پاکستان میں دہشت گردی سے ہونے والی اموات میں 40فیصد کمی ہوئی
واشنگٹن (اظہر زمان، خصوصی رپورٹ) پاکستان میں 2015ء کے دوران دہشت گردی کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد گزشتہ سال کی نسبت کم ہوکر 1084 رہ گئی جبکہ 2016ء میں یہ تعداد 1803 تھی۔ یہ انفارمیشن پاکستان کے بارے میں امریکی وزارت خارجہ کی گزشتہ برس میں انسانی حقوق کی صورتحال کی رپورٹ میں شامل ہے۔ پاکستان کے باب میں بتایا گیا ہے کہ اس سال کے دوران حکومت کا احتساب کم رہا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے افراد سزا سے بچے رہے اور خصوصاً سرکاری حکام کو اس ضمن میں تحفظ حاصل رہا۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں انسانی تحفظ کی جو قابل ذکر خلاف ورزیاں گزشتہ برس جاری رہیں ان میں ماورائے عدالت ہلاکتیں، لاپتہ افراد، تشدد، قانون کی حکمرانی اور ضروری عمل کے تحت قانونی کارروائیوں میں کوتاہی، قانون پر ناقص عملدرآمد اور ہجوم کا عمومی تشدد اور ملزموں کا محدود احتساب شامل ہیں۔ بلاامتیاز حراست میں لینے یا مقدمے سے قبل گرفتاریوں اور نچلی عدالتوں میں عدالتی خود مختاری کی کمی، شہریوں کی پرائیویسی کے حقوق میں حکومتی مداخلت، صحافیوں کو ہراساں کرنے اور میڈیا کے اداروں پر بڑے بڑے واقعات نے بھی اضافی مسائل پیدا کئے ہیں۔ حکومت کی طرف سے آزادانہ اجتماع، نقل و حرکت کی آزادی، مذہبی آزادی پر پابندیوں اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف امتیاز برتنے اور فرقہ وارانہ تشدد کا سلسلہ بھی گزشتہ برس جاری رہا۔ حکومت اور پولیس میں بدعنوانی، جرائم کی تفتیش کا فقدان اور خواتین کے ساتھ عصمت دری اور تشدد کے مسائل بھی گزشتہ برس موجود رہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ برس ملک کے انسانی حقوق کے مسائل پیدا کرنے میں ’’نان سٹیٹ ایکٹرز‘‘ کی طرف سے دہشت گردی پر مبنی تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا گہرا عمل دخل رہا ہے۔ پاکستانی فوج نے دہشت گرد اور متشدد گروہوں کے خلاف کارروائیوں میں خاصی کامیابی حاصل کی ہے۔ تاہم ملک کے بعض حصوں میں شدت پسند اور انتہا پسند تنظیموں کی طرف سے تشدد، سماجی اور مذہبی عدم برداشت نے بھی لاقانونیت کی فضا برقرار رکھی جن میں بلوچستان، سندھ، خیبر پختونخوا اور فاٹا شامل ہے۔ رپورٹ کے مطابق پنجاب، بلوچستان، فاٹا، خیبر پختونخوا، سندھ اور فاٹا میں سرکاری حکام غیر قانونی ہلاکتوں کے مرتکب ہوئے ہیں، کچھ ملزموں کو سرکاری حراست میں تشدد کی وجہ سے مبینہ طور پر ہلاک کرنے کی بھی اطلاعات ملی ہیں۔ بلوچستان اور سندھ میں سیاسی بنیاد پر ہلاک کرنے کی شکایات بھی سنی گئیں۔ بلوچستان میں صحافیوں، اساتذہ اور طلبا کو سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