اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 41
میں انسانی سانپ قنطور کے ساتھ اس کی کوٹھری میں رہنے لگا۔ قنطور دن بھر غائب رہتا اور شام کو واپس آتا۔ بابل شہر میں بنی اسرائیل کے اسیروں پر گھناؤنے ظلم و ستم ہو رہے تھے۔ وہ خود بھی بھوک اور قیامت خیز تپش کے باعث مر رہے تھے اور بعض سپاہی محض تماشا دیکھنے کی خاطر کسی قیدی کو کیمپ سے نکال کر شہر میں لے جاتے اور لوگوں کے سامنے اسے اذیتیں دے دے کر ہلاک کر ڈالتے۔
قنطور شاید اس تلاش میں تھا کہ کسی یہودی قیدی کو پھانسی پر لٹکایا جائے اور وہ اس کی لاش کسی طریقے سے نکال کر صحرائی ٹیلے کی سرنگ میں لے آئے کیونکہ پہلی ہی شام شہر سے واپس آنے پر اس نے مجھے بتایا کہ شہر میں تمہارے بھائی بندوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ اس کی باتوں سے اندازہ ہو ا کہ قنطور کو اس بات کا افسوس تھا کہ قیدیوں کو تیروں اور تلواروں سے قتل کیا جا رہا تھا مگر کسی کو پھانسی پر لٹکایا نہیں جا رہا تھا۔ اسے تو پھانسی یافتہ لاش کی تلاش تھی۔ مجھے قنطور کی کوٹھری میں رہتے ہوئے تیسرا دن جا رہا تھا۔ میں بستی سے باہر کبھی نہیں کیا تھا۔ قنطور نے بستی والوں کو میرے بارے میں بتا دیا تھا کہ میں زندہ بچ گیا ہوں اور اب اس کا مہمان ہوں۔ بستی کے لوگ مہمانوں کا بڑا خیال رکھتے تھے اور قنطور کی بھی بڑی عزت کرتے تھے چنانچہ کسی طرف سے میری مخبری کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ میں نے قنطور کے ساتھ نفتانی کی باتیں کرنی شروع کردی تھیں اور اسے بتایا تھا کہ میں اس سے شادی کرنا چاہتا تھا اور ہم ایک دوسرے سے بڑے محبت کرتے تھے۔ یروشلم پر بخت نصر کی فوجوں نے حملہ کر دیا اور ہمیں غلام بنا کر بابل لے آیا گیا۔ اب میں اس کی یاد میں تڑپ رہا ہوں۔ میں نے جیب سے نفتانی کے کان کا سبز نگینے والا بندہ نکال کر دکھایا اور کہا۔ ’’ یہ بندہ نفتانی کا ہے۔ کاش کوئی مجھے یہ بتا دے کہ جس عورت کے پاس اس قسم کا دوسرا بندہ ہے وہ کہاں ہے؟‘‘ انسانی سانپ قنطور نے سبز نگینے والے بندے کو ہاتھ میں لے کر غور سے دیکھا۔ میں چاہتا تھا کہ وہ ایک بار اسے سونگھ لے۔ جلد ہی میری یہ حسرت بھی پوری ہگئی اور قنطور نے چونکہ وہ سانپ تھا اس لئے اپنی فطرت سے مجبو رہو کر بندے کو ناک کے پاس لے جا کر سونگھا۔ پھر اسے خیال آیا کہ اس کی اس حرکت سے میں کسی شک میں نہ پڑ جاؤں جلدی سے بندہ ناک سی ہٹا کر مسکراتے ہوئے بولا کہ اس بندے سے یروشلم کے مہندی کے پھولوں کی خوشبو آ رہی ہے۔ میں جانتا تھا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔
اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 40 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں نے قنطور سے کہا۔ ’’ میں تو شہر نہیں جا سکتا۔ تم روزانہ شہر جاتے ہو۔ میری منگیتر کا سراغ لگانے کی کوشش کرو۔ میں تمہارا یہ احسان زندگی بھر نہ بھلا سکوں گا۔ ‘‘
