ڈینگی2011ء……25ہزار اموات کا سُن کر
اس بار میرا ارادہ عوام کے لئے ٹرانسپورٹ کی جدید، تیز رفتار اور سستی سہولتوں کے حوالے سے لاہور کی اورنج لائن ٹرین کے (نامکمل رہ جانے والے) منصوبے پر لکھنے کا تھا، لیکن میڈیا پر ڈینگی کی خبروں نے توجہ اس خطرناک مرض کی جانب مبذول کرا دی،چنانچہ اپنے ان تجربات کو آپ کے ساتھ شیئر کرنے کا فیصلہ کیا، جن سے گیارہ سال پہلے خود گزرا تھا، تجربات جو ”دلچسپ“ بھی ہیں، مفید اور معلومات افزا بھی۔ستمبر 2011ء کا آغاز تھا،جب ڈینگی ایک وبا کی صورت میں پھوٹ پڑا اور خودکش بمباروں سے بھی زیادہ خوف اور دہشت کی علامت بن گیا۔ دوسرے صوبوں میں بھی اِکا دُکا کیس رپورٹ ہو رہے تھے، لیکن پنجاب(اور بالخصوص لاہور میں) یہ تیزی سے پھیل رہا تھا۔خوف کا یہ عالم تھا کہ کسی کو معمولی سا سر درد یا تھوڑا سا نزلہ بخار بھی ہوتا تو وہ ہسپتال کی طرف دوڑتا۔ کچھ ایسے بھی تھے جو خطرہ بھانپ کر لاہور چھوڑ جانے کی باتیں کر رہے تھے۔ مجھے یہاں اس اعتراف میں کوئی عار نہیں کہ یہ اپنی نوعیت کی ایسی آفت تھی،جس کے متعلق ہمیں کوئی علم نہ تھا۔شعبہئ طب کے ماہرین بھی اس حوالے سے کچھ زیادہ معلومات نہ رکھتے تھے۔ معاشرے میں اس حوالے سے آگاہی صفر تھی۔
ابتدائی دِنوں میں ہم نیم حکیموں کی طرح ٹامک ٹوئیاں مارتے رہے مختلف کچے پکے نسخے آزماتے رہے،لیکن ”مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی“۔ہر آنے والا دن ہماری تشویش اور اضطراب میں اضافے کا باعث تھا۔اِدھر اُدھر نظر دوڑائی، تو سری لنکا کا پتہ چلا،جو گزشتہ کچھ برسوں سے اس کا شکار ہوتا چلا آیا تھا اور انہوں نے اس پر قابو پانے کی مہارت حاصل کر لی تھی۔مَیں نے فوری مدد کے لئے کولمبو میں پاکستانی ہائی کمشنر کو لکھا اور فون پر بھی بات کی۔ اسلام آباد میں سری لنکن ہائی کمشنر سے بھی رابطہ کیا۔ سری لنکن حکومت نے لمحہ بھر تاخیر نہ کی اور ہماری توقع سے بھی بہت پہلے ماہرین کی ٹیم کولمبو سے لاہور پہنچ گئی۔ مَیں (ذاتی طور پر) اور پاکستانی عوام (بالخصوص اہل ِ پنجاب) سری لنکن بھائیوں کا یہ احسان ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ 12ستمبر2011ء کو میں، اپنے ساتھیوں کے ہمراہ لاہور کے علامہ اقبال ایئرپورٹ پر، ڈاکٹر تسیرا کی زیر قیادت 12رکنی سری لنکن ٹیم کا استقبال کر رہا تھا۔
سری لنکن چارہ گر اپنے ساتھ ضروری ادویات اور آلات بھی لائے تھے۔ ایک ایک دن بلکہ ایک ایک لمحہ قیمتی تھا۔ ہمارے سری لنکن دوستوں کو بھی مسئلے کی سنگینی کا احساس ہم سے کم نہ تھا۔ انہوں نے ہوٹل میں سامان رکھا اور سفر کی تھکان کا احساس کئے بغیر ہمارے ساتھ میٹنگ میں بیٹھ گئے۔ ہمارے سینئر ڈاکٹروں کی ٹیم بھی میٹنگ میں موجود تھی۔
