کیا ہمیں اقبال کی ضرورت ہے ؟

کیا ہمیں اقبال کی ضرورت ہے ؟
کیا ہمیں اقبال کی ضرورت ہے ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

علامہ اقبال کو دنیا سے رخصت ہوئے کل 80 برس پورے ہو گئے ۔ اِس موقع پر دیگر محبِ وطن پاکستانیوں کی طرح مَیں نے بھی انہیں خوب یاد کیا ۔ ہاں ، سعادت حسن منٹو زندہ ہوتے تو علامہ کے ضمن میں اِس بے انصافی کی نشاندہی کئے بغیر نہ رہتے کہ پاکستان بن جانے پر ہم نے ایک خیری میری آدمی کو زبردستی نہلا دھلا کر حکیم الامت کی کھونٹی پہ لٹکا دیا ہے ۔

حکیم الامت تو وہ تھے ہی ، مگر اِس کا کیا کریں کہ یہ روحانی مرتبہ ہمارے لئے اکثر اُن کی شعری اٹھان کو نظریاتی خانوں میں فِٹ کرنے کی کاوش بن جاتا ہے ۔ ایسا نہ کریں تو بھی ہماری چاہت اُن شخصی اوصاف تک نہیں پہنچ پاتی جن کے راستے میں عقیدت کی دبیز ، غیر شفاف دیواریں کھڑی ہیں ۔ مہاتما بدھ نے بت پرستی کی مخالفت کی تھی ، لوگوں نے اُسی کا بت بنا لیا اور پوجا شروع کر دی ۔ یہی کچھ ہم اقبال کے ساتھ کر رہے ہیں ۔


اگر اسے گستاخی نہ سمجھا جائے تو اِس بار علامہ کو یاد کرنے میں ذرا سی ذاتی غرض مندی بھی شامل ہے ۔ در اصل ، چند ہی سال کے عرصہ میں میرے کزن اور صحافی خالد حسن ، گورڈن کالج کے محبوب استاد پروفیسر نصراللہ ملک اور اب والدِ محترم کے چلے جانے سے زندگی میں جو خلا پیدا ہوا ، وہ دن ڈھلے اور شدید ہو جاتا ہے ۔ کسی نے کہا تھا ’’جب شام اترتی ہے ، کیا دل پہ گزرتی ہے‘‘ ۔

ٹھیک سے بتانا ہے تو دشوار ، لیکن ایک روز اِسی بے کیفی کے عالم میں شام کے وقت میرے منہ سے نکلا کہ ڈاکٹر اقبال ہوتے تو اُن کی طرف چلتے ۔

آپ کہیں گے ’’یار ، کیا کِس کو کِس سے ملا دیا ؟ کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا‘‘ ۔ مَیں کہوں گا ’’ علمی و تخلیقی قد کاٹھ کو نہ دیکھیں ۔ میرے لئے علامہ سمیت یہ سب بے لوث ، خوش نیت اور زندہ صحبت فراہم کرنے والے لوگ ہیں ۔

مَیں اِن سے محروم نہیں رہنا چاہتا‘‘ ۔
اِس سے پیشتر کہ موقف مزید الجھ جائے ، اتنی سی بچگانہ بات کہہ لینے دیجئے کہ مجھے ترجمانِ حقیقت اور مصورِ پاکستان سے زیادہ اپنے اُس نو عمر سیالکوٹی ہم وطن میں دلچسپی ہے جسے لوگ شیخ نور محمد کے بیٹے کی حیثیت سے جانتے ہوں گے ۔

وہی ٹوپیوں والے شیخ نور محمد جن کا گھر ہمارے ٹبہ کشمیریاں سے ملحق بازار چوڑی گراں میں ہے جہاں چوبارے کے نیچے پان فروش حبیب کو ڈُو کی دکان تھی ۔

اقبال کی بڑی بھاوج کا یہ بیان کتابوں میں نقل ہوا ہے کہ وہ اقبال کے بچپن میں محلے کی عورتوں کے ساتھ بارہا گھر میں ازار بند بٹا کرتیں اور اقبال بازار سے منظوم قصے لا کر انہیں لحن سے سنایا کرتے ۔

اِس پس منظر میں نہ تو اقبال کا جلسوں میں کلام ترنم سے سنانا عجیب لگتا ہے ، نہ ہی یہ انکشاف کہ اپنے انتقال سے ایک دن پہلے انہوں نے اُس گلوکار کو سننے کی خواہش کی جس کے گیت کے بول تھے :


اساں ہنجواں ہار پرونا ، تے دُکھ تینوں نئیں دسنا
ترے سامنے بہہ کے رونا تے دُکھ تینوں نئیں دسنا


یہاں یہ انکشاف بالکل عجیب نہیں لگے گا کہ حکیم الامت نے اپنی بے حد مقبول نظم ’’یارب ، دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنا دے‘‘ ایک مغنیہ کا گانا سُن کر کہی جس کی دھُن راگ مالکونس میں ترتیب دی گئی تھی ۔ کلاسیکل میوزک کی مبادیات سے واقفیت رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ اِس راگ میں خود علامہ کے مذکورہ اشعار کیا قیامت ڈھا سکتے ہیں ۔

پر اِن مثالوں سے یہ مراد نہ لیجئے کہ اِس خیری میری تخلیقی آدمی کو ، جو رحمتہ اللہ علیہ کا تاج بھی پہنے ہوئے ہے ، ہر موقع پر سُر تال کی محتاجی کرنی پڑی ۔ چاہنے والوں کے ہجوم میں اسٹیج پہ کھڑے علامہ اقبال کی عوامی سحر کاریاں اِس کے علاوہ بھی ہیں ۔

جیسے مولانا الطاف حسین حالی آخری مرتبہ لاہور آئے تو انجمن حمایت اسلام کے جلسہ میں نقاہت کے باعث کہا کہ اُن کا کلام اقبال پڑھ کر سنائیں گے ۔ اِس پر علامہ نے سامعین کو چونکا نے کے لئے کہا :’ ’گویا کہ مَیں نبی ہوں‘‘ ۔ اور پھر مختصر وقفہ کے ساتھ مکمل شعر فی البدیہہ سنا دیا :
گویا کہ مَیں نبی ہوں اشعار کے خدا کا


الہام بن کے اترا مجھ پر کلامِ حالی


میری خواہش ہے کہ ’’ڈاکٹر اقبال ہوتے تو اُن کی طرف چلتے‘‘ ۔ اللہ کی قدرت کہ وہ 80 سال پہلے کا دور دوبارہ زندہ کردے، بلکہ وہ ایام جب علامہ اقبال کی جگہ نواب شاہنواز خاں ممدوٹ کو پنجاب مسلم لیگ کا صدر بنا دیا گیا تھا ۔ پھر وہ مرحلہ آیا جب پنجاب مسلم لیگ کا مرکز سے الحاق ختم کر دیا گیا ایک نئی پراونشل مسلم لیگ قائم کرنے کا فیصلہ ہوا ۔

کلکتہ میں قائد اعظم کی زیر صدارت مرکزی اجلاس میں لاہور سے ’اقبال کے آخری دو سال‘ کے مصنف عاشق حسین بٹالوی کے ہمراہ پنجاب اسمبلی میں اُس وقت کے واحد منتخبہ مسلم لیگی ممبر ملک بر کت علی بھی تھے ۔ بالآخر جب پنجاب کے لئے پینتیس رکنی آرگنائزنگ کمیٹی کا اعلان ہوتا ہے تو اُن میں علامہ اقبال کے حمایت یافتہ ارکان کا تناسب کم ہے۔

لاہوری مندوبین اجلاس کی پوری کارروائی سنانے کے لئے مایوس و نامراد واپس پہنچتے ہیں تو پلیٹ فارم پر اخبار فروش لڑکا پکار رہا ہے کہ ڈاکٹر اقبال فوت ہو گئے ۔


اِس سے پہلے اجلاس کا جو نقشہ عاشق حسین بٹالوی نے کھینچا ہے وہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں ۔ لکھتے ہیں : ’’جب پنجاب کی طرف سے الحاق کی نئی درخواست پیش ہوئی تو نواب زادہ لیاقت علی خاں نے مخالفت کی اور کہا کہ یہ درخواست منظور نہیں کی جا سکتی۔

مَیں اِس موقع کا منتظر بیٹھا تھا ۔ مَیں نے اُسی وقت کھڑے ہو کر سوال کیا ’ہماری درخواست کے نامنظور کئے جانے کی وجہ کیا ہے؟‘ نواب زادہ صاحب نے کسی قدر تحکمانہ انداز میں فرمایا ’بیٹھ جاؤ‘ ۔

مَیں نے عرض کیا ’مَیں سکول کا طالب علم نہیں ہوں اور نہ آپ سکول ماسٹر ہیں کہ مجھے یوں بیٹھ جانے کا حکم دیں ‘ ۔ اِس پر وہ بگڑ کر بولے ’کیا لاہور سے ہماری بے عزتی کرنے یہاں آئے ہو ؟‘ مَیں نے جواب دیا ’مَیں آپ کی بے عزتی کرنے تو نہیں آیا، لیکن اپنی بے عزتی کرانے بھی نہیں آیا ‘ ۔ مسٹر جناح یہ سب کچھ دیکھ کر مسکرا رہے تھے ۔