قنطور بولا۔ ’’ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ شہر میں ہزاروں عورتیں ہیں اور پھر یروشلم لوئی گئی عورتوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے۔ اتنے ہجوم میں تمہاری منگیتر کو کہاں سے ڈھونڈتا پھروں ؟‘‘
میں نے کہا۔’’ پھر بھی تم کوشش کرنا میرے دوست ! مجھے معلوم ہے کہ وہ جان بوجھ کر ایسا کہہ رہا ہے۔ اس کے لئے اب میری منگیترکا پتہ چلانا کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ بندہ سونگھنے کے بعد وہ بہ آسانی نفتانی کو تلاش کر سکتا تھا۔
اگلے دن دوپہر کے بعد وہ شہر سے واپس آیا تو بڑی ہی پر اسرار مسکراہٹ کے ساتھ مجھے بتایا کہ نفتانی کا سراغ مل گیا ہے۔ میں بہت خوش ہوا اور ازحداشتیاق کے ساتھ پوچھا کہ وہ کس جگہ پر رہتی ہے؟ انسانی سانپ قنطور نے بتایا کہ اس نے میری منگیتر کو دیکھا تو نہیں مگر اسے کسی عورت نے بندہ دیکھ کر خبر دی ہے کہ ایک حسین و جمیل عورت شہر کی ایک شاندار حویلی میں رہتی ہے جس کے پاس اس قسم کا دوسرا بندہ موجود ہے۔ میں سمجھ گیا کہ قنطور نے عورت کی مخبری کا بہانہ بنایا ہے اصل میں اس نے شہر کی ایک حویلی سے آتی میری منگیتر نفتانی کی بوسنگھی ہے۔ بہرحال یہ میرے لئے بڑی مسرت کی بات تھی۔ میں نے اسے کہا کہ وہ مجھے ابھی شہر لے جا کر وہ حویلی دکھائے شاید انسانی سانپ قنطور بھی یہی چاہتا تھا کہ میں اس سے الگ ہوجاؤں۔ بولا ’’ چلو ابھی چلو۔‘‘
دن ڈھل رہا تھا ہم دونوں گھوڑوں پر سوار ہوگئے اور شہر کی طرف چل پڑے۔ ہم نے شام ہونے سے پہلے پہلے تیز رفتار گھوڑوں کی مدد سے صحرا پار کر لیا اور بابل شہر ک جنوبی دروازے کی طرف بڑھا۔ دھوپ کا رنگ بابل شہر کی عمارتوں، شاہی محل اور مینار بابل کی سرخ و سپید اینٹوں پر قرمزی ہو رہا تھا۔ بخت نصر کی چہیتی بیوی کے شاہی محل کے معلق باغات کے درختوں کے جھنڈ شام کے بڑھتے ہوئے اندھیروں میں ڈوب رہے تھے۔ میں نے اپنا حلیہ بدلنے کے لئے سر پر نیلے رنگ کا رومال باندھ لیا تھا اور کاندھوں پر سیاہ چادر ڈال رکھی تھی۔
ہم جنوبی دروازے سے نکل کر شہر میں داخل ہوگئے۔ مکانوں، دکانوں اور سراؤں کے باہر کہیں کہیں دیئے روشن ہوگئے تھے۔ کہیں کہیں لوگ دکانوں کے باہر لکڑی کی کرسیوں پر بیٹھے مشروبات سے دل بہلا رہے تھے۔ یہ آج سے تین پونے تین ہزار سال پہلے کا بابل شہر تھا۔ زندہ انسانوں ، حسین عورتوں کی خوشبوؤں اور خونخوار سپاہیوں کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے گونجتا ہوا شہر بابل انسانی سانپ قنطور میرے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ میں بھی گھوڑے پر سوار تھا اور گھوڑے کو قدم قدم چلاتا قنطور کی رہنمائی میں شہر کی اس حویلی کی طرف بڑھ رہا تھا جس میں میری محبوبہ رہتی تھی۔ اس حویلی میں وہ یقیناًایک کنیز کی حیثیت سے رہ رہی ہو گی۔ بابل کا کوئی امیر تاجر اسے خرید کر لے گیا ہوگا۔ شہر کی پختہ شاہراہ پر سے گزرتے ہوئے ہم مینار بابل کے قریب پہنچے تو اچانک پہلو میں دو بابلی سپاہی تلواریں کھینچ کر چلائے۔‘‘ اسرائیلی قیدی جانے نہ پائیں۔‘‘ اور ہم پر حملہ کر دیا۔ ہم نے گھبرا کر گھوڑے ساتھ والی تنگ شاہراہ پر موڑ دیئے۔ سپاہی ہم پر چڑھے آرہے تھے۔ وہ نعرے لگا رہے تھے۔ سڑک آگے جا کر ایک گلی میں تبدیل ہوگئی۔ قنطور نے چلا کر کہا۔ ’’ اس حویلی میں گھس جاؤ۔‘‘ ہم نے گھوڑوں پر سے چھلانگیں لگا دیں اور گلی میں ایک کھلی حویلی کے اندر گھس گئے۔ سپاہی بھی مارومار کرتے تلواریں لہراتے ہمارے پیچھے پیچھے آئے۔ انہوں نے ڈیوڑھی میں ہمیں جا لیا۔ یہاں نیم اندھیرا تھا۔ میں نے قنطور کو ڈیوڑھی کے کونے میں اندھیرے کی طرف جاتے دیکھا۔ اس کے بعد وہ مجھے نظر نہ آیا۔ یقیناًوہ انسانی شکل کو تبدیل کر کے سانپ بن گیا تھا اور اپنی جان بچانے کے لئے کونے میں چھپ گیا تھا۔
دونوں سپاہی اب میرے سر پر پہنچ گئے تھے۔ انہوں نے پے درپے مجھ پر تلواروں کے وار کرنے شروع کر دیئے۔ میں اپنا سر گھٹنوں میں چھپائے اکڑوں بیٹھا تھا اور سپاہی میرے جسم پر دھڑا دھڑ تلواریں مار رہے تھے۔ وہ تلواریں چلاتے چلاتے تھک گئے۔ ان کی تلواریں ٹوٹ گئیں مگر مجھ پر کوئی اثر نہ ہوا۔ نیم اندھیرے میں انہیں زیادہ پتہ نہ چل سکا۔ میں یوں زمین پر گر پڑا جیسے مرگیا ہوں۔ مجھے مردہ سمجھ کر وہ یہ کہتے ہوئے ڈیوڑھی سے باہر نکل گئے کہ اس کے ساتھی کو تلاش کرو۔ وہ یہیں کہیں ہوگا۔
میں ابھی ڈیوڑھی کے فرش پر پڑا تھا کہ مجھے اپنے کندھے پر کسی انسانی ہاتھ کا دباؤ محسوس ہوا۔ میں نے آنکھیں کھول دیں۔ میرا سانولا میزبان انسانی سانپ قنطور مجھ پر جھکا مجھے گہری پر کشش آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے میری کمر او رگردن پر ہاتھ پھیر کر اچھی طرح سے دیکھا پھر بولا۔
’’ کیا تم چل سکتے ہو؟‘‘
وہ مجھے اپنے ساتھی ڈیوڑھی کا زینہ چڑھ کر شہ نشین میں لے گیا۔ ییہ شہ نشین ویران تھی اور فرش پر دری بچھی ہوئی تھی۔ قنطور میری طرف برابر تکے جا رہا تھا۔ وہ پلکیں نہیں جھپک رہا تھا۔ میں نے اداکاری کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
’’ خدا کا شکر ہے کہ ہماری جان بچ گئی ۔‘‘
انسانی سانپ قنطور نے میرے شان پر ہاتھ رکھ دیا اور میرے چہرے پر نظریں گاڑ کر بولا۔ ’’ تم کون ہو؟‘‘ اس مختصر سوال نے مجھے سر سے پاؤں تک چونکا دیا۔ مجھے یوں لگا جیسے میں چوری کتے ہوئے پکڑا گیا ہوں۔ میں قنطور کے طرف دیکھا تو میری طرف دیکھ رہا تھا۔ اب کچھ چھپانے سے کوئی فائدہ نہیں تھا۔ وہ میری خفیہ طاقت سے آگاہ ہو چکا تھا۔ اب میں مسکرایا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کی سانپ جیسی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔
’’ میرے دوست ! اس سے پہلے کہ میں تمہیں اپنے بارے میں کچھ بتاؤں۔ کیا تم مجھے بتاؤ گے کہ جس وقت سپاہیوں نے ہم پر حملہ کیا اور ہم اس مکان کی ڈیوڑھی میں داخل ہوئے تو تم کہاں غائب ہوگئے تھے؟‘‘
قنطور پر میرے اس سوال کا کوئی زیادہ اثر نہیں ہوا تھا۔ اس کے تو خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ میں اس کے سانپ ہونے کی اصلیت سے باخبر ہو چکا ہوں۔ اس نے بے نیازی سے کہا۔
’’ میں کونے میں چھپ گیا تھا۔ دیوتا مجھ پر مہربان تھے کہ مجھ پر سپاہیوں کی نظر نہیں پڑی لیکن میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ دونوں سپاہی تلواروں سے تمہارا قیمہ کر رہے تھے۔ ان کی تلواریں بھی ٹوٹ گئیں مگر تمہارے جسم پر ایک خراش تک نہیں آئی۔ کیا تم مجھے نہیں بتاؤ گے کہ اصل میں تم کون ہو اور یہ طاقت تمہارے اندر کہاں سے آئی؟‘‘
میں نے قنطور کا دوسرا ہاتھ بھی اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور کہا۔
’’ میرے دوست ! میں جانتا ہوں کہ ڈیوڑھی کے کونے میں تم نہیں تھے یا اگر تھے تو کسی دوسری شکل میں تھے۔‘‘
یہ جملہ قنطور پر گویا بجلی بن کر گرا۔ اس نے اپنے ہاتھ چھڑا لئے اور پرے ہٹ کر مجھے دہشت خیز نگاہوں سے تکنے لگا۔ میں نے اسے سنبھلنے کا موقع نہ دیا اور کہا۔
قنطور ! مجھ سے اپنا آپ چھپانے سے کچھ حاصل نہ ہوگا اس لئے کہ تم جو کچھ ہو اس کا مجھے علم ہوچکا ہے۔ میں نے پہلے دن جب سفید کلغی والے کالے ناگ کو تمہارے کوٹھری میں داخل ہوتے دیکھا تھا اور پھر تم نے دروازہ کھول کر مجھے بتایا کہ کوٹھری میں سانپ نہیں آیا تو مجھے اسی وقت شک ہوگیا تھا لیکن جب تم میری زندہ لاش کو ٹیلے کی سرنگ میں لے گئے اور ایک مہاناگ کی شکل اختیار کر کے تم نے رشی ناگ کے ہیولے سے باتیں شروع کیں تو میں دیکھ رہا تھا اور تمہاری باتیں بھی سن رہا تھا۔ تم رشی ناگ سے کہہ رہے تھے کہ تم ایک تازہ پھانسی یافتہ لاش لے آئے ہو۔ اب تمہیں تیسری کرامت عطا کی جائے تاکہ تم سانپ کے علاوہ بھی جو چاہو شکل اختیار کرسکو۔ مگر رشی ناگ نے تمہیں بتایا کہ لاش زندہ ہے۔ میں نے اپنی منگیتر کے کان کا بندہ بھی تمہیں اس لئے دیا تھا کیونکہ میں جانتا تھا کہ تم اصل میں سانپ ہو اور ندے میں سے انسانی بو سونگھ کر میری محبوبہ کا سراغ لگا سکو گے ۔۔۔ بولو، تمہیں اور کیا بتاؤں؟‘‘ انسانی سانپ قنطور کا چہرہ سیاہ پڑنے لگا اور اس کی آنکھیں سرخ سے سرخ تر ہوتی چلی گئیں۔ اس کی آنکھوں سے وحشت ٹپک رہی تھی۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پرھنے کیلئے یہاں کلک کریں )