کراچی
سندھ میں اِن دِنوں گفتگو کا موضوع تو عزت مآب صدرِ چین شی چن پنگ کا فقید المثال استقبال اور پاک چین دوستی کی تاریخ کا تسلسل ہے۔ یہ اس بات کا مظہر ہے کہ دونوں ممالک کی دوستی کی جڑیں پاکستانیوں کے دِلوں میں اور ’’ریاست‘‘ کے اندر ہیں یہ کسی خاص جماعت اور حکومت کی محتاج نہیں۔ آج اگر چین نے پاکستان کی معیشت کی بحالی کے لئے اپنی46ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اور اقتصادی راہداری کی بحالی کے لئے معاہدے کئے اور فنی مہارت بھی مہیا کر رہا ہے تو پاکستان بھی اس وقت چینی عوام کے ساتھ پوری استقامت اور جرأت کے ساتھ کھڑا رہا ، جب چین دُنیا میں تنہا کھڑا تھا اور پاکستان امریکہ کا اتحادی بھی تھا، امریکہ چین کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے سے پہلے ہی بھارت کی مدد سے سرنگوں کرنا چاہتا تھا، اس وقت پاکستان کو کمیونزم کا خوف دِلا کر چین دوستی سے باز رکھنے کی کوشش کی گئی تھی، لیکن پاکستان نے نہ صرف مسلم دُنیا میں سب سے پہلے تسلیم کیا، بلکہ اقوام متحدہ کی رکنیت دلانے میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔
پاک چین دوستی کی بنیاد پچاس کے عشرے میں رکھی گئی، جب چین کو آزاد مُلک کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا تو پاکستان کے وزیراعظم شہید ملت لیاقت علی خان تھے اس کے بعد بھی اس کا کریڈٹ سبھی حکومتوں کو جاتا ہے، معمار اول اگر کسی کو قرار دیا جا سکتا ہے تو وہ مرحوم حسین شہید سہروردی تھے، جنہوں نے پہلا دورہ کیا تھا، اس حوالے سے ذوالفقار علی بھٹو کے کردار کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ جنرل ایوب کے دور میں چین کے عظیم مدبر حکمران چو این لائی وزیراعظم کی حیثیت سے پاکستان تشریف لائے تو ان کا والہانہ استقبال کیا گیا تھا، ویسا استقبال پاکستان میں شاہ فیصل بن عبدالعزیز کے سوا کسی کا نہیں ہوا۔ یہ اس حقیقت کا غماز ہے کہ پاکستانی قوم بھی اُسی حکمران کا ایسا استقبال کرتی ہے جس کی دوستی کی بنیاد ریاست کے ساتھ ہوتی ہے، حکومتی شخصیات تعلقات میں گرم جوشی یا سرد مہری کا سبب ضرور بنتی رہتی ہیں۔
پاک چائنا ’’اقتصادی راہداری‘‘ کے معاہدوں کی مکمل تفصیل سامنے آنے پر پتہ چلے گا کہ اس منصوبہ میں کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی اور ترقیاتی منصوبے شامل کئے گئے ہیں یا نہیں، یہ وعدہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے چند ماہ قبل کراچی کے عوام کے ساتھ کیا تھا، کہ جاپان کی مدد سے سرکلر ریلوے کو بحال کیا جائے گا، پیر کے روز جن منصوبوں کا اعلان ہوا ان میں یہ منصوبہ شامل نہیں ہے، اگر ایسا ہوا تو کراچی پر اس کا منفی اثر پڑے گا، اب بھی سوالات اُٹھ رہے ہیں کہ چین کے صدر کی آمد کے موقع پر پنجاب کے وزیراعلیٰ کی موجودگی اور باقی تینوں صوبوں کے وزرا اعلیٰ غیر حاضر تھے، کاش وزیراعظم محمد نواز شریف اس حقیقت کو پا لیں کہ منتخب حکومتیں شخصی طرز حکمرانی اپنا کر اپنی منزل کھوٹی کر لیتی ہیں۔ بہرحال وفاقی حکومت نے اچھا کیا کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں چاروں وزرا اعلیٰ کی حاضری کو یقینی بنایا، بصورت دیگر منفی اثرات ہو سکتے تھے تاہم ایم کیو ایم نے اسے بھی عوامی ایشو بنا کر سوال کیا ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے کے منصوبے کا کیا ہوا اور کراچی کے لئے کیا سرمایہ کاری ہوئی ہے؟ اگر وفاق کی طرف سے جلد وضاحت نہ آئی تو اس سے نقصان کا احتمال ہے۔ ویسے ایم کیو ایم کی مشکلات کم کرنے میں اہم کردار سیاسی مخالفوں اور کراچی کے معروضی حالات سے نابلد تجزیہ نگاروں کی گل افشانیوں کا بھی ہے۔
