پشاورا سنگھ ،کشمیرا سنگھ کی بغاوت اور خانہ جنگی
مصنف: پروفیسر عزیز الدین احمد
قسط:51
رانی جنداں کا اقتدار اور پنجابی فوج کی بربادی
دلیپ سنگھ کو تخت پر بٹھا کر ہیرا سنگھ اس کا وزیر بن گیا لیکن سکون اسے بھی حاصل نہ ہوا۔ اس کے وزیر بنتے ہی درباریوں کا ایک مضبوط دھڑا اس کے خلاف کھڑا ہوگیا۔ جس میں اس کے چچا سوچیت سنگھ کے علاوہ دلیپ سنگھ کا ماموں اور رانی جنداں کا بھائی جواہر سنگھ بھی شامل تھے۔ ہیرا سنگھ اس طاقتور دھڑے سے نمٹنے کےلئے فوجی پنچوں کی خدمت میں حاضر ہوا اور ہر قسم کے واجبات کی ادائیگی کے علاوہ فوج کی تنخواہ میں ڈھائی روپے ماہانہ ترقی کی حامی بھرلی۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ ہیر ا سنگھ ایک مرتبہ پھر فوج کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا اور فوج نے جواہر سنگھ اور سوچیت سنگھ کو”غدار“ قرار دیدیا۔ فوج کے اس اعلان کے بعد سوچیت سنگھ تو جان بچا کر جموں کی طرف فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا مگر جواہر سنگھ کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔ اس دوران رنجیت سنگھ کے 2 بڑے بیٹوں پشاورا سنگھ اور کشمیرا سنگھ نے بغاوت کا اعلان کر دیا اور خانہ جنگی شروع ہوگئی۔
ہیرا سنگھ بمشکل سوا سال تک برسراقتدار رہا۔ خانہ جنگی اور فوجی اخراجات میں اضافہ کی وجہ سے جب خزانہ خالی ہوگیا اور ہیرا سنگھ کے لیے جنگی اخراجات کے علاوہ فوج کے روز افزوں مطالبات پورے کرنا ممکن نہ رہا تو فوج میں ہیرا سنگھ کے خلاف ناپسندیدگی کا اظہار کیا جانے لگا، طرح طرح کی مراعات کا تقاضا بھی شروع ہوگیا۔ حکومت کے لیے فوج کے نہ ختم ہونے والے مطالبوں کی تکمیل ممکن نہیں تھی۔ جب پنچوں نے ہیرا سنگھ کو اپنے مشیر خاص جلھا پنڈت کو جو اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے خواص و عام میں بدنام تھا، فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تو ہیرا سنگھ نے یہ مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا۔ اب پنچوں نے اسے اقتدار سے علیٰحدہ کرکے گرفتار کرنا چاہا۔ ہیرا سنگھ اور جلھا پنڈت نے لاہور سے فرار ہو جانے ہی میں عافیت سمجھی لیکن تعاقب میں آنے والے فوج نے اسے لاہور سے تھوڑی دور ہی جالیا اور اسی جگہ دونوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یہ واقعہ 21 دسمبر 1844ءکو وقوع پذیر ہوا۔
ہیرا سنگھ کے بعد مہاراجہ دلیپ سنگھ کے ماموں جواہر سنگھ کو وزارت کا عہدہ پیش کیا گیا لیکن9 ماہ کے بعد وہ بھی اسی فوج کے ہاتھوں قتل ہوا جس کے ہاتھوں9 ماہ پہلے اس نے ہیرا سنگھ کے ٹکڑے کروائے تھے۔
جواہر سنگھ کی ہلاکت کا بنیادی سبب بھی فوج کے ناقابل تسلیم مطالبات تھے۔ جواہر سنگھ نے وزیر بنتے ہی ابتداءمیں دھڑا دھڑ فوج کو رشوت دینے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ خزانہ تو پہلے ہی خالی پڑا تھا سو جواہر سنگھ نے یہ کیا کہ رنجیت سنگھ نے 40 برس کے دوران مفتوحہ علاقوں سے مال غنیمت کے طور پر جو سونے کے برتن اور دیگر نوادرات اکٹھے کیے تھے انہیں پگھلا کر سونے کے کنٹھے بنوائے اور فوج میں انعام کے طور پر بانٹ دیئے۔ سونے کے ان ظروف و نوادرات کو شاہی توشہ خانہ سے حاصل کرکے کنٹھوں میں ڈھالنے کا کام تقریباً 2 ماہ تک جاری رہا۔ کچھ دیر کے لیے تو فوج کے وارے نیارے ہوگئے لیکن انعام و اکرام کا یہ سلسلہ عرصہ دراز تک جاری نہیں رکھا جا سکتا تھا۔ عوام سے وصول ہونے والے ٹیکسوں سے یہ ممکن نہ تھا کہ حکومت کے کام بھی چلائے جاتے اور فوج کے نت نئے مطالبات بھی پورے کیے جاتے۔کچھ عرصے کے بعد جب فوج نے دیکھا کہ ان کےانعام و اکرام میں مزید اضافہ نہیں کیا جارہا تو اس نے جواہر سنگھ کو جی۔ ایچ۔ کیو میں حاضر ہونے کا حکم دیا۔ حکم عدولی کی جرأت کون کر سکتا تھا۔ جواہر سنگھ اپنے بھانجے دلیپ سنگھ کو گود میں لیے ہاتھی پر سوار ہو کر کانپتے ہاتھوں اور لرزتی ٹانگوں سے فوجی کونسل کے سامنے پیش ہوا۔
