پارلیمانی سیاست پر توجہ مرکوز رکھیں
ہمارے ملک ہی میں نہیں دنیا بھر میں سیاست کا کھیل عجیب ہے اور اس میں کئی مقام آتے رہتے ہیں تاہم جہاں جمہوریت مستحکم ہے وہاں جمہوری روایات پر بھی عمل ہوتا ہے، حال ہی میں برطانیہ کی وزیر اعظم تھریسامے نے بریگزٹ( یورپین یونین سے انخلاء) کے موضوع پر مذاکرات سے قبل نئے انتخابات کا فیصلہ کیا اور پارلیمنٹ سے منظوری لے لی، وہاں انتخابات 8جون کو ہوں گے۔ وزیر اعظم برطانیہ کے مطابق وہ مذاکرات کے لئے جانے سے پہلے نیا مینڈیٹ حاصل کرنا چاہتی ہیں، امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت متنازعہ بنی ہوئی ہے اور عوام کہتے ہیں کہ وہ دو لاکھ کے فرق سے ہارے، ان کی پالیسیوں سے بھی اختلاف ہوا اور مظاہرے بھی ہو رہے ہیں، لیکن نظام چل رہا اور ڈونلڈ ٹرمپ اپنی پالیسیاں چلارہے ہیں۔
ہمارے پاکستان میں جمہوریت تو آچکی، لیکن یہاں جمہوریت مستحکم نہیں ہو پارہی کہ نام تو لیا جاتا ہے لیکن عمل نہیں ہوتا، الزام اور جوابی الزام کا سلسلہ جاری رہتا ہے، حکومت کے پاس انتخابی مینڈیٹ کے مطابق 2018ء تک حکمرانی کا اختیار ہے، لیکن یہاں حزب اختلاف برداشت کرنے پر تیار نہیں۔ محترم عمران خان تو شروع سے استعفیٰ مانگ رہے ہیں اور اب پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی بھی شامل ہوگئی ہیں۔پاناما لیکس سے امیدیں وابستہ کی گئیں، لیکن فیصلے سے یہ حضرات مایوس ہوئے ہیں، ان کی خواہشات کے مطابق فیصلہ نہیں آیا، اس پر سخت رد عمل دیا گیا ہے اور اس سلسلے میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے پارلیمنٹ ( سینٹ+قومی اسمبلی) میں حزب اختلاف کے پارلیمانی قائدین کا اجلاس بلالیا جوجُمعہ کو پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا، ماسوا ایم کیو ایم (پاکستان) تمام جماعتوں نے شرکت کی اور پاناما کیس کے تحریری فیصلے پر غور کیا۔
اس اجلاس میں اب یہ طے کرلیا گیا کہ حکومت کو ’’ٹف ٹائم‘‘ دینا ہے اور پارلیمنٹ کے فورم پر باز پرس کی جائے گی، اپوزیشن کا یہ جمہوری حق ہے، لیکن سوال تو یہ ہے کہ فیصلہ سپریم کورٹ نے کیا فریقین نے تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہوا ہے، لیکن اب فیصلے میں کیڑے نکالے جارہے ہیں، پیپلز پارٹی نے مسترد کیا تو اب تحریک انصاف نے بھی کردیا ہے ، چنانچہ حزب اختلاف کے پارلیمانی گروپوں کے مشترکہ اجلاس میں جو فیصلہ کیا گیا اس سے ایوانوں میں گرما گرمی ہوگی۔یہ بھی جمہوری حسن ہے اور ان کو حق حاصل ہے کہ وہ متحدہ حزب اختلاف کی طرف پیش قدمی کریں ، لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ سب جمہوری انداز سے ہو، ہر جماعت کو احتجاج کا حق حاصل ہے لیکن اس سے ملکی استحکام متاثر نہیں ہونا چاہئے، احتجاج کریں لیکن آئینی اور قانونی حدود اور دائرہ کار کو مدِ نظر رکھیں، ویسے ایم کیو ایم تو بہر حال اس تنظیم سے باہر ہے۔