حلقہ این اے246 کراچی میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں حلقہ کے ووٹرز اپنی ’’نمائندگی کا حق‘‘ ڈے آف پولنگ کس کو دیتے ہیں۔ اس پرکوئی رائے زنی کرنے کی بجائے 23اپریل کا انتظار کرنا بہتر ہو گا۔ دعوے کرنے والے اپنے اپنے امیدوار کے حق میں کر رہے ہیں۔ ان کو اس کا حق ہے، مگر آزاد میڈیا پرسنز کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے تجزیوں اور تبصروں کواپنی پسند و نا پسند سے الگ رکھیں۔ابتدا میں ایم کیو ایم خاصی مشکل میں نظر آ رہی تھی اور بعض اشارے ایسے بھی مل رہے تھے کہ اگر وہ کسی مرحلے پرمخالفوں کی انتخابی مہم میں جان پڑتی محسوس کرے گی تو ’’ہَوا‘‘ کا مخالف رخ دیکھ کر1993ء اور2001ء کی طرح بائیکاٹ کا اعلان کر دے گی، مگر مہم جوؤں کی طرح فتح کرنے اور آزاد کرانے کے عاقبت نا اندیش نعروں نے ایم کیو ایم کو ’’مہاجر‘‘ نعرہ میں جان ڈالنے کا موقع فراہم کر دیا۔جب عمران خان بھی اس قلعہ کے عوام کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے ’’آدھا مہاجر‘‘ تو مَیں بھی ہوں کا نعرہ لگا دیں تو پھر ’’مہاجر کاز‘‘ تو عمران نے بھی تسلیم کر ہی لیا ہے؟ اب سوال یہ رہ گیا ہے کہ جو ’’مہاجر کاز‘‘ کی بنیاد پر ووٹ دیں وہ پورے مہاجر کے نمائندے کو ووٹ دیں یا آدھے ’’مہاجر‘‘ کے نمائندے کو عمران خان کو ایک ہی نعرہ لگانا چاہئے تھا کہ الیکشن کمیشن کی یہ ذمہ داری ہے کہ ایسے فول پروف انتظام کرے جس سے حلقہ این اے246 میں کوئی بھی جماعت خواہ وہ ایم کیو ایم ہو یا جماعت اسلامی یا تحریک انصاف ڈے آف پولنگ کی طرح کسی بے قاعدگی کی جرأت نہ کر سکے اور دُنیا دیکھے کہ پولنگ صاف شفاف اور آزادانہ اور غیر جانبدارانہ ماحول میں کس طرح کی مداخلت کے بغیر ہوتے نظر آئے۔عمران خان کو اپنا امیدوار نامزد کرنے سے قبل اپنی اتحادی جماعت جماعت اسلامی کی قیادت سے مشاورت بھی کر لینی چاہئے تھی کہ وہ جس امیدوار کو میدان میں اتار رہے ہیں وہ اس حلقے کے مزاج اور اس کی حساسیت سے بھی کما حقہ واقف بھی ہے یا نہیں، انہوں نے دھرنا سیاست کا انداز اختیار کر کے ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو کے قریب سرکاری پارک جناح گراؤنڈ کا چکر لگا کر فتح کا اعلان کر کے ایم کیو ایم کو’’مہاجر کاز‘‘ استعمال کرنے کا سنہری موقع فراہم کر دیا جس سے ایم کیو ایم نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اب ایم کیو ایم کے قائد کی ساری توجہ اس حلقہ کے ووٹرز اور اپنے کارکنوں کو اس طرف لگا دی کہ قائل کر کے ناراض اور مایوس ووٹرز کو ووٹ دینے کے لئے گھروں سے نکال کر23اپریل کو صبح سویرے پولنگ سٹیشنوں کے باہر اپنے ورکر لمبی لمبی قطاریں لگوا دیں، تاکہ مخالفوں کے حق میں ووٹ ڈالنے کے لئے آنے والوں کے حوصلے پست ہو جائیں۔ رینجرز کے جوان اندر اور باہر امن و امان تو قائم کر دیں گے مگر وہ کسی شخص کو ہاتھ میں شناختی کارڈ لے کر ووٹرز کی حیثیت سے قطار میں کھڑا ہونے سے کیسے روکے گی؟ انتخاب کو صاف شفاف بنانے کی تمام ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے رینجرز تو اپنے آپ کو پولنگ سٹیشنوں کے اندر اور باہر امن قائم رکھنے تک محدود رکھے گی جو وہ پوری کرے گی۔ کون اصل ووٹرز ہے اور کون جعلی اس کا انحصار انتخابی عملے پر ہے کہ وہ ایمانداری کے ساتھ اپنے فرائض انجام دینے کی اہلیت و صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں؟ انتخابی عملے کے ساتھ ساتھ صاف شفاف پولنگ کا انحصار امیدواروں کے پولنگ ایجنٹوں پر ہو گا کہ وہ انتخابی قواعد و ضوابط سے کما حقہ واقف ہے یا نہیں اور پولنگ کے دوران پیش آنے والے مسائل سے حکمت اور دانائی سے نمٹنے کے لئے تربیت یافتہ ہیں یا نہیں۔ ماضی کے ادوار میں عام انتخابات اور پولنگ اسٹیشن پر ضمنی انتخاب میں پریذائیڈنگ افسر کی جگہ ایسے افراد کام کرتے رہے جس کے وہ مجاز ہی نہیں تھے۔ اس ضمنی انتخاب میں اہم بات یہ ہے کہ کس جماعت کا امیدوار کتنے ووٹ لے کر کامیاب ہوتا ہے اور دوسرے اور تیسرے نمبر پر آنے والے امیدوار کو کتنے کتنے ووٹ ملتے ہیں، جس سے ان لوگوں کو بھی اپنے سوال کا جواب مل جائے گا جو کراچی کے معروضی حالات اور یہاں کی حساسیت کا ادراک کئے بغیر معروضیت کے بجائے خواہشات، ترجیحات اور نقصانات کی بنیاد پر ’’ٹاک شوز‘‘ میں فتح و شکست کے نتائج مرتب کر رہے ہیں، خدا کرے کامیاب کوئی بھی ہو ، پر ڈے آف پولنگ یہ نوید لے کر طلوع ہو کہ کراچی میں پولنگ صاف شفاف انداز میں مکمل ہوئی۔ یہی سب کی جیت ہو گی، کامیاب ہونے والوں کی بھی اور کامیابی سے محروم رہنے والوں کی بھی۔
***