موجودہ پارلیمینٹ صدارتی نظام کا فیصلہ نہیں کر سکتی

موجودہ پارلیمینٹ صدارتی نظام کا فیصلہ نہیں کر سکتی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے کہا ہے کہ صدارتی نظام کا فیصلہ پارلیمینٹ کرے گی،انہوں نے یہ بات تلہ گنگ پریس کلب میں اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے کہی،اِس بات چیت کی مزید تفصیلات کا علم نہیں ہو سکا،نہ ہی یہ پتہ چل سکا ہے کہ انہوں نے یہ بات کس سیاق و سباق میں کہی،بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ آج کل پارلیمانی اور صدارتی نظام کی جو بحث چل رہی ہے۔ انہوں نے بھی اسی تناظر میں بات کہی ہو گی،کیونکہ تحریک انصاف کے بہت سے سرکاری عہدیدار اِس بحث میں کھل کر حصہ لے رہے ہیں۔صوبہ خیبرپختونخوا کے گورنر شاہ فرمان کئی بار کہہ چکے ہیں کہ وہ صدارتی نظام کے حق میں ہیں اسی طرح تحریک انصاف کے جماعتی عہدیداروں کی جانب سے بھی ایسے ہی بیانات آتے رہتے ہیں، خود وزیراعظم عمران خان اور صدرِ مملکت عارف علوی بھی صدارتی نظام کے لئے اپنی پسندیدگی کا اظہار کر چکے ہیں۔اِس حوالے سے اٹھارہویں ترمیم کے بارے میں بھی مملکت کے بہت سے عہدیدار اظہارِ خیال کرتے رہتے ہیں،بعض کا خیال ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کوئی صحیفہ آسمانی نہیں،جس میں کوئی تبدیلی نہ ہو سکے اِسی لئے ہم اس میں تبدیلی کا سوچ رہے ہیں،بعض دوسروں کا خیال ہے کہ وہ اٹھارہویں ترمیم میں کوئی تبدیلی نہیں کرنا چاہتے یہ معاملہ اپوزیشن اپنی کرپشن سے توجہ ہٹانے کے لئے اٹھاتی رہتی ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے منتخب وزیروں کی جگہ غیر منتخب ٹیکنو کریٹس کو جس طرح ’’وزراء کی ذمے داریاں‘‘ سونپی ہیں اسے بھی بعض لوگ صدارتی نظام کی جانب مراجعت ہی قرار دے رہے ہیں، چونکہ سیدھا سیدھا صدارتی نظام لانا ممکن نہیں ہے،اِس لئے حکومت ایسے اقدامات اُٹھا رہی ہے کہ نظام کا چہرہ بے شک پارلیمانی رہے،لیکن اندر سے یہ صدارتی نظام کے قریب ہو جائے، کیونکہ مشیر اور معاونین خصوصی نہ تو پارلیمینٹ میں منتخب ارکان کی جگہ لے سکتے ہیں نہ ہی ایوان کے اندر بیٹھ سکتے ہیں اور نہ ہی پارلیمینٹ کو جواب دہ ہیں وہ صرف وزیراعظم کی پسند ہیں، انہیں ’’چاہتا کوئی اور ہے‘‘ وہ پس پردہ رہ کر ہی اپنی ٹیکنو کریسی کی بنیاد پر قابلیت کے جوہر دکھا سکتے ہیں۔ایسا ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے اور اب بھی ہو رہا ہے۔
جہاں تک گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کے اس بیان کا تعلق ہے کہ پارلیمینٹ ہی صدارتی نظام کے بارے میں فیصلہ کر سکتی ہے،ہمارے خیال میں انہوں نے آئین کا دِقتِ نظر سے مطالعہ نہیں کیا اور کیا ہے تو متعلقہ شقوں کی درست تفہیم نہیں کی،آئین کے بارے میں اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں کہ اس کی بنیاد پارلیمانی نظام پر استوار ہے اور جب تک یہ آئین موجود ہے مملکت کا کوئی ادارہ اور کوئی عہدیدار ، حتیٰ کہ پارلیمینٹ اور اعلیٰ عدالتیں بھی اس کی یہ بنیادی حیثیت تبدیل نہیں کر سکتیں، موجودہ پارلیمینٹ میں جو افراد منتخب ہو کر آئے ہیں وہ چاہے آزاد حیثیت میں منتخب ہوئے ہوں یا کسی سیاسی جