج کا سالانہ بجٹ بتا کر یہ بات واضع کرنا چاہتے تھے۔کہ امریکہ کی فوج کا بجٹ کسی بھی درمیانی سائز کے مُلک کے کُل بجٹ کے برابر ہے۔ لہذا امریکہ کو جنگی اعتبار سے شکست دینا نا ممکن ہے۔
امریکی صدر نے امریکی معیشت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اُنکا مُلک اقتصادی طور پر ترقی کررہا ہے۔ سٹاک ایکسچینج کے مُطابق امریکہ کی اقتصادی ترقی سب پر عیاں ہے۔ بیرورزگاری کی شرح میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔ بہت ساری امریکن کمپنیاں بیرونی پروجیکٹس کو مکمل کرکے اپنے مُلک میں انوسٹمنٹ کرنا چاہتی ہیں ۔ کیونکہ حکومت نے اپنی پالیسیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے مُلک کو ترقی کی راہ پر ڈال دیا۔
قارئین کی اطلاع کے لئے یہ بتانا ضروری ہے کہ امریکی صدر کے انتخاب پر چہ مگوئیاں کی جارہی تھیں کہ نئے صدر کے لئے مُلک کے نظام کو درُست ڈھنگ سے چلانا بے حد دشوار ہوگا کیونکہ حکومت کو چلانے کے لئے جو تجربہ درکار ہوتا ہے وُہ نئے صدر کے پاس نہیںہے۔ لیکن صدر ٹرمپ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ کہ وُہ سیاست میں نئے ضرور ہیں لیکن وُہ مُلک کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کے لئے درکار تجربے سے لیس ہیں۔ اُنہوں نے اپنی کامیاب پالیسیوں سے مُلک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر دیا ہے۔ بعض حلقوں کا خیال تھا کو وُہ ایران کے ساتھ کئے ہوئے امریکی معاہدے کی مخالفت کو ترک کر دیں گے۔ لیکن پھر واضع طور پر کہا ہے کہ سابقہ صدر اوبامہ کا ایران سے کیا ہوُا معاہدہ امریکہ کے لئے سُود مند نہیں بلکہ ہزیمت کا باعث ہے۔ وُہ اِس معاہدے کو منسوخ کرنے میں خُوشی محسوس کریں گے۔ اُنہوں نے اپنی تقریر سے اِس تاثر کو بھی زائل کرنے کی کوشش کی کہ ایران اور شمالی کوریا کے تعاون سے امریکہ خائف ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈل ایسٹ میں امریکہ کی پالیسی ماضی طرح بد ستور جاری رہے گی۔ ایران کو وہاں اپنے پاﺅں پسارنے کی جازات نہیں دِی جائے گی۔
امریکہ ایران کے ارادوں سے واقف ہے اور امریکہ اِس پوزیشن میں ہے کہ جب چاہے وُہ ایران کو فوجی طاقت سے جواب دے سکتا ہے۔ ایران اپنی ایٹمی طاقت سے خلیجی ممالک کو مر عُوب یا خوف زدہ نہیں کر سکتا۔ امریکہ اپنے دوستوں کی حفاظت کرنا جانتا ہے۔ اور امریکہ اپنی ذمہ داری کا پا س کرتے ہوئے خلیجی ممالک کی ہر طرح سے حفاظت کرے گا۔
دہشت گردی سے نمٹنے کے بارے میں انہوں نے تمام ممالک پر زور د ے کر کہا کہ وُہ دہشت گردی کی بیخ کنی کرنے کے لئے امریکہ کا ساتھ دیں۔ داعش، طالبان اور القائدہ جیسی تنظیموں سے جان چھُڑانے کے لئے ضروری ہے کہ تما م ذ مہ دار ممالک دہشت گردی کو ہمیشہ ہمیشہ ختم کرنے کے لئے امریکہ کے ساتھ تعاون کریں۔ ایسے ممالک جو دہشت گردوں کو پناہ دیتے یا اُن کی کسی طرح بھی مدد کرتے ہیں اُن پر نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کسی ایک مُلک کی نہیں۔ یہ ایک نا سُور ہے جس کا مُقابلہ کرنے کے لئے تمام مُمالک کو اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہوگا۔ اُنہوں نے زُور دے کر کہا کہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ دہشت گردوں کی فنڈنگ روک دِی جائے۔ اور ایسی تنظیمیوں پر پابندیاں عائد کی جائیں جو دہشت گردی کو دُنیا میں پھیلانے کے لئے اپنی تنظیموں کو استعمال کرتے ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ دہشت گردوں مُقابلہ کیا جائے۔ یہ لوگ ذہنی طور پر مریض بن چُکے ہیں۔ ایسے لوگ حملے کرکے اپنے بزدل ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ ایسے گروہ یا ممالک جو امریکی مُفادات کو نُقصان پہنچانے کے لئے دہشت گردی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔اُن کے لئے یہ کہنا ضروری خیال کرتا ہوں کہ امریکہ کی افواج اُن پر کُڑی نظر ر کھے ہوُئے ہیں۔ یہ لُوگ امریکہ کی تادیبی کاروائی سے بچ کر نہیں نکل سکتے۔
بعض مبصرین کے مُطابق، صدر ٹرمپ نے اپنی کارکردگی کو نہائت موثر انداز میں پیش کیا ہے۔ وُہ عوام اور دسرے ممالک کے مندوبین کو یہ بتانے میں بھی کامیاب ہو گئے ہیں کہ وُہ شمالی کوریا اور ایران کے گٹھ جُوڑ سے ہر گز خائف نہیں۔ وقت آنے پر وُہ اِن سے نمٹنے کے لئے ہر محاذ پر جنگ کرنے کو تیار ہیں۔وُہ افغانستاں مین جاری لڑائی اور سیاسی اکھاڑ پچھاڑ سے بھی واقف ہیں۔ امریکہ بھارت اور ایران کے کہنے پر پاکستان سے جاری تعلقات کو چشمِ زدن میں توڑنے کا حامی نہیں۔ وُہ پاکستان کے حکام سے افغانستان کے بارے میں پائے جانے تحفظات پر گُفت و شنید کرنے پر رضا مند ہے۔ تاہم ا نہوں نے کشمیر میں ہونے والے مظالم کے بارے میں کُچھ نہیں کہا۔ علاوہ ازیں، وُہ برما میں ہونے والے مظالم پر بھی چُپ رہے ہیں۔فلسطین کے مسئلے پر بھی انُہوں نے کوئی کام نہیں کیا۔ یمن میں جاری لڑائی پر بھی ان نہوںنے خاموشی اختیار کی ہے، ایسا کرکے انہوں نے متعصبانہ روئیے کو برقرار رکھا ہے۔ امریکہ کو اپنے دوستوں کو مطلب نِکل جانے پر چھوڑنا نہیں چاہئے۔ پاکستان جیسے مُلک کو اُسکا جائز مقام مِلنا چاہئے۔ پاکستان کی افواج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی اور اپنے فوجیوں کے خون کی گراں قدر قُربانیا ں دِی ہیں۔ جس کا امریکہ کو اعتراف کرنا چاہئے اور پاکستان کے ساتھ دوستوں جیسا سُلوک روا رکھنا چاہئے۔پاکستان جسیے مُلک کو افغان کے لئے چھُوڑ دینا حماقت ہے۔ مذکورہ بالا مسائل پر بات نہ کرکے خود کو ُمبہم اور متعصب بنا لیا۔ جو کہ تشویش ناک طر ز عمل ہے۔
..
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