اکثر افراد بچپن ہی میں بزدلی، احسا س کمتری اور شرم کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ والدین،اساتذہ اور دیگر بالغ افراد تلخ اور تحکمانہ سلوک روا رکھتے ہیں 

Sep 21, 2024 | 11:52 PM

مصنف:ڈاکٹر ڈیوڈ جوزف شیوارڈز
ترجمہ:ریاض محمود انجم
 قسط:217
میری نے اپنے خوفِ تقریر پر کیسے قابو پالیا:
ہم میں اکثر افراد بچپن ہی میں بزدلی، احسا س کمتری اور شرم کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ ہمارے والدین،اساتذہ اور دیگر بالغ افراد ہم سے تلخ اور تحکمانہ سلوک روا رکھتے ہیں۔ میری جے نامی ایک خاتون کئی سالوں سے میرے حلقہ احباب میں شامل ہے۔ ایک دن اس نے میرے سامنے اعتراف کر لیا کہ وہ بولنے سے ہچکچاتی ہے۔ بولتے وقت اسے خوف محسوس ہوتا ہے، جس کے باعث وہ اپنی صلاحیتوں کا بھر پور اظہار نہیں کر سکتی۔ میری ایک ذہن اور باخبر خاتون تھی اور اس میں بے پناہ صلاحیتیں موجود تھیں۔ مگر اس کے اپنے الفاظ کے مطابق ”جب بھی میرے ساتھ تین یا چار افراد ہوتے، میں اپنے جذبات کا اظہار نہیں کرسکتی تھی، مجھے بولتے ہوئے خوف اور گھبراہٹ محسوس ہوتی تھی۔ مجھے معلوم تھا کہ اگر میں کچھ کہوں گی تو میری آواز بیٹھ جائے گی اور لوگ مجھے احمق اور بیووقوف سمجھیں گے۔“
میں نے میری کو یقین دلایا کہ اس کا یہ خوف مکڑی کے جال کی مانند ہے مگر اس کا علاج ممکن ہے۔
اس نے پوچھا ”یہ کیسے ممکن ہے کہ میں بغیر خوف، بغیر گھبراہٹ کے بول سکوں جس کے باعث میں اپنی زندگی میں مزید کامیابیاں حاصل کر سکوں۔“
میں نے اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہا ”یقیناً تم بالکل درست کہتی ہو۔ اس ضمن میں میرے پاس 2 طرائق ہیں۔ پہلے تو ابھی اور اسی وقت فیصلہ کر لو کہ آئندہ جب بھی تمہیں بولنے کا موقع ملے، تم اپنا فقرہ یا الفاظ دو مرتبہ دہراؤ۔ جب پہلی دفعہ تم بات کرو تو پھر زیر بحث مسئلے کے متعلق سوال پوچھوا ور پھر کچھ دیر کے بعد اس مسئلے کے متعلق اپنی طرف سے تجویز یا رائے پیش کرو۔ ان دونوں طریق پر ٹابت قدمی اور مستقل مزاجی کے ساتھ عمل کرو، اور پھر تم نہایت ہی قلیل وقت میں اپنے اس خوف سے نجات حاصل کر لوگی۔“
میری نے جواب دیا ”لیکن مجھے تمہاری اس ترتیب کی سمجھ نہیں آئی کہ پہلے میں کسی چیز کے متعلق سوال کروں اور پھر دوسری دفعہ اس مسئلے کا ممکنہ حل بھی بتاؤں۔“
میں نے جواب دیا ”یہی تو وہ منطق ہے، یہی تو وجہ ہے، جب تم سوال پوچھو گی تو اس کے باعث فوراً ہی یہ ثابت ہو جائے گا کہ تم اس معاملے کے متعلق زیادہ کچھ نہیں جانتیں، اور جب تم بعد میں اس معاملے او رمسئلے کا ممکنہ بہترین حل بتاؤ گی تو تم یہ ثابت کرو گی کہ کہ مختلف افراد کی تجاویز اور آراء سننے کے بعد تم ایک قابل عمل حل پیش کر سکتی ہو۔“
میری نے ان طریق پر عمل کیا۔ بعد میں اس نے مجھے بتایا کہ اس نے بولنے کے ضمن میں اپنے خوف اور گھبراہٹ پر کافی حد تک قابو پالیا ہے کیونکہ: 
1:  وہ نہایت ثابت قدمی اور مستقل مزاجی سے سوال پوچھتی رہتی ہے۔
2:  وہ ان سوالوں کے جواب بھی پیش کرتی رہتی ہے۔
اگر آپ بولنے کے معاملے میں احساس کمتری یا بزدلی کا شکار ہیں تو پھر مندرجہ بالا طریقہ استعمال کریں۔ یہ طریقہ نہایت مؤثر اور مفید ہے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزیدخبریں