اندیشہ ہائے سیاست
حالات کی ستم ظریفی دیکھتے ہیں تو ماضی کی غلام گردشیاں دل و دماغ پر بجلی بن کرڈورنے لگتی ہیں ۔ہمارے سامنے جنرل ایوب ،جنرل یحییٰ ،جنرل ضیااور جنرل مشرف کی صورت میں جمہوری نظام کی بساط کو لپیٹنے کا سفر آتا ہے ۔ دوسری جانب شریف حکومتوں اور فوجی سربراہان جنرل وحیدکاکڑ، جنرل جہانگیر کرامت ، جنرل آصف نواز اور جنرل مشرف کے درمیان تعلقات کار کے مسائل اور محاذ آرائی غالب ہوجاتے ہیں ۔ جمہوری نظام کی بساط کے الٹنے کا منظر سامنے آتا ہے تو اس میں جہاں فوجی قیادت کے مسائل ہیں تو سیاسی قیادت بھی معاملات کی خرابی میں پیش پیش ہوتی ہے ۔کیا واقعی ہمارے حکمرانوں اور سیاسی قیادت نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا ، یا سیکھنا ہی نہیں چاہتے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے بیانات کو بعض لوگ ان کے ذاتی بیانات سمجھتے ہیں ۔ جب معاملات خراب ہوئے اور فوج کو اپنا سرکاری ردعمل دینا پڑا ، جو سخت انداز میں سامنے آیا تو دونوں وزرا اپنی صفائی کے معاملے میں پیش پیش نظر آتے ہیں ۔ ایک وزیر نے تو ایک کالم اور دوسرا وزیر روزانہ کی بنیادوں پر وضاحتی بیانات دے کر فوج کی قیادت کے گن گانے کی کوشش کررہا ہے ۔ ایسا ہی ہے تو انھیں وہ کچھ کیوں کہنا پڑا جو ان کے لیے ممکن نہیں تھا ۔
خواجہ سعد رفیق ------زمانہ طالب علمی سے ہی سیاست کی پر خطرراہوں کے کھلاڑی جانے جاتے ہیں۔انتہائی عقلمندی سے اپنے دست راست قیصر امین بٹ کو ”ق“ لیگ میں شامل کروادیا او ران کو جتوانے کے لیے ”ن“لیگ کے امیدوار انعام اللہ نیازی کو ہروانے کے لیے مکمل طور پر مہم بھی چلائی اور ڈنڈا بھی چلایا۔پھر اسی قیصر امین بٹ اور جنرل کے بھائی کو فرنٹ مین کے طو رپر رکھ کر پراپرٹی کے کاروبار کے ان داتا بن گئے ۔ مگر آج کل دونوں خواجگان جمہوریت کے چمپین بننے کے چکروں میں مادر وطن کی حفاظت کرنے والے ،راتوں کو جاگ کر اپنی جانیں قربان کرنے والے ،سیاچن کے گلیشرمیں جسم کو ساقط کردینے والی سردی میں، تھر کے صحراوں میں اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر ہمیں سکھ اور آزادی کا سانس نصیب کرنے والی فوج کے خلاف بیانات دینے لگے ہیں۔موجودہ آرمی قیادت پروفیشنل بنیادوں پر ملک کے نظام کو چلانا چاہتی ہے ۔ آرمی چیف کے خاندان کے اہم افراد کو قومی اعزازات حاصل کرنے کا شرف حاصل ہے۔وہ نہ تو فوج کو پراپرٹی کے کاروبار میں دیکھنا چاہتے ہیں اور نہ ہی انھےں کوئی دوسرا لالچ ہے ۔اگر وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں تو محض اتنا کسی ملک و قوم میں فوج کے مورال کو بلند کیا جائے اور فوج کا تصور بہتر بنایاجائے ۔وہ ملک میں امن کے خواہش مند ہیں اور وہ مذاکرات یا آپریشن کسی بھی صورت میں امن چاہتے ہیں، وہ ریاست کی رٹ کی بالادستی پر کوئی سمجھوتہ کرنے کوتیار نہیں ۔
چوہدری نثار، شہباز شریف محاز آرائی سے گریز کی پالیسی چاہتے ہیں ، جبکہ وزیر اعظم الجھنے کی سیاست کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔وزیر اعظم کو کسی ایڈونچر کا بھی نہیں سوچنا چاہیے ۔
مکرمی! وطن عزیز کو اس وقت بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں تباہ حال معیشت کی بحالی ایک بڑا چیلنج ہے۔گزشتہ حکومت نے ملک کو معاشی طور پر بحال کرنے کے لئے کوئی ٹھوس قدم نہ اٹھایا اور ایڈہاک پالیسیوں کے ذریعے اپنا دور حکومت مکمل کیا، جس کے نتیجہ میں ہماری معاشی حالت کمزور سے کمزورتر ہوتی گئی۔وزیراعظم نوازشریف کی حکومت نے تباہ حال معیشت کی بحالی کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھائے ہیں، جس کے نتیجے میں معیشت بحالی کی طرف گامزن ہے۔روپے کی قدر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ڈالر کی قدر بھی کم ہوئی ہے۔عالمی مارکیٹ میں یورو بانڈ کا اجراءاور بھاری تعداد میں ان کی خریداری، قلیل مدت میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ اور زرمبادلہ کے ذخائر کی مضبوطی حکومت کی ٹھوس معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ تنقید کو خاطر میں نہ لائے اور اپنی پالیسیاں جاری رکھے۔عوام توقع کرتے ہیں کہ وزیراعظم کی قیادت میں موجودہ حکومت ملک کو معاشی بحران سمیت دیگربحرانوں سے نکالنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
(محمد ضیاءآفتاب،گارڈن ٹاﺅن لاہور)