انکوائری ٹربیونل رپورٹ کو عدالتی حکم کا درجہ حاصل ہے اور نہ ہی اسے بطور شہادت قبول کیا جاسکتا
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی نے سانحہ ماڈل ٹاﺅن سے متعلق جسٹس علی باقر نجفی پر مشتمل انکوائری ٹربیونل رپورٹ منظر عام پر لانے اور اس کی نقل سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے متاثرین کے حوالے کرنے کا حکم دیا ہے جس کے بعد پاکستان عوامی تحریک کے راہنماﺅں کی طرف سے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب اور صوبائی وزیرقانون سمیت بڑی شخصیات اب بچ نہیں سکیں گی ۔کیا جوڈیشل انکوائری کی بنیاد پر کسی کے خلاف فوجداری کارروائی عمل میں لاکر اسے سزا دی جاسکتی ہے اور یہ کہ کیا ایسی انکوائری رپورٹ کو بطور شہادت قبول کیا جاسکتا ہے ؟ سانحہ ماڈل ٹاﺅن کی انکوائری کے لئے جسٹس علی باقر نجفی پر مشتمل ٹربیونل ویسٹ پاکستان ٹربیونلز آف انکوائری آرڈیننس مجریہ 1969ءکے تحت قائم کیا گیا تھا جبکہ انکوائری کمشن "پاکستان کمشن آف انکوائری ایکٹ 1956ء"کے تحت تشکیل دیا جاتا ہے ۔ان قوانین کے تحت کی گئی انکوائری کی قانونی حیثیت ،انکوائری رپورٹ کی روشنی میں متعلقہ افراد کے خلاف کارروائی اورسزا کے حوالے سے متعدد عدالتی فیصلے موجود ہیں اور یہ ایک طے شدہ اصول ہے کہ قانونی طور پر جوڈیشل انکوائری کی حیثیت ایک رائے اور سفارش کی ہے۔ذوالفقارعلی بھٹو قتل کیس میں قرار دیا جاچکا ہے کہ جوڈیشل انکوائری رپورٹ کو شہادت کے طور پر قبول نہیں کیا جاسکتا۔اسی عدالتی نظیر کی بنیاد پر اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے متعدد مقدمات میں جوڈیشل انکوائری کو گواہی کے طور پر قبول نہ کرنے کی بابت آبزرویشنز آچکی ہیں۔قانون کے تحت جوڈیشل انکوائری کا مقصد غیر جانبداری کے ساتھ انتظامیہ کو مدد اور راہنمائی فراہم کرنا ہوتا ہے تاکہ انکوائری کے نتائج کی روشنی میں انتظامیہ اپنے لئے درست راستے کا تعین کرسکے۔جوڈیشل کمیشن یا ٹربیونل کوئی عدالت ہے اور نہ ہی وہ کوئی حکم جاری کرنے کا مجاز ہوتا ہے ،جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی نے اپنے فیصلے میں ٹربیونل کی کارروائی کو اس بنیاد پر عدالتی کارروائی قراردیا ہے کہ اس کا ٹربیونل کا سربراہ لاہور ہائی کورٹ کا ایک جج ہے تاہم انہوں نے اسے عدالتی فیصلہ قرار نہیں دیا۔قانون اور عدالتی نظائر کی روشنی میں جوڈیشل انکوائری کی رپورٹ کی بنیاد پر کسی شخص کو سزا نہیں دی جاسکتی۔اسی طرح کسی شخص کے خلاف رپورٹ میں کی گئی سفارشات پر عمل درآمد بھی ضروری نہیں ہے ،اس حوالے سے بھی عدالتی نظائر موجود ہیں جیسا کہ سانحہ گوجرہ کے حوالے سے مسٹر جسٹس اقبال حمید الرحمن کی انکوائری رپورٹ میں اعلی پولیس افسر طاہر رضا کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی تھی اور یہ رپورٹ ان کی کسی اعلی ٰ عہدہ پر تعیناتی کی راہ میں رکاوٹ تھی تاہم اس حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کے بعدطاہر رضا کو سی سی پی او لاہور مقرر کردیا گیا تھا۔انکوائری رپورٹ پر عمل درآمد کرنا یا نہ کرنا حکومت کا صوابدیدی اختیار ہے ،حکومت انکوائری رپورٹ کا جائزہ لینے کے لئے ایک کمیٹی بھی تشکیل دے سکتی ہے جیسا کہ اس حوالے سے پہلے ہی ایک جائزہ کمیٹی قائم کی جاچکی ہے ۔جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی نے اپنے فیصلے میں رپورٹ کو خفیہ رکھنے کی بابت سرکاری صوابدیدی اختیار کو خلاف آئین قراردیا ہے تاہم یہ قرار نہیں دیا کہ اس رپورٹ کی سفارشات پر عمل درآمد بھی ضروری ہے جبکہ اعلیٰ عدلیہ کے لارجر بنچوں کی آبزرویشنز بھی موجود ہیں کہ انکوائری ٹربیونل کی سفارشات کی حیثیت حکم جیسی نہیں ہے اور ان پر عمل درآمد کی حکومت پابند نہیں ہے ، حکومت کے بزرجمہرتو سکینڈلز کو دبانے کے لئے انکوائری کمشن کی تشکیل کو ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہتے ہیں کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ ایسے کمشن کی رپورٹ ایک مشاورتی دستاویز سے زیادہ کی قانونی حیثیت کی حامل نہیں ہے۔جوڈیشل انکوائری کی قانونی حیثیت کے حوالے سے 2013ءکے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے حوالے سے جوڈیشل کمشن کے قیا م کو بھی ایک نظیر کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے ۔جوڈیشل انکوائری کی رپورٹ کی عدالتی حکم کی حیثیت نہ ہونے کے باعث ہی 2013ءکے انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل جوڈیشل انکوائری کمشن ایک نیاقانون جاری کرکے قائم کیا گیا تھا اور یہ قانون تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان ایک معاہدہ کے نتیجہ میں جاری ہوا تھا۔قانونی طور پر جوڈیشل انکوائری کی جو بھی حیثیت ہو اس سے قطع نظر اسے کاغذ کا ایک ٹکڑا قرار نہیں دیا جاسکتا اگر ایسا سمجھا گیا تو یہ ایک بڑی غلطی ہوگی۔ایسی رپورٹوں کی باز گشت دہائیوں تک متعلقہ اشخاص کا پیچھا کرتی ہے جیسا کہ سانحہ سقوط ڈھاکہ کا ذکر حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کے بغیر ناکمل رہتا ہے اور اسی رپورٹ کی بنیاد پر مختلف لوگوں یا اداروں کو ہدف تنقید بنانے کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے ،یہی کچھ سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے حوالے سے انکوائری ٹربیونل کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد ہوگا۔