یہاں پہنچ کر دل یہ چاہے گا کہ چلیں چھوڑیں ، کوئی ضروری تو نہیں کہ ہم تقسیم سے دس سال پہلے پنجاب میں علامہ اقبال اور یونینسٹ پارٹی کے وزیر اعظم سر سکندر حیات کی سیاسی چپقلش کے عہد میں واپس چلے جائیں ۔

بہتر یہی ہے کہ قادرِ مطلق سے یہ دعا کی جائے کہ دور آج کا رہے، مگر مصورِ پاکستان ہمارے درمیان واپس آ جائیں ۔ پر ، بہنو اور بھائیو ، اگر ہماری یہ دعا قبول ہو گئی تو اِس میں بھی بڑا رِسک ہے ۔

مسلم لیگ کے اجلاسِ کلکتہ پر گفتگو تو بعد میں ہوگی ۔ ڈاکٹر اقبال تو آتے ہی پوچھیں گے کہ بھئی ، یہ ہے وہ پاکستان جس کا خواب دیکھنے کا سہرا تم میرے سر باندھتے ہو ؟ پھر ارشاد ہوگا ’’کِس نے کہا تھا کہ یہاں مقننہ کا کام عدلیہ سنبھالے گی اور سول حکومت چلانے کے لئے فوج کی طرف دیکھا جائے گا؟‘‘ ۔ سوال سخت ہیں ، اِسلئے دل چاہتا ہے کہ علی بخش حقہ لے کر حاضر ہو جائے ۔


تبدیل ہوتی ہوئی دنیا میں حقہ کی جگہ ڈاکٹر صاحب کو ولایت سے اسمگل کیا ہوا سگریٹ پیش کر دیا جائے گا ۔ کیا انہیں اِس کی کسالت حسبِ ذائقہ لگے گی یا وہ جھنجھلا کر کہیں گے ’’یہ لیڈیز سگریٹ کہاں سے لے آئے؟‘‘ بات یہیں تک رہے تو اچھا ہو ، لیکن بھوپال میں سر راس مسعود اور حیدر آباد دکن میں مہاراجہ کشن پرشاد کے دنیا سے اُٹھ جانے کے بعد اب معاشی سلسلے میں کچھ ذمہ داری بھی پاکستانی نیازمندوں پہ ہے ۔

ڈاکٹر اقبال کے پاس رہنے کو میو روڈ والی کوٹھی ہے تو سہی (انہیں اپنے نام سے سڑک کو موسوم کرنے کا فیصلہ شائد پسند نہ آئے) ، لیکن غالب کے یہ الفاظ تو اقبال نے بھی دہرائے تھے کہ ’’ہم نے یہ مانا کہ دلی میں رہیں کھائیں گے کیا‘‘ ۔ آج کی اسلامی جمہوریہ میں ڈاکٹر صاحب کی گزر بسر بھی تو ایک مسئلہ ہے ۔ قانون کی پریکٹس ، یونیورسٹی میں تدریس یا اکادمی ادبیات کی صدارت ؟


اکادمی ادبیات کے لئے انتظامی تجربہ کی شرط ہو گی جس پہ شاعرِ مشرق پورے نہیں اترتے۔ آجکل کی ہائیکورٹ میں وکالت شائد وہ خود ہی پسند نہ کریں کہ انہیں ایک ایسی بار کی رکنیت اختیار کرنا ہو گی جو پہلے تو قومی اہمیت کے کسی سوال پہ زبانی قرارداد منظور کر تی ہے اور پھر سوچتی ہے کہ اِس کا کوئی تحریری مسودہ بھی ہونا چاہئیے تھا ۔ تدریسی امکان کا جائزہ لیں تو اورئینٹل کالج ممنوعہ علاقہ ہے کیونکہ مصورِ پاکستان عربی ، فارسی ، اردو یا کسی اور پاکستانی زبان کی ڈگری ہی نہیں رکھتے ۔

گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے شعبہء فلسفہ میں البتہ گنجائش دکھائی دیتی ہے جہاں ڈاکٹر صاحب طالب علم بھی رہے اور استاد بھی ، لیکن یہاں بھی انہیں ’ٹرن اِٹ اِن‘ کے امتحان سے گزرنا پڑے گا ، یعنی ریسرچ کی چوری پکڑنے والا کمپیوٹر پروگرام ۔

اِس ضمن میں ہماری ایچ ای سی کا معیار دنیا میں اعلی ترین ہے ، سو دعا کیجئے کہ حکیم الامت کے پی ایچ ڈی کے مقالے میں مالِ مسروقہ کی شرح پچیس فیصد کی مقررہ حد سے کم نکلے ۔

مزید :

رائے -کالم -