کچھ ضروری امور طے کرنے کے بعد سری لنکن ٹیم شہر کے دورے پر نکل کھڑی ہوئی،وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ کہاں کہاں ڈینگی لاروے کی موجودگی کے امکانات ہیں۔ٹھہرا ہوا پانی اور غلاظت کے ڈھیر ڈینگی لاروے کی پیدائش اور افزائش کا باعث ہوتے ہیں،جس سے وہ خاص مچھر پیدا ہوتا ہے، جس کے کاٹے سے انسان اس موذی مرض کا شکار ہوجاتا ہے۔ بے شمار تعلیمی اداروں، دفتروں اور گھروں کے روم کولرز کے پانی میں بھی ڈینگی لاروے کی نشاندہی ہوئی۔ پرانے ٹائرز بھی اس کی آماج گاہ ہوتے ہیں۔ سری لنکن ٹیم نے ہسپتالوں کا بھی رُخ کیا کہ وہاں درکار ضروری سہولتوں کا جائزہ لے سکے۔
دوسری میٹنگ میں سری لنکن ٹیم نے مفصل جائزہ رپورٹ کے ساتھ ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کے لئے ضروری تجاویز بھی پیش کیں۔ 30سالہ تجربے کے حامل ڈاکٹر فرنینڈو نے میٹنگ کے بعد مجھ سے علیحدگی میں ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ”میرے پاس آپ کے لئے اچھی خبر نہیں۔ مَیں آپ کو جھوٹی توقعات اور غیر حقیقی خوش فہمی میں نہیں رکھنا چاہتا۔ اگر مَیں یہ کہوں کہ یہ دُنیا میں ڈینگی کی وبا کا سنگین ترین حملہ ہے،جس میں 25 ہزار تک اموات بھی ہو سکتی ہیں تو اس میں کوئی مبالغہ نہ ہو گا“۔ 25 ہزار اموات کا سن کر مجھے اپنے پاؤں تلے زمین سرکتی محسوس ہوئی۔یوں لگا جیسے کوئی پہاڑ ٹوٹ پڑا ہو۔مَیں نے فرنینڈو سے کہا کہ وہ یہ راز اپنے تک رکھیں۔ مَیں ساری رات جاگتا رہا۔ وسوسوں اور اندیشوں کا ایک طوفان تھا، جس نے مجھے آلیا تھا…… تو کیا شہر کے ہر گلی محلے سے جنازے نکلیں گے؟ اگرچہ یہ ایک ناگہانی آفت ہے، اس کے با وجود ان اموات کے حوالے سے میں اپنے رب کو اور اپنے عوام کو کیا جواب دوں گا، لیکن یہ ہمت ہارنے اور بے حوصلہ ہونے کا وقت نہیں تھا۔ صبح صادق طلوع ہو رہی تھی،جب مَیں نے اپنے رب سے دُعا کی کہ وہ اپنی مخلوق پر خصوصی کرم کرے اور مجھے اور میرے رفقاء کو اس چیلنج سے عہدہ برا آنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اگلے دن ہم سب ایک نئے عزم کے ساتھ میدان میں اُتر آئے تھے۔ہمارے دن کا آغازصبح 6 بجے 180-H ماڈل ٹاؤن میں میٹنگ سے ہوتا، جس میں متعلقہ وزراء، چیف سیکرٹری سمیت اعلیٰ سرکاری حکام اور لاہور شہر سے عوام کے منتخب نمائندے موجود ہوتے(خواجہ سعد رفیق کے بارے میں سنا تھا کہ وہ دیر سے اُٹھتے ہیں، لیکن 6بجے کی اس میٹنگ میں وہ بھی بر وقت موجود ہوتے)2 گھنٹے کی میٹنگ میں گزشتہ روز کی کارکردگی کا سائنسی بنیاد پر جائزہ لیا جاتا، ایک ایک نکتے پر بحث ہوتی اور مکمل غور و خوض کے ساتھ اُس روز کی پلاننگ کی جاتی(ہم میڈیا سے ایک دو لوگوں کی موجودگی کا اہتمام بھی کرتے تاکہ وہ عوام کو ہماری ورکنگ سے آگاہ کر سکیں) ٹھیک 8 بجے میٹنگ ختم کرکے ہم اپنے اپنے محاذ پر سرگرم ہو جاتے۔یہ میٹنگز94روز تک بلا ناغہ جاری رہیں۔
سری لنکنز نے ہمیں SOPs بنا دیئے تھے، جن کے مطابق ہماری ٹیمیں سرگرم تھیں۔ ہم دو(2)سطحوں پر کام کر رہے تھے۔
