سیاست میں فکسنگ اور ”گونگا پہلوان“
کرکٹ کا سیزن ہے۔ مختلف ممالک کے درمیان مقابلے جاری ہیں۔ حال ہی میں ایشیا چیمپئن شپ مکمل ہوئی جو بھارتی ٹیم جیت گئی کہ اس نے اچھا کھیلا تھا، اب ایک روزہ ورلڈکپ کرکٹ ٹورنامنٹ شروع ہونے والا ہے۔ اس پر بھی بات کر سکتے ہیں تاہم آج فکسنگ یاد آرہی ہے کہ ہماری سیاست میں بھی عرصہ سے عروج پر ہے اب عام انتخابات کا چرچا ہے تو فکسنگ کا بھی زور ہے۔ ہم پرانے لوگ، دیرینہ اقدار کے حامی ہیں اور اپنے اس وقت کی تعریف کرتے نہیں تھکتے، لیکن تب ایسا کچھ تو ہوتا تھا، وہ دور پہلوانی کا تھا اور پنجاب کے تو سارے شہروں میں اکھاڑے تھے حالات یہ تھے کہ بچوں کو اکھاڑے کی مٹی لگوانا ہوتی تھی۔ میں خود بھی اس مشق سے گزر چکا ہوا ہوں تب کشتیوں کے بڑے چھوٹے مقابلے ہوتے تھے، بڑے بڑے نامور پہلوان تھے اور ان کے اپنے اپنے اکھاڑے تھے اور آپس میں مقابلوں کے ساتھ ساتھ گٹھ جوڑ بھی ہوتا تھا، چنانچہ گاماں پہلوان، بھولو پہلوان، یونس پہلوان اور گونگا پہلوان بھی مشہور ہوئے لاہور اور گوجرانوالہ کے حضرات کو اب بھی وہ دور یاد ہوں گے جب مقابلے ہوتے تو پہلوانوں کے جلوس بھی نکلا کرتے تھے اور یہ جلوس تانگوں پر ہوتے، پہلوان انہی پر سوار ہوتے اور ساتھ ڈھول والے ڈھول بجاتے تھے، یہ ایک طرح اس دور کا فن پبلسٹی تھا۔ ڈھول بجانے والوں ہی میں سے ایک ساتھی چوراہوں میں کھڑے ہو کر دنگل کا اعلان کرتا، وقت اور مقام کے علاوہ کون کس سے مقابلہ کرے گا یہ بھی بتایا جاتا۔ اس دور میں بھی فکسنگ ہوتی تھی اور پہلوان سخت مقابلے کے بعد چت ہو جاتا تھا، اس دور میں اسے نورا کشتی کہتے جس کا اندازہ ہو جاتا تھا، اس سلسلے میں ہمارے اس لاہور کے ایک طاقتور پہلوان بہت مشہور ہوئے وہ قدرتی طور پر زبان سے بول نہیں سکتے تھے اور گونگے تھے، ان کو کسی نام سے پکارنے کی بجائے گونگا پہلوان کہتے تھے جو اپنے دور کے طاقتور تھے، تب ان کا مقابلہ بھولو خاندان سے بھی ہوتا تھا، اب جو میں عرض کرنے لگا ہوں کہ گونگا پہلوان کی بعض کشتیاں فکس ہوتیں، ان کے والد ایسا کرتے تھے اور پھر جب مقابلہ ہو رہا ہوتا تو موصوف اکھاڑے کے ایک طرف بیٹے کو ہلا شیری دیتے تھے، تاہم جب کوئی کشتی فکس ہو جاتی تو گونگا پہلوان کے والد محترم جاری کشتی کے دوران بیٹے کو ہاتھ کے انگوٹھے سے چت ہو جانے کا اشارہ کرتے تو وہ اگلے ہی لمحے مخالف پہلوان کے داؤ کو ذریعہ بنا کر چت ہو جاتا تھا، بعد ازاں یہ انکشاف بھی سامنے آتا کہ فکسنگ ہوئی اور یہ نوراکشتی تھی۔
قارئین! معذرت خواہ ہوں کہ یہ سب یاد آگیا اور آپ کا وقت لیا تاہم اس کی ضرورت یوں پیش آئی کہ پیپلزپارٹی کے ایک سینئر رہنما سابق وزیر سید خورشید شاہ نے بات ہی ایسی کہہ دی کہ گونگا پہلوان یاد آ گیا اور اس کا ذکر کرنا پڑا، سید خورشید شاہ نے حالیہ سیاسی ماحول کے حوالے سے ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں یہ انکشاف کیا ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں، انہوں نے یہ بات اس سوال کے جواب میں کہی کہ بلاول بھٹو تیز جا رہے ہیں اور الزام لگا رہے ہیں، کہ ان کو مسلم لیگ (ن) سے شکائت ہے کہ ”لیول پلیئنگ فیلڈ“ نہیں دی جا رہی، سید خورشید شاہ نے بھی بلاول بھٹو کے موقف کی تائید کی کہ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے اچھا نہیں کیا جا رہا، ان حضرات کا اشارہ ڈاکٹر توقیر شاہ اور فواد احمد فواد کی تقرریوں کے باعث ہے جبکہ بلاول بھٹو نے سندھ میں وسیع پیمانے پر تبادلوں اور جاری ترقیاتی منصوبوں کے فنڈز روکے جانے پر احتجاج کیا اور مثال دی کہ پنجاب میں تو نئے ترقیاتی منصوبوں کا بھی اعلان کیا جا رہا ہے۔
