مشتاق سکھیرا کی برطرفی غیر قانونی قرار

مشتاق سکھیرا کی برطرفی غیر قانونی قرار

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی ٹیکس محتسب مشتاق سکھیرا کی برطرفی کا حکم کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کی فوری بحالی کے لئے کہا ہے۔چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے وزارتِ قانون کی کارکردگی پر بھی سوالات اُٹھا دیئے اور مشتاق سکھیرا کو ہٹانے کی سمری تیار کرنا وزارتِ قانون کی غلطی قرار دے دیا اور مستقبل میں ایسی غلطی نہ دہرانے کی تنبیہہ کی۔ اپنے 26 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں فاضل چیف جسٹس نے قرار دیا کہ مشتاق سکھیرا کو عہدے سے ہٹانے کا حکم غیر آئینی ہے، وزارتِ قانون کی غیر سنجیدہ اور آئین سے ماورا سمری کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ اٹارنی جنرل وزارتِ قانون کے مختلف بیانات کی وضاحت نہیں کر سکے۔ وزارتِ قانون کی سمری کے آئینی طور پر شدید اور کئی دہائیوں کی تعیناتیوں پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ مشتاق سکھیرا کو جس طریقے سے برطرف کیا گیا وہ عہدے کی آزاد حیثیت سلب کرنے کے مترادف ہے،اٹارنی جنرل انور منصور نے عدالت کے روبرو تسلیم کیا کہ مشتاق سکھیرا کے خلاف کوئی چارج شیٹ تھی نہ حکومت کی جانب سے اُن کے خلاف کسی قسم کا کریمینل کیس زیر التوا ہے۔
ٹیکس محتسب کا منصب آئینی ہے اور اس پر جو شخص متعین ہوتا ہے طریق ِ کار کے مطابق وہ معینہ مدت تک اس پر برقرار رہ سکتا ہے۔اگر کسی وجہ سے اس عہدیدار کو ہٹانا ضروری ٹھہر جائے تو اس کا طریق ِ کار بھی طے ہے،جس پر عمل کر کے اسے ہٹانا ممکن ہے،لیکن مشتاق سکھیرا کے معاملے میں یہ طریق ِ کار اختیار نہ کیا گیا اور وزارتِ قانون سے ایک سمری تیار کرا کے جس پر ہائی کورٹ نے اب برہمی کا اظہار کیا ہے،اُنہیں اُن کے منصب سے ہٹا دیا گیا۔سوال یہ ہے کہ حکومت اُنہیں کیوں ہٹانا چاہتی تھی؟،جبکہ وہ اپنے منصب کے تقاضوں کو پیش ِ نظر رکھ کرکام کر رہے تھے،بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ حکومت کا کوئی اعلیٰ منصب دار یہ چاہتا ہو گا کہ مشتاق سکھیرا کو ہٹا کر اُن کی جگہ پارٹی کا کوئی وفادار متعین کر دیا جائے،ایسے بہت سے لوگ اقتدار کی راہ داریوں میں مسلسل اِدھر اُدھر بھاگ دوڑ کرتے پھرتے ہیں،بہت سے پارٹی ورکروں کو سرکاری عہدوں پر بٹھا دیا گیا ہے اور جن کی تاحال لاٹری نہیں نکلی وہ کوششیں کر رہے ہیں، مشتاق سکھیرا اپنی برطرفی کے بعد خاموشی سے گھر چلے جاتے تو اُن کی جگہ کوئی انصافیا آ گیا ہوتا اور من پسند انصاف پسندیاں دکھا بھی رہا ہوتا،لیکن مشتاق سکھیرا حکومت کے غیر قانونی اور صاف نظر آنے والے بدنیتی پر مبنی حکم کے سامنے ڈٹ گئے اور اپنی برطرفی کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا، جہاں سے اُنہیں نہ صرف ریلیف ملا ہے، بلکہ آئندہ سے بھی ایسے کیسز میں من مانیوں کا راستہ بند ہو گیا ہے اور اگر کوئی ڈھٹائی کے ساتھ ایسا کرے گا، تو اس فیصلے کا حشر بھی وہی ہو گا، جو مشتاق سکھیرا کے فیصلے کا اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیا ہے۔
حکومت ایسا ہی ایک فیصلہ الیکشن کمیشن کے دو ارکان کے تقرر کے سلسلے میں کیا ہے اور صدر نے اپنے ”صوابدیدی اختیارات“ کے تحت جن کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں اور سپریم کورٹ اِس سلسلے میں فیصلہ بھی دے چکی ہے، سندھ اور بلوچستان کے دو ارکان کا تقرر کر دیا تھا،جس پر حکومت نے نوٹیفکیشن کرتے ہوئے اِن ارکان کو حلف اٹھانے کی ہدایت کی،لیکن جب یہ ارکان الیکشن کمیشن پہنچے تو اُنہیں بتایا گیا کہ ان کا تقرر خلافِ آئین ہے اِس لئے اُن سے حلف نہیں لیا جائے گا، اس پر کئی وزراء نے بیان بازی شروع کر دی،حالانکہ بادی النظر میں یہ نوٹیفکیشن بھی غیر قانونی تھا اور چیف الیکشن کمشنر صاف طور پرکہہ چکے تھے کہ ان ارکان کا تقرر کرتے ہوئے آئین میں درج طریق ِ کار اختیار نہیں کیا گیا،اِس لئے ان ارکان سے حلف نہیں لیا جائے گا،اب حکومت اس فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کر چکی ہے،جہاں سے جو بھی فیصلہ ہو گا اس پر عمل درآمد ہو گا،لیکن سوال یہ ہے کہ حکومت من مانے فیصلے آخر کرتی ہی کیوں ہے اور کیوں کوئی بھی حکم جاری کرنے سے پہلے اپنے قانونی ماہرین سے مشاورت نہیں کرتی،کیا حکومت کو کسی نے نہیں بتایا تھا کہ الیکشن کمیشن کے ارکان کے تقرر کے سلسلے میں چونکہ آئینی طریق ِ کار نہیں اپنایا گیا،اِس لئے ان ارکان کو حلف اٹھانے میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں اور اگر بتایا تھا تو حکومت نے من مانی کیوں کی؟
آئی ایم ایف کی خواہش پر جس انداز میں سٹیٹ بینک کے گورنر طارق باجوہ کو ہٹایا گیا وہ بھی بُرے فیصلے کی کلاسک مثال ہے،جنہیں اسلام آباد طلب کر کے استعفا لے لیا گیا، وہ شریف آدمی تھے کسی تنازع میں اُلجھنے سے گریز کرتے ہوئے انہوں نے استعفا دے دیا وہ نہ دیتے تو حکومت کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا کہ انہیں ہٹاتی اور مصر سے ماہر امپورٹ کرتی۔اگر مشتاق سکھیرا کی طرح ہٹا دیا جاتا تو وہ بھی عدالتی حکم کے ذریعے بحال ہو سکتے تھے،اسلام آباد ہائی کورٹ کے تازہ فیصلے سے یہ سبق سیکھنا ضروری ہے کہ حکومت غیر قانونی فیصلے نہ کرے،وزارتیں غیر قانونی سمریاں بنانے سے گریز کریں اور ہر کام قانون کے مطابق کریں۔بیورو کریٹس کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ اعلیٰ افسروں کی ہاں میں ہاں ملاتے رہیں اور غیر قانونی کام کرتے رہیں اُن کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ قانونی احکام مانیں اور غیر قانونی حکم ماننے سے صاف انکار کر دیں اور یہ کام باقاعدہ لکھ کر بھی کر سکتے ہیں،ایسی صورت میں اُن کی قانونی پوزیشن بھی مضبوط ہو گی،کیونکہ کوئی اعلیٰ افسر غیر قانونی حکم پر اصرار کر سکتا ہے، نہ اپنے ماتحت سے اسے کسی حکم پر عمل کرنے پر زور دے سکتا ہے۔یہ جو بعض وزراء کہتے رہتے ہیں کہ جوکوئی حکم نہیں مانے گا گھر جائے گا۔یہ بھی ایسی بات کرتے ہیں جو قابل ِ گرفت ہے، کسی کو قانونی طریقے سے ہی گھر بھیجا جا سکتا ہے، ذاتی خواہش سے نہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے تازہ فیصلے سے وزارتوں کی غیر قانونی سمریوں کا راستہ تو بند ہو گیا ہے اور آئینی عہدیداروں کی برطرفیوں کا سلسلہ بھی بظاہر رُک گیا ہے۔یہ فیصلہ آئین و قانون کی حکمرانی کی راہ میں شاندار فیصلہ تصور ہو گا۔

مزید :

رائے -اداریہ -