ایک سطح احتیاطی (انسدادی) اقدامات کی تھی۔ اس کے لئے ہم نے عوامی آگہی کی بھرپور مہم چلائی۔تعلیمی اداروں میں پہلا لیکچر ڈینگی کے لئے مخصوص تھا اس میں وزیر تعلیم، سیکرٹری تعلیم یا محکمہ تعلیم کے کوئی افسر موجود ہوتے۔ سکولوں کے نصاب میں ڈینگی کا خصوصی باب رکھوایا۔ امتحانی پرچے میں ایک سوال ڈینگی کے حوالے سے لازمی ہوتا۔ہم گلیوں اور بازاروں میں نکلے۔ایک ایک دکان پر پہنچے، ایک ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ خود اپنے ساتھیوں کے ہمراہ میں نے چوکوں اور چوراہوں پر کھڑے ہو کر پمفلٹ تقسیم کئے تاکہ شہر میں کوئی فرد ایسا نہ رہے جسے یہ معلوم نہ ہو کہ اس نے اپنے گھر میں اور اپنے گرد و پیش پانی جمع نہیں ہونے دینا، پانی کھلے برتن میں نہیں رکھنا۔ پرانے ٹائرز کو تلف کرنا ہے (اس کے لئے الگ سے مشینوں کا بندوبست کیا) پارکوں میں صفائی ستھرائی کی طرف خصوصی توجہ دی گئی۔لاری اڈے اور کباڑ خانے بھی ہماری توجہ کا خصوصی مرکز تھے۔اہل ِ قلم میں ڈینگی پر مضمون نویسی اور نظم نگاری کے مقابلے کروائے،میڈیا پر خصوصی مہم چلائی۔
اس مہم میں جدید ٹیکنالوجی سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ مفصل سروے کے بعد شہر کو ریڈ لائن، بلیو لائن، پرپل لائن اور گرین لائن میں تقسیم کیا جس کا مطلب تھا کہ کس علاقے میں خطرے کی نوعیت کیا ہے۔ ایوان اقبال میں ایمرجنسی ہیلپ لائن قائم کی جو 24 گھنٹے کام کرتی تھی۔7کلب روڈ پر چیف منسٹر آفس میں بھی خصوصی سیل قائم کیا،جس پر ہمہ وقت نظر رہتی۔ یوں ہم نے اسے ایک قومی تحریک بنا دیا تھا، پاکستان کی تاریخ میں شاید ہی اس کی کوئی نظیر ہو۔
کام کی دوسری سطح علاج معالجے کی (Curitive) تھی۔
اس کے لئے سرکاری اور نجی و خیراتی ہسپتالوں میں خصوصی ڈینگی وارڈز (HDU-High Dependency Units) قائم کئے گئے، جہاں اس کا مفت علاج ہوتا۔ ہمارے بزرگوں کے قائم کردہ فلاحی اداروں، اتفاق ہسپتال اور شریف میڈیکل سٹی میں بھی اس کااہتمام تھا۔ علاج کے لئے ضروری ادویات اور طبی آلات کا فوری انتظام کیا گیا (انہیں بیرون ملک سے ہوائی جہازوں پر بھی منگوایا گیا) ہسپتالوں میں خصوصی استقبالیہ کاؤنٹرز اور مریضوں کے لواحقین کے آرام دہ قیام کا بندوبست کیا گیا۔ سرکاری ہسپتالوں میں ڈینگی ٹیسٹ مفت تھا،ہم نے پرائیویٹ لیبارٹریوں کے لئے اس ٹیسٹ کی فیس 90 روپے مقرر کردی جنہوں نے عوام کی سہولت کے لئے کثیر تعداد میں خصوصی کاؤنٹرز کا بھی اہتمام کیا تھا۔ سرکاری ٹیمیں باقاعدہ چیکنگ پر نکلتیں اور خلاف ورزی کرنے والی لیبارٹریوں کو جرمانے کے ساتھ سیل بھی کر دیا جاتا۔
اس حکم کی مخالفت کرنے والوں میں عمران خان نیازی پیش پیش تھے۔وہ اس پر میرے خلاف مقدمہ درج کرانے اور عدالتی چارہ جوئی کرنے کی دھمکیوں پر اُتر آئے تھے (لاہور ہائی کورٹ نے مفادِ عامہ کے تحت حکومت کے حق میں فیصلہ دے دیا) ڈینگی کے علاج کے لئے ڈاکٹروں اور دیگر پیرا میڈیکل سٹاف کی تعلیم و تربیت کا خصوصی اہتمام کیا گیا۔ دو روزہ ڈینگی انٹرنیشنل کانفرنس میں سری لنکا کے علاوہ انڈونیشیا، سنگاپور اور تھائی لینڈ کے ماہرین نے بھی شرکت کی۔ ہم نے اپنے سو ڈاکٹرز اور نرسز ٹریننگ حاصل کرنے تھائی لینڈ بھجوائے (ان میں پرائیویٹ پریکٹشنرز بھی تھے) مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس پر کوئی 10کروڑ روپے خرچ آیا تھا، جو علاقے ڈینگی کے خطرے کی زد میں تھے، وہاں ضروری لٹریچر اور سپرے کا انتظام کیا گیا۔لاہور کے بعد یہ مہم پورے صوبے میں پھیلا دی گئی۔ پنجاب نے بڑے بھائی کا کردار ادا کرتے ہوئے دوسرے صوبوں کو بھی اس حوالے سے ممکنہ سہولتیں اور رہنمائی فراہم کی۔ پشاور اور سوات میں ڈینگی نے زور پکڑا تو پنجاب سے ماہرین کی ٹیم اور موبائل یونٹ بھجوائے۔
اللہ تعالی نے کرم کیا۔ محنت رنگ لائی اور ہم ڈینگی پر قابو پانے میں کامیاب ہو گئے۔ سری لنکن ٹیم واپس جارہی تھی تو ہم نے ان کے لئے 90 شاہراہ ِقائداعظم پر الوداعی تقریب کا اہتمام کیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر تسیراکا کہنا تھا کہ وہ اپنے ہم پیشہ پاکستانی بھائیوں کے علم، مہارت، لگن اور جستجو کے علاوہ یہاں کی سیاسی لیڈر شپ کے جذبہئ خیرخواہی اور شبانہ روزمحنت سے بھی متاثر ہوئے۔یہ ”پولیٹیکل وِل“تھی جس کے باعث چند ہفتوں کی مہم کے نتائج اس سے کہیں بڑھ کر ہیں،جو سری لنکا میں ہم نے برسوں کی کاوش سے حاصل کئے۔سری لنکن ٹیم کے سینئر رکن ڈاکٹر فرنینڈو بتا رہے تھے کہ ان کی زندگی کے کئی ماہ وسال ٹریڈ یونین لیڈر کے طور پر گزرے۔ سیاست دانوں کے حوالے سے ان کی رائے کبھی اچھی نہیں رہی، لیکن یہاں کی سیاسی قیادت جس طرح اپنے عوام کے لئے سرگرم عمل نظر آئی، اس کے بعد وہ سیاست دانوں کے متعلق اپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
ڈینگی کے پہلے سال (2011ء میں) 17352 کیس رپورٹ ہوئے اور اموات کی تعداد 252 رہی۔ ان میں وہ بھی تھے جو کئی دوسری بیماریوں کا شکار تھے اور ڈینگی انہیں موت کے قریب لے آیا۔دوسرے سال (2012ء میں) صرف182کیس رپورٹ ہوئے اور الحمدللہ یہ سب صحت مند ہو کر اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔دُنیا حیران تھی اور خصوصاً سری لنکن ڈاکٹر کہ صرف ایک سال کی مدت میں یہ کارنامہ کیسے انجام پا گیا۔
ڈینگی خاتمے کی اس قومی مہم میں سبھی نے اپنا حصہ ڈالا۔ یہاں میں اس وقت کے مشیر صحت خواجہ سلمان رفیق(جوآج نا کردہ گُناہوں کی سزا بھُگت رہے ہیں)، چیف سیکرٹری ناصر محمود کھوسہ، ڈاکٹر جہانزیب خان، ڈاکٹر فیصل مسعود (مرحوم)،ڈاکٹر جاوید غنی، ڈاکٹرعمرسیف اور ڈاکٹر وسیم اکرم کا نام بطورِ خاص لینا چاہوں گا۔اس کے علاوہ تمام اضلاع کی انتظامیہ، پولیس کے چھوٹے بڑے افسران و اہلکاران،ہسپتالوں کے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف،بلدیاتی ادارے اور محکمہ زراعت سمیت تمام محکمے،جنہوں نے اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہ کی۔ اب کہ ڈینگی ایک بار پھر حملہ آور ہے،مَیں نے عزم وہمت کی یہ داستان بیان کرنا اِس لئے ضروری سمجھاکہ موجودہ اربابِ اختیار و اقتدار شاید اس سے کوئی رہنمائی حاصل کر سکیں۔