دومرلے میں باتھ روم بنانے والا، دو گزقبر کو بھول گیا
نیب کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے سابق چیئرمین پی ایچ اے کراچی لیاقت علی کے پاس وہ کون سا الٰہ دین کا چراغ تھا، جسے رگڑ کر وہ ارب پتی بن گیا اور دوسرا اس نے وہ کون سی سلیمانی ٹوپی پہن رکھی تھی، جس کی وجہ سے اس کی لوٹ مار کسی کو نظر نہ آئی۔ لوٹ مار تو کیا نظر آنی تھی، الٹا اسے حسنِ کارکردگی پر ستائشی تمغے ملتے رہے۔ یہ لیاقت علی جیسے کردار ہی تو حکمرانوں کو درکار ہوتے ہیں جو سونے کی چڑیا بن کر انہیں بھی مالامال کرتے ہیں اور اپنی بھی تجوریاں بھر لیتے ہیں۔ تجوریوں سے یاد آیا موصوف کے گھر سے دو تجوریاں بھی ملی ہیں، جنہیں ابھی تک نیب کھول نہیں سکی، کیونکہ لیاقت علی نے ان کی چابیاں ہی نہیں دیں۔ سندھ میں یہ کیا ہوتا رہا ہے؟ اب لیاقت علی کے بارے میں تو یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ اس کے خلاف سیاسی انتقامی کارروائی ہو رہی ہے، اس کا تو کبھی سیاست سے لینا دینا ہی نہیں رہا، مگر دو ایکڑ پر اپنا بنگلہ بنانے والا یہ محیر العقول کردار کسی سیاسی سرپرستی کے بغیر کیسے پروان چڑھتا گیا ہے۔ یہ مالی بھرتی ہوا تھا، مگر اپنی نجانے کون سی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر وہ بیسیویں گریڈ تک پہنچ گیا۔
اتنی آسائشیں تو شاید بلاول ہاؤس کراچی میں بھی نہ ہوں، جتنی اس شخص نے اپنے گھر میں بنا رکھی ہیں۔ کئی مجھ جیسے چھوٹے گھروں میں رہنے والوں کے تو ابھی تک یہ سن کر ہوش ٹھکانے نہیں آئے کہ اس واجبی سی شکل والے شخص نے صرف اپنے نہانے دھونے کے لئے دومرلے پر مشتمل باتھ روم بنایا ہوا ہے۔ جس صوبے میں کتا کاٹنے کی ویکسین تک دستیاب نہیں اور بچے سڑک پر تڑپ تڑپ کر مر جاتے ہیں، اسی صوبے میں ایک عام سا سرکاری ملازم دو مرلے کا شاہانہ باتھ روم رکھتا ہے اور کسی کی نظروں میں نہیں آتا۔ اسے سندھ میں کس نے کھلی چھوٹ دیئے رکھی، یہ کس کا فرنٹ مین تھا۔ اس نے خود اربوں روپے لوٹے تو انہیں کتنے لوٹ کر دیئے ہوں گے جو اس کے سیاسی سرپرست ہیں، جنہوں نے اس کی ہر کرپشن پر آنکھیں بند کئے رکھیں اور یہ قومی خزانہ لوٹ کر اپنا خزانہ بھرتا رہا۔
