میں مولانا طارق جمیل سے معافی مانگتا ہوں....!!
مولانا طارق جمیل کیا،قابل صد احترام امام کعبہ سے بھی آداب کے ساتھ سوال کیا جا سکتا ہے........مگر گالم گلوچ صحافت ہے نہ اظہار رائے کی آزادی.......صحافی کے پاس الفاظ کے سوا ہوتا ہی کیا ہے؟؟اگر وہ بھی "عامیانہ" ہوں تو صحافت"ثقاہت "کھو بیٹھے گی...ذرائع ابلاغ کی دنیا میں سوشل میڈیا کا باوا آدم ہی نرالا ہے.......جو مرضی لکھ دیں....جو من چاہے بول دیں....."ان سینسرڈ" خوب بکتا ہے....... اب کی بار اسلام آباد کے ایک" یو ٹیوبر" مولانا طارق جمیل پر "گرجے برسے" ہیں....."گوگل میاں "کے مطابق یہ ایک پاکستانی صحافی ہیں.....وہ سپریم کورٹ سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں....یوٹیوب کے ولاگر ہیں.....ایک نجی ٹی وی کے پروڈیوسر بھی رہے....اسٹیبلشمنٹ کے ناقد ہیں.....
ان صاحب نے کوئی سات آٹھ منٹ کے "وی لاگ"میں جو الفاظ استعمال کیے....وہ" صحافتی اخلاقیات"کے منافی ہیں.....ہمیں تو "سینسرڈ صحافت "میں سکھایا گیا کہ کبھی اپنے مخاطب کو تو اور تم نہیں بلکہ آپ کہہ کر پکارنا ہے....ہمیں تو تربیت دی گئی کہ کوئی" اظہاریہ" ہو یا "نشریہ" ....ہمیشہ واحد کے بجائے جمع کا صیغہ استعمال کیجیے....مثال کے طور پر"وہ کہتا نہیں ،وہ کہتے ہیں "اور" اس نہیں، انہوں نے کہا ہے" لکھیے پڑھیے...!!
اب جناب کے مولانا کے بارے میں الفاظ ملاحظہ کیجیے اور پھر دل پر ہاتھ کر بتائیے کہ یہ کون سی صحافت ہے؟؟؟.....کہتے ہیں:مولانا طارق کےکرتوت.....سوکالڈ مولانا.....غلیظ چہرہ.....انتہائی منافق....انتہائی غلیظ کردار....غلاظت بھرا چہرہ....ڈرامے باز....بڑا ایکٹر....مکروہ چہرہ...گھر میں مست ماحول....حوروں کا پیکج.....نوسرباز ....جھوٹا....چندہ صرف انتہائی خوبصورت طوائف زادیوں کے لیے ......مولانا کی بدمعاشی...نچلے لیول کا گھٹیا....جعل ساز....فراڈیا......رانگ نمبر....پورا ایک ریکٹ..... داماد منہ نہیں لگاتے....ملک ریاض اور عقیل کریم ڈھیڈی کے جوتوں میں بھی بیٹھ جاتے ہیں.....
سنئیر صحافی اور اینکر پرسن جناب حامد میر سمیت" اکابرین صحافت "کا تو پتہ نہیں کہ وہ اس "اظہار رائے" پر کیا رائے دیتے ہیں .......میرے نزدیک تو ایسے" ناجائزالفاظ " کسی صورت "جائز" نہیں .... یہ صحافت نہیں ندامت ہے اور میں بطور کارکن صحافی مولانا طارق جمیل سے معافی مانگتا ہوں.....بقول مرزا غالب اپنے "غصیلے یوٹیوبر دوست" سے بھی یہی کہوں گا:
ہر بات پر کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے؟؟؟
تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے؟؟؟
یادش بخیر!کوئی اٹھارہ سال پہلے کی بات ہے کہ شام کے ایک اخبار میں نیوز ایڈیٹر تھا.......ایک خاتون ایجوکیشن افسر کیخلاف ایک کرپشن سکینڈل آیا.......میں نے اس خبر کی سرخی میں اس خاتون افسر کے لیے لفظ "پھولن دیوی" لکھ مارا......اگلے دن اس خاتون نے اپنے کسی عزیز کے توسط سے رجوع کیا......انہوں نے اس خاتون سے میری بات کرائی.....وہ بولیں.....آپ نے مجھے پھولن دیوی قرار دیدیا..... میں نے کل کو اپنی بیٹیوں کی شادی بھی کرنی ہے.......کیا کوئی "ڈاکو رانی"کی بیٹی سے شادی کرے گا......؟؟؟؟ کہنے لگیں میرے خلاف خبر دینے والا کلرک خود کرپشن کی وجہ سے معطل ہے......آپ میرا موقف بھی لے لیتے......میں نے خاتون افسر سے اسی وقت معافی مانگی.....اگلے دن ان کا موقف چھاپا......اور پھر تب سے اب تک کبھی "پھولن دیوی"کا لفظ استعمال نہیں کیا......
خاکسار نے ماضی میں مولانا طارق جمیل کے حق اور خلاف برابر لکھا....جہاں دیکھا ان سے زیادتی ہورہی ہے ان کا دفاع کیا جہاں سمجھا ان کا موقف درست نہیں ان پر کھل کر تنقید کی....."مولانا طارق جمیل سے اختلاف کریں توہین نہیں "کے عنوان سے اپنے کالم میں لکھا تھا:ہمارا سماج بنیادی طور پر" اذیت پسند معاشرے" کی عکاسی کرتا ہے.......دیندار لوگوں کے ساتھ ہمارا معاملہ اور شدت اختیار کر جاتا ہے........ہم انہیں کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں ہوتے...وہ سنت سمجھ کر مسکرائیں تب بھی تنقید....اللہ کے خوف سے روئیں تب بھی تنقیص........مولانا طارق جمیل کو بھی برس ہا برس سے ایسی ہی "انتہاپسندانہ بے ہودگی" کا سامنا ہے......." گالم گلوچ بریگیڈ"بہانہ ملتے ہی زبان درازی .....بہتان بازی....دشنام طرازی پر اتر آتا ہے......کبھی ان کے مسکرانے پر چیخ پکار ....کبھی ان کے گڑگڑا کر رونے پر رونا دھونا......
