جنوبی پنجاب صوبہ محاز کے قومی اسمبلی سے مستعفی ارکان گومگوکا شکار کیوں ہیں ؟

جنوبی پنجاب صوبہ محاز کے قومی اسمبلی سے مستعفی ارکان گومگوکا شکار کیوں ہیں ؟
جنوبی پنجاب صوبہ محاز کے قومی اسمبلی سے مستعفی ارکان گومگوکا شکار کیوں ہیں ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ: قدرت اللہ چودھری


 اگرچہ اسمبلی کی مدت پوری ہونے میں اب محض چالیس دن باقی رہ گئے ہیں لیکن جو لوگ جوش جذبات میں اسمبلی کی رکنیت چھوڑنے کا اعلان کر چکے یا اس سے پہلے لاہور کے جلسے میں اس پر لعنت بھیج چکے، ان کا بھی دل نہیں چاہتا کہ اسمبلی کے رنگا رنگ ایوان سے قبل از وقت رخصت ہو جائیں، یعنی انہیں چالیس دن کی جدائی بھی گوارہ نہیں، جنوبی پنجاب کے صوبے کی محبت میں جن چار ارکان قومی اسمبلی نے رکنیت سے استعفا دے دیا تھا، انہیں جناب سپیکر ایاز صادق دوبار بلا چکے، وہ اس بات کی تصدیق کے لئے ان کے پاس نہیں گئے کہ انہوں نے استعفا برضا و رغبت دیا یا کسی دباؤ کے تحت ایسا ہی 2014ء میں تحریک انصاف کے ان ارکان نے کیا تھا جو دھرنے سے پہلے مستعفی ہو گئے تھے۔ ان مستعفی ارکان کے لیڈر بلا ناغہ کنٹینر سے اعلان کرتے تھے کہ ہمارے استعفے کیوں منظور نہیں کئے جاتے، ہم نے چوروں اور ڈاکوؤں کی اسمبلی پر لعنت بھیج دی ہے، ہم ان کے ساتھ نہیں بیٹھنا چاہتے، یہ ایاز صادق کون ہوتا ہے جو ہمارے استعفے روک کر بیٹھا ہوا ہے، ایسے یا ان سے ملتے جلتے الفاظ اسمبلی کے ایوان کے سامنے روزانہ ادا کئے جاتے تھے لیکن ان مردان حریت میں سوائے مخدوم جاوید ہاشمی کے کوئی رجل رشید ایسا نہ نکلا جسے اپنے استعفے کی تصدیق سپیکر کے روبرو کی ہو۔ جاوید ہاشمی نے تو خیر ایک وکھری ٹائپ کی تقریر اسمبلی کے ایوان میں کی اور جو کچھ کہا وہ آج تک درست ہی ثابت ہو رہا ہے۔ مخدوم صاحب اپنے کہے ہوئے الفاظ پر آج تک قائم ہیں اور بوقت ضرورت دہرا بھی دیتے ہیں لیکن باقی مستعفی ارکان کئی ماہ کی مسلسل غیر حاضری کے بعد ایک دن منہ لٹکائے ایوان میں پہنچ گئے تو انہیں ’’کچھ شرم ہوتی ہے، کچھ حیا ہوتی ہے‘‘ جیسے الفاظ بھی سننے پڑے۔ تحریک انصاف کے ان مستعفی ارکان نے اس پورے عرصے کی تنخواہیں وصول کیں جو ارکان کمیٹیوں کے ارکان تھے۔ انہوں نے تمام تر الاؤنس بھی لئے، لیکن نہ تو ان کی دیانتداری پر کوئی حرف آیا نہ ان سے کسی نے پوچھا کہ مستعفی تو آپ برضا و رغبت ہوئے تھے پھر واپس کیوں آئے؟ سپیکر روزانہ تصدیقی اعلانات سنتے تھے لیکن ان کا اصرار تھا کہ جب تک مستعفی ارکان ان کے یا ڈپٹی سپیکر کے سامنے آ کر تصدیق نہیں کریں گے وہ استعفا منظور نہیں کریں گے۔ لاہور کے جلسے میں بھی شیخ رشید اور عمران خان نے اسمبلی پر ’’لکھ لعنت‘‘ بھیجی لیکن استعفا پھر بھی نہیں دیا، اب جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے چار ارکان پر بھی غالباً یہی رنگ چڑھ گیا ہے، وہ دو مرتبہ بلانے پر تو نہیں گئے، دیکھیں اب 24 اپریل کو جاتے ہیں یا نہیں۔ ممکن ہے یہ حضرات جنوبی پنجاب کے مجوزہ صوبے کا ناک نقشہ سنوارنے میں اتنے مصروف ہوں کہ اسمبلی جانے کا وقت ہی نہ نکال پائے ہوں کیونکہ ابھی تک ایسے صوبے کی حدود ہی واضح نہیں ہیں، پنجاب کے اس وقت 36 اضلاع ہیں اور ایک اطلاع کے مطابق 24 اضلاع جنوبی پنجاب کی تعریف میں آتے ہیں گویا اگر نیا صوبہ بن گیا تو دو تہائی پنجاب ’’جنوبی‘‘ ہو جائے گا۔ ویسے اگر سرائیکی زبان کی بنیاد پر نیا صوبہ تشکیل دینا ہو تو سندھ اور خیبر پختونخوا کے بھی کچھ علاقے اس صوبے میں شامل ہو سکتے ہیں لیکن شاید صوبے کے ہمدردوں کا اتنا حوصلہ نہیں ہے کہ وہ کے پی کے اور سندھ کے ان علاقوں کو جنوبی پنجاب کے مجوزہ صوبے کا حصہ بنانے کی بات کریں کیونکہ ایسی صورت میں انہیں وہاں سے کرارا جواب ملے گا۔
عمران خان نے اپنی جماعت کے جن بیس ارکان کو پارٹی سے نکالنے اور مطمئن نہ کرنے کی صورت میں ان کے کیس نیب کو دینے کا اعلان کیا ہے، ان میں بہت سے ارکان حلفاً کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے اپنے ووٹ فروخت نہیں کئے بلکہ تحریک انصاف کے امیدواروں کو ہی ووٹ دیئے لیکن ان کی بات نہیں مانی جا رہی حالانکہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا تھا کہ اگر تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کی قیادت حلفاً کہہ دے کہ انہوں نے ووٹوں کی خرید و فروخت نہیں کی تو وہ یہ موقف تسلیم کر لیں گے اور پھر اس معاملے پر مزید بات نہیں کریں گے لیکن ایسا نہیں ہوا البتہ تحریک انصاف کے جن ارکان کو شوکاز نوٹس دیئے گئے ہیں، ان میں سے بعض کے معاملات خاصے دلچسپ ہیں، انہی میں سے ایک بابر سلیم ہیں، جنہوں نے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن نہیں لڑا تھا، وہ صوابی سے ترکئی گروپ کی حمایت سے کے پی کے اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے چونکہ اسمبلی میں تحریک انصاف کو حکومت سازی کے لئے دوسرے چھوٹے گروپوں کی حمایت درکار تھی اس لئے ترکئی گروپ کو حکومت میں شمولیت پر آمادہ کیا گیا جن میں بابر سلیم بھی شامل تھے لیکن دو سال قبل انہوں نے ترکئی گروپ کو خیرباد کہہ دیا اور پھر چھ ماہ قبل وہ مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو گئے۔ مسلم لیگی رہنما امیر مقام نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ بابر سلیم نے ان کے صوابی کے جلسے میں مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کی تھی اور اب تک اس جماعت میں ہیں لیکن روا روی میں انہیں بھی شوکاز بھیج دیا گیا اور بعید نہیں کہ ان کا کیس بھی نیب کو ریفر کر دیا جائے۔ ویسے ایک سوال یہ بھی ہے کہ جن لوگوں نے ووٹ فروخت کئے اور خریدنے والوں کو ووٹ دے کر کامیاب کرایا، فرض کریں یہ حضرات ایسا نہ کرتے اور پوری دیانتداری سے تحریک انصاف کے امیدوار کو ہی ووٹ دے دیتے تو جوہری طور پر کیا فرق پڑتا؟ کیونکہ سینیٹ میں جتنے بھی ارکان کا تعلق تحریک انصاف سے ہے، انہوں نے بھی تو ووٹ پیپلزپارٹی کے حمایت یافتہ اور نامزد چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کو ہی دیا ہے۔ تحریک انصاف کا ایک رکن مزید منتخب ہو جاتا تو کیا وہ پارٹی پالیسی کے مطابق ووٹ نہ دیتا؟ سراج الحق کی تازہ گواہی کو پیش نظر رکھیں تو پورا کھیل واضح ہو جاتا ہے۔

مزید :

تجزیہ -