اب اس آدمی کے بھی کئی حمایتی نکل آئیں گے۔ کئی کہیں گے بھائی یہ تو ذوالفقار علی بھٹو سے بھی بڑا زمیندار ہے، اس کے لئے کیا مشکل ہے کہ دو ایکڑ کے گھر میں بارہ گاڑیوں کے ساتھ رہے اور سونے چاندی کے فانوس لٹکائے۔ نیب کو اتنا ظلم نہیں کرنا چاہیے، وگرنہ لوگ دو ایکڑ کے گھر بنانا چھوڑ دیں گے اور باتھ روم تو بنائیں گے ہی نہیں، جس کی وجہ سے ملک میں سینٹری کی صنعت کا بھٹہ بیٹھ جائے گا۔ سندھ کی حالت کو چھوڑیں،کراچی کی حالت کو دیکھیں۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس کراچی میں جہاں کچرے کے ڈھیر لوگوں کی زندگی اجیرن کر چکے ہیں اور نکاسی و فراہمیء آب کا نظام تباہ و برباد ہو چکا ہے، وہاں ایک سرکاری کارندہ سعودی شہزادوں جیسے گھر میں زندگی گزار رہا ہے۔
یہ شخص کراچی کے باغات کی خوبصورتی کا ذمہ دار تھا، اس کے ہوتے ہوئے کراچی کا سبزہ غائب ہوا، باغات اجڑ گئے، حتیٰ کہ قائداعظمؒ کے مزار کا جناح پارک بھی برباد ہو گیا، مگر اسے کسی نے کچھ نہ کہا، الٹا جب یہ ریٹائر ہو گیا تو سرکار کی چھتری رکھنے کے لئے اسے میئر کراچی کا مشیر بنا دیا گیا۔ یہ سب کچھ کوئی شخص تن تنہا نہیں کر سکتا۔ وہ کسی مافیا کا کارندہ ہوتا ہے، جس کے ذریعے قومی خزانے کی لوٹ مار کی جاتی ہے۔ جب ایسے لوگ کراچی پر مسلط ہوں گے تو کراچی کا وہی حال ہو گا جو آج نظر آ رہا ہے۔ کریڈٹ نیب کو بھی ملنا چاہیے کہ اس نے کراچی کے کچرے میں سے یہ ”ہیرا“ تلاش کیا ہے۔ نیب کے ریڈار پر نہ آتا تو اس کی راجدھانی میں بھلا کس نے جھانکنا تھا۔ یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ حکمران کرپٹ ہوں تو ان کی چھتری تلے کرپشن کے کنگ پروان چڑھتے ہیں، یہ تو اب لیاقت علی بتائے گا کہ اس نے کسے نوازا اور بدلے میں کیسے اتنی دولت کے انبار لگائے؟
ہمارا قومی المیہ یہ ہے کہ ہم نے ابھی تک یہ تسلیم نہیں کیا کہ اس ملک میں بدعنوانی ایک بڑا ناسور ہے اور وطن عزیز کو بُری طرح لوٹا گیا ہے۔ آج بھی کرپشن کو سیاسی انتقام کا نام دیا جاتا ہے۔ اتنے واضح شواہد سامنے آنے کے باوجود ”ایک دھیلے کی کرپشن نہیں کی“کا بیانیہ سامنے لا کر پردہ پوشی کی جاتی ہے۔ جس بدعنوان کو پکڑو، دو باتیں ضرور سامنے آئیں گی، اول اسے سیاسی انتقام کہا جائے گا اور دوسرا پکڑے جانے والا فوراً سو بیماریوں میں مبتلا ہو کر ہسپتال میں جا لیٹے گا۔ گرفتاری سے پہلے وہ ہشاش بشاش، چوکڑیاں بھرتا دکھائی دے گا اور جب ضمانت پر رہا ہو جائے گا، تب بھی اس کی چستی و چالاکی نمایاں نظر آئے گی، لیکن نیب کی زیر حراست وہ بیمار ہونے کی ایسی شاندار اداکاری کرے گا کہ ڈاکٹر بھی چکرا کررہ جائیں گے۔
یہ لیاقت علی بھی ایک دو روز میں دل کا عارضہ بیان کر دے گا، جیسے خورشید شاہ جن کی صحت پر ساتھی رشک کرتے تھے۔ نیب کی حراست میں آتے ہی بستر علالت پر جا پڑے۔ دل کی دھڑکن بے ترتیب ہو گئی اور بلڈ پریشر نے بھی آ لیا۔ نیب کی گاڑی میں وہ مونچھوں کو تاؤ دیتے سوار ہوئے تھے، لیکن جلد ہی انہیں یہ تاؤ شاؤ بھول گیا۔ شاباش دینی چاہیے مریم نواز اور خواجہ برادران کو، اس میں شاہد خاقان عباسی کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے، جنہوں نے نیب کی حراست میں بیماری کا ڈرامہ نہیں کیا۔ پیپلزپارٹی اس میں خاصی ماہر ثابت ہوئی ہے۔