دوسرے ہاتھی پر بیٹھ کر مہارانی جنداں بھائی کی سفارش کرنے کےلئے آئی مگر خود سر اور منہ زور جرنیلوں نے جواہر سنگھ کو بہن کے سامنے قتل کر دیا۔جواہر سنگھ کے بعد کوئی فرد وزارت کا عہدہ سنبھالنے پر آمادہ نہیں ہوتا تھا کیونکہ ہر آدمی جانتا تھا کہ حکومت چلانا اس لیے ممکن نہیں کہ فوج کے ان گنت مطالبے کسی صورت پورے نہیں کیے جا سکتے اور جو شخص بھی وزیر بننے کے بعد فوج کا پیٹ بھرنے سے انکار کرے گا اس کا انجام جواہر سنگھ اور ہیرا سنگھ سے مختلف نہیں ہوگا۔ جب گلاب سنگھ کو وزارت پیش کی گئی تو اس نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا، تیج سنگھ نے بھی اسے ٹھکرا دیا۔ وزیر کے بغیر حکومت کے کام چلانے ممکن نہیں تھے۔ لیکن وزیر کہاں سے آتے؟ غور و خوض کے بعد طے پایا کہ دلیپ سنگھ 5 آدمیوں کے نام کی پرچیاں لکھے اور قرعہ اندازی کے ذریعے جس کے نام کی پرچی نکلے اسے وزیر بنا دیا جائے۔ قرعہ لال سنگھ برہمن کے نام نکلا۔ یہ شخص رانی جنداں کا ہمراز تھا اور جنداں بھی اسی کو وزیر بنانا چاہتی تھی۔
لال سنگھ نے عہدہ وزارت سنبھالتے ہی اعلان کیا گیا کہ دلیپ سنگھ کے نابالغ ہونے کی وجہ سے رانی جنداں حکومت کی سربراہی کرے گی۔رانی جنداں اور لال سنگھ کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اس شوریدہ سرفوج سے کیسے نمٹا جائے جس کے نہ ختم ہونے والے مطالبات کی عدم تکمیل کا نتیجہ موت کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ ایک مؤرخ کے مطابق”اس وقت خالصہ فو ج طاقت کے اعتبار سے عروج پر تھی۔ ہر شخص اس سے خوفزدہ تھا۔ ریاست کے اعلیٰ افسر اور عہدیدار بھی سمجھتے تھے کہ اگر فوج کی حرص پوری نہ ہوئی تو وہ بھی قتل کر دیئے جائیں گے۔ اس لالچ کی کوئی انتہا نہیں تھی اور اس کا کوئی علاج نہیں تھا “۔ رانی جنداں کو بھی خطرناک صورتحال میں گھرے ہونے کا احساس تھا۔
رانی جنداں کو خزانہ خالی نظر آ رہا تھا۔ تمام توشہ خانہ بھی فوج میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ لیکن فوجی پنچ تھے کہ مزید مطالبات کیے جا رہے تھے۔ انہوں نے بتدریج یہ کہنا شروع کر دیا کہ مہاراجہ شیر سنگھ کا ایک اور چھوٹا لڑکا ہے جسے دلیپ سنگھ کی بجائے راجہ بنایا جا سکتا ہے۔ اب صاف نظر آنے لگا تھا کہ جو مشینری پنجابی ریاست کے تحفظ کےلئے تخلیق کی گئی تھی وہ مشینری اس کی تباہی و بربادی پر تلی بیٹھی ہے۔ فوج جس نے عوام کا پہلے ہی بھرکس نکال دیا تھا اب وہ ایک کے بعد دوسری حکومت کو نگلتی جا رہی تھی۔ رانی جنداں کو اس عذاب سے نجات حاصل کرنے کا ایک ہی راستہ نظر آیا کہ فوج کو انگریزوں سے لڑا دیا جائے۔ سو اس نے یہی کیا۔ پر اس کاروائی کے نتیجے میں پنجابی فوج کے ساتھ ساتھ رانی جنداں کا اقتدار بھی ختم ہوگیا، پنجاب کی خود مختار اور آزاد ریاست کا وجود مٹ گیا اور انگریزوں نے پنجاب پر قبضہ کرلیا۔ ( جاری ہے )
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )۔