یہ درست ہے کہ بلاول نے حالیہ دنوں میں تیز گفتگو کی اور نوے روزکے اندر عام انتخابات کے انعقاد پر زور دیا تو ان کے اس مطالبے کو ”سیاسی دباؤ“ کا حربہ قرار دیا گیا، تاہم لاہور میں ہونے والے مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس کے بعد انہوں نے 90روز والی بات کو انتخابی تاریخ کے اعلان میں تبدیل کر دیا، اب وہ نوے روز کی بات نہیں کرتے بلکہ مطالبہ کرتے ہیں کہ تاریخ کا اعلان کرکے بتائیں کہ کس روز عام انتخابات ہونا ہیں۔ یوں احساس ہوا کہ والد محترم نے انگوٹھا زمین کی طرف کرکے چت ہونے کے لئے کہا اور موصوف نے سر تسلیم خم کر دیا ہے، ورنہ بلاول کی گفتگو اور جوابی بات کی وجہ سے تلخی پیدا ہوئی، کل کے حلیف، حریف نظر آنے لگے، خواجہ آصف کا تویہ جواب ہے کہ ابھی تو فیلڈ تیار ہی نہیں ہوئی تو لیول پلئینگ کا سوال کہاں سے آ گیا،خواجہ آصف تو یہ بھی کہہ رہے کہ ان کی جماعت نے تو کسی کی ذمہ داری نہیں لی۔
میں نے اپنے پاس سے تو کچھ نہیں کہا، خود پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما خورشید شاہ ہی نے کہا ہے کہ بلاول کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، سوال یہ ہے کہ اگر فی الواقعی ایسا ہو رہا ہے تو دوریاں بڑھنا تو فطری عمل ہے اور ایسا ہو ہی رہا ہے ابھی تک کسی مرکزی رہنما نے مداخلت کی بات نہیں کی، لیکن پیپلزپارٹی کا شکوہ موجود ہے اور رہے گا۔
بلاول لاہور میں ہیں اور یہاں سرگرم ہیں، کارکنوں سے بھی مل رہے ہیں، ابھی گزشتہ روز وہ جیالی نرگس خان (شعبہ خواتین) کے گھر گئے اور ان کے بھائی کی وفات پر تعزیت کی۔ اس طرح پبلک ڈیلنگ اور کارکنوں کی تیاری پر کام کررہے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے اچانک جو لائن اختیار کی اس سے سینئر کارکن بہت مطمئن نظر آنے لگے تھے جبکہ آصف علی زرداری نے مختلف بیان دے کر ان کو پھر سے بے چین کر دیا، یہ سیاسی کارکن چاہتے ہیں کہ پارٹی نورا کشتی نہ کرے اور نہ ہی گونگا پہلوان کی طرح چت ہو، بلکہ اپنے منشور کے مطابق ترقی پسندانہ جدوجہد شروع کرے۔ عوام کی بات عوام کے ساتھ ہو، لیکن حقائق مختلف ہیں۔ پیپلزپارٹی گو سندھ میں آج بھی جیتنے کی پوزیشن میں ہے لیکن اس کی جو حالیہ شکایات ہیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ باپ بیٹا نورا کشتی لڑ رہے ہیں۔ خورشید شاہ نے اسے دور کرنے کی کوشش کی جو بلاول کے موقف میں معروضی تبدیلی سے ثابت بھی ہوتی ہے۔ پیپلزپارٹی کے جیالوں کو نہ صرف بلاول سے بہت توقعات ہیں بلکہ وہ تو یہ بھی چاہتے ہیں کہ آصفہ بھٹو اب میدان عمل میں نکل ہی آئے کہ جوش بڑھ سکے۔ علاوہ ازیں بعض تجزیہ کار حضرات دور کی کوڑی لائے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) میچ فکس کرکے کھیلنا چاہتی ہیں تو یہ بھی غلط ثابت ہوگیا، فی الحال تو ہر ایک کو اپنا مفاد عزیز ہے، انتخابی شیڈول آنے کے بعد اور انتخابی مہم کے باقاعدہ آغاز کے بعد ہی مزید حقائق سامنے آئیں گے۔ اب تک تو ہر پارٹی کی کوشش زیادہ سے زیادہ نشستوں کا حصول ہے کہ ایوان اقتدار میں حصہ مل جائے۔