ڈاکٹر عاصم حسین، شرجیل میمن، فریال تالپور، آصف علی زرداری اور اب خورشید شاہ گرفتار ہوتے ہی پہلے ہسپتال ضرور گئے۔ آج کل کے ڈاکٹر بھی بڑے ظالم ہو گئے ہیں۔ پہلے ایسے معاملات میں نرمی دکھاتے اور بیماری کا لمبا چوڑا سرٹیفکیٹ لکھ دیتے تھے، مگر اب سیدھا فٹ قرار دے کر جیل یا نیب کے پاس بھیج دیتے ہیں۔ فریال تالپور کا قصہ تو اس حوالے سے خاصا مشہور ہے کہ وہ بیماری کے نام پر پمز میں داخل ہوئیں، لیکن اسی رات ڈاکٹروں نے انہیں فٹ قرار دیا اور بھر آدھی رات کو اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا۔ نوازشریف کے بارے میں چند ماہ پہلے تک بیماری کا جو بڑا شور و غوغا تھا اور ان کی زندگی کو خطرات لاحق ہونے کے بیانات جاری کئے جا رہے تھے، وہ اب کہیں سنائی نہیں دیتے۔ اُلٹا ان کی درخواست ضمانت پر خواجہ حارث نے تین ماہ دلائل دینے کا وقت مانگ لیا ہے۔
سو ہمارے ہاں ایسے معجزے ہوتے رہتے ہیں۔ شواہد ملک کی بدحالی، عام آدمی کی اجیرن زندگی، شہروں کی بُری حالت، قومی خزانے پر قرضوں کا بوجھ یہ سب کچھ پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ اس ملک کو بُری طرح، بلکہ بڑی بے دردی سے لوٹا گیا ہے، مگر یہ بات قومی بیانیہ نہیں بن سکی، بس ایک سیاسی الزام کی صورت گردش کرتی رہتی ہے۔ لیاقت علی جیسا کوئی کردار سیاسی آشیرباد کے بغیر پروان نہیں چڑھ سکتا۔ سوال یہ ہے کہ ایسے کرداروں کو سیاسی حکمران طبقے پروان ہی کیوں چڑھنے دیتے ہیں؟ ظاہر ہے یہ معاملہ ”کچھ تم کچھ ہم“کا ہے۔ سیاسی شخصیات کو ایک سرکاری آلہ ء کار کی ضرورت ہوتی ہے، جو کبھی فواد حسن، کبھی احد چیمہ، کبھی لیاقت علی اور کبھی ایسے ہی کسی اور کردار کی صورت میں ڈھونڈ لیا جاتا ہے…… چونکہ نظام سرکار کا ٹھپہ لگوائے بغیر ایک پیسہ بھی قومی خزانے سے نکلنے نہیں دیا جاتا، اس لئے اٹھارویں گریڈ والے کو اکیسویں گریڈ کی پوسٹ پر بٹھا کر جب لوٹ مارکی جاتی ہے تو وہ کب پیچھے رہتا ہے۔ سو یہ سرکل چل رہا ہے۔ کردار آتے جا رہے ہیں، کہانیاں کھلتی جا رہی ہیں، کسی کو مرنے کا خوف ہے او رنہ یہ دھیان کہ سب کچھ یہیں رہ جانا ہے۔ اب اس لیاقت علی ہی کو دیکھیں، یہ دو مرلے میں صرف باتھ روم بناتا ہے اور یہ بھول جاتا ہے کہ اس نے بالآخر دو گز زمین کے نیچے جانا ہے۔