حکومت نے عوامی بے چینی کے خاتمہ کے لئے ٹربیونل بنوایا پھر رپورٹ کیوں چھپا ئی ؟سانحہ ماڈل ٹاﺅن رپورٹ سامنے لانے کے حکم میں ہائی کورٹ کی آبزرویشن

حکومت نے عوامی بے چینی کے خاتمہ کے لئے ٹربیونل بنوایا پھر رپورٹ کیوں چھپا ئی ...
حکومت نے عوامی بے چینی کے خاتمہ کے لئے ٹربیونل بنوایا پھر رپورٹ کیوں چھپا ئی ؟سانحہ ماڈل ٹاﺅن رپورٹ سامنے لانے کے حکم میں ہائی کورٹ کی آبزرویشن

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور(نامہ نگار خصوصی )لاہور ہائی کورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاﺅن کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ کو عوامی دستاویز قرار دیتے ہوئے ہوم سیکرٹری پنجاب کو حکم دیا ہے کہ جسٹس علی باقر نجفی رپورٹ کی نقل فوری طور پر سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں جاں بحق ہونے والوں کے ورثااور زخمیوں کے حوالے کی جائے ۔مسٹر جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی نے یہ حکم قیصر اقبال اور سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے دیگر19متاثرین کی درخواست منظور کرتے ہوئے جاری کیا ۔فاضل جج نے 19ستمبر کو ان درخواستوں کی سماعت مکمل کرکے اپنا فیصلہ محفوظ کیا تھا جو گزشتہ روز سنادیا گیا ۔فاضل جج نے 16صفحات پر مشتمل اپنے تحریری حکم میں قرار دیا کہ جاں بحق ہونے والوں کے ورثا اور زخمیوں کا حق ہے کہ انہیں سانحہ کے اصل ذمہ داروں کا علم ہو،کسی بھی واقعہ کے متاثرہ شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے عدالت سے رجوع کرے، فاضل جج نے مزید قرار دیا کہ عوام کو بروقت انصاف فراہم نہ کرنے سے عدلیہ کی ساکھ بھی متاثر ہو سکتی ہے، عدالتیں عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کہ ضامن ہیں، سانحہ ماڈل ٹاﺅن کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ عوامی دستاویز ہے، جوڈیشل انکوائری عوام کے مفاد میں کی جاتی ہے اور اسے عوام کے سامنے ہونا چاہیے، جمہوری نظام میں ایسے دردناک واقعہ کے اصل حقائق سے آگاہی عوام کا حق ہے ۔فاضل جج نے اسی نوعیت کی درخواستیں عدالت عالیہ کے فل بنچ میں زیرسماعت ہونے سے متعلق سرکاری وکیل کا اعتراض مسترد کرتے ہوئے قرار دیا کہ فل بنچ کے سامنے کوئی بھی درخواست گزار سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں جاں بحق ہونے والوں کے ورثا میں شامل نہیں ہے جبکہ زیرنظر کیس میں درخواست گزار متاثرہ فریق ہیں ۔فاضل جج نے حکومتی وکیل کا دوسرا اعتراض مسترد کرتے ہوئے قرار دیا کہ 5دسمبر2016ءکو لاہور ہائی کورٹ کے ایک دوسرے فل بنچ نے سانحہ ماڈل ٹاﺅن انکوائری رپورٹ منظر عام پر لانے کی درخواست نہیں بلکہ اس رپورٹ کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کرنے کا حکم جاری کرنے کی درخواست مسترد کی تھی،اس لحاظ سے موجودہ کیس عدالت عالیہ میں زیرسماعت دیگر درخواستوں سے مختلف ہے ۔فاضل جج نے قرار دیا کہ اس بات کا کوئی جواز نہیں ہے کہ جاں بحق ہونے والے افراد کے ورثا کو انکوائری کے نتائج سے لاعلم رکھا جائے ۔ایک متمدن معاشرے میں سرکاری مشینری کا سیاسی مخالفین کو دبانے کے لئے اندھا دھنداستعمال پریشان کن بات ہے ۔اس سانحہ میں ایک حاملہ خاتون سمیت 14افراد جاں بحق ہوئے جبکہ85افراد زخمی ہوئے ،ایسے واقعہ کی انکوائری رپورٹ سے عدم آگاہی کیا ناانصافی نہیں ہے ؟فاضل جج نے قرار دیا کہ حکومت نے خود انکوائری ٹربیونل قائم کیا تھا اور اس بابت 17جون 2014ءکو رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ کو یک رکنی ٹربیونل کے قیام کے لئے مراسلہ بھیجا تھا اس میں کہا گیا تھا کہ سانحہ ماڈل ٹاﺅن سے عوام میں بے چینی پائی جاتی ہے اور اس سانحہ پر مقامی اور بین الاقوامی میڈیا نے توجہ مرکوز کررکھی ہے ،اس لئے ضروری ہے کہ جلد از جلد اس کے حقائق منظر عام پر لائے جائیں ۔فاضل جج نے قرار دیا کہ حکومت نے خود حقائق منظر عام پر لانے کے لئے ٹربیونل قائم کیا تھا ،اب عوام کو اطلاعات تک رسائی کے حق سے محروم نہیں رکھا جاسکتا ۔فاضل جج نے قانون شہادت اور اطلاعات تک رسائی کے قانون مجریہ 2013ءکا حوالہ دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ ٹربیونل کی کارروائی ایک عوامی دستاویز ہے جس کے بارے میں معلومات حاصل کرنا عوام کا حق ہے ۔فاضل جج نے قراردیا کہ حالات وواقعات کے مطابق انصاف کی فراہمی عدالتوں کا اختیار ہے ۔ ٹربیونل کی رپورٹ پبلک کرنا جمہوری نظام کا تقاضا ہے کیونکہ جمہوری نظام میں عوام کی رضامندی ہی ملحوظ خاطر ہوتی ہے اور عوام کی رضامندی اور آئینی حق کو دبایا نہیں جا سکتا، ایسا کرنا اور عوام کو معلومات نہ دینا نظام کو لپیٹنے کے مترادف ہے، پنجاب حکومت معلومات کی رسائی کے اپنے ہی قانون سے منحرف ہوئی۔فاضل جج نے اپنے فیصلے میں ٹربیونل کی کارروائی کو عدالتی کارروائی قرار نہ دینے کا پنجاب حکومت کا مﺅقف مسترد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ قانون شہادت کی دفعہ 85کے تحت ٹربیونل کی کارروائی عدالتی کارروائی ہے، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ انصاف میں تاخیر ناانصافی کے مترادف ہے، عدلیہ عوام کے بنیادی آئینی حقوق کی محافظ ہے، قانون کی بالادستی ہر مہذب ملک کی ذمہ داری ہے۔ فاضل جج نے اپنے فیصلے میں رپورٹ پبلک نہ کرنے کے حکومتی صوابدیدی اختیار کو آئین کے منافی قراردیتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ آئین اور اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے قانون کی بالادستی کا کہتے ہیں اور صوابدیدی اختیارات قانون کی بالادستی کے تصور سے ہی متصادم ہیں، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اسلامی نظام انصاف بھی مکمل طور پر قانون کی بالادستی پر بنیاد کرتا ہے، اسلامی نظام انصاف سے انحراف آئین کے آرٹیکل 2( اے )سے متصادم ہے جبکہ اسلامی نظام انصاف سے انحراف اعلیٰ عدلیہ کے ججوںکے حلف کے بھی منافی ہے ۔

مزید :

لاہور -