اب کی بار ایک "ایلیٹ کلاس شادی" کے ایشو پر" ہاہا کار"مچی کہ مولانا نے نکاح کے دس لاکھ لئے....میڈیا ٹرائل اتنا زہر آلود تھا کہ آخر انہیں خود وضاحت دینا پڑی کہ یہ میرے دیرینہ دوست کی بیٹی کی شادی تھی......کچھ عرصہ قبل" کورونا فنڈ ریزنگ شو" میں دعا پر شور شرابہ ہوا...اس سے پہلے عمران خان سے ملاقات پر ہنگامہ کھڑا کیا گیا.......ناجانے کیوں اس "یکطرفہ ٹریفک" کو "صحافت" کہا جاتا ہے....تاریخ بتاتی ہے کہ لوگوں کے" ہجوم" نے اپنے خیر خواہوں کو ہمیشہ دکھ دیے ہیں.....جناب افتخار عارف نے کیا معرفت کی بات کہی:
پیمبروں سے زمینیں وفا نہیں کرتیں
ہم ایسے کون خدا تھے کہ اپنے گھر رہتے
شومئی قسمت کہ "بریکنگ نیوز "کے نام پر الیکٹرانک میڈیا کی "کھوتا ریس" ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ سوشل میڈیا کی "اچھل کود "شروع ہوگئی.....اب تو ہر کوئی صحافی ہے ....ہر کوئی اینکر پرسن ہے..... عجیب بھیڑ چال ہے ....سوشل میڈیائی اینکر پرسنز کی معلومات کے لئے عرض ہے مولانا اپنے زمانے کے لائق طالبعلم اور اولڈ راوین ہیں...گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کو چھوڑ کر دین کے راستے پر نکلے تو رائیونڈ میں بہترین اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا اور پوری اسلامی تعلیم کے بعد مستند عالم دین ٹھہرے.....
میڈیا کے" عزت فروشوں "کو یہ بھی خبر ہو کہ مولانا طارق جمیل کو عزت میڈیا نہیں رائیونڈ مسجد کی پھٹی پرانی چٹائی سے ملی.....عزتوں کے مالک اللہ کریم نے انہیں تب عزت سے نوازا جب عزتیں اچھالنے والے الیکٹرانک میڈیا نے ابھی وطن عزیز میں "جنم "بھی نہیں لیاتھا.....یہ لائوڈ سپیکر کا زمانہ تھا.... صرف پرنٹ میڈیا یعنی اخبارات اور جرائد و رسائل ہوا کرتے تھے.......لیکن تب مولانا کے انٹرویوز چھپتے تھے نہ ان کا رائیونڈ اجتماع میں بیان ہوتا تھا.......وہ بھی وہاں بزرگوں کے قدموں میں بیٹھے ان کی ایمان افروز باتیں سنا کرتے تھے....تبلیغی دوروں میں ان کے بیانات ریکارڈ ہوتے جو لوگ ٹیپ ریکارڈرز پر سنتے اور جھوم اٹھتے...... ان کی آواز میں ایسی مقناطیسی طاقت تھی کہ راہگیر چلتے ہوئے رک جاتے....ان کی زبان میں شہد ایسی مٹھاس اور الفاظ اتنے پرتاثیر کہ دلوں میں اترتے اور زندگیاں بدلتے جاتے.........مولانا نے ملک ملک اور شہر شہر اللہ کی واحدانیت اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کی صدا لگائی مگر کسی "ٹی وی سٹوڈیو" نہیں مسجد کی چٹائی سے اٹھ کر انہیں یہ اعزاز ملا....
اسی کالم میں ان پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ میرا احترام کے ساتھ مولانا کو مشورہ ہے کہ وہ حکمرانوں سے انفرادی کے بجائے اجتماعی رابطے رکھیں تو بہتر ہے جیسے انہوں نے نواز شریف دور کی ایک وزارت عظمی کے دوران پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا تھا..... مولانا جاتی امرا اور بنی گالہ ضرور جائیں لیکن کبھی کبھی کسی جھگی والے کی خوشی غمی میں بھی شریک ہو کر اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی یاد تازہ کر دیں .....جیسے مکہ سے ریاست مدینہ کے قیام کے لئے جاتے ہوئے راستے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ ام معبد کے جھونپڑے پر رکے.....جیسے ریاست مدینہ میں جناب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ایک بڑھیا کے کام کاج کے لئے اس کے عام سے گھر جایا کرتے......جیسے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اپنی اہلیہ کو لیکر ایک مسافر بدو کے خیمے میں تشریف لے گئے کہ وہ اس کی بیوی کے زچگی کے معاملات دیکھیں ......
"مولانا کو عزت مسجد کی پھٹی پرانی چٹائی سے ملی...جس بنیاد پر عزت ملی ہو اسے کسی قیمت نہیں چھوڑنا چاہئیے....مولانا سے دست بستہ گزارش ہے کچھ بھی کریں اپنے "روحانی مرکز" سے اتنا دور نہ جائیں کہ واپسی کا راستہ ہی بھول جائیں اور پھر داستان تک نہ رہے داستانوں میں.....اس سے برا انجام کوئی نہیں ہو سکتا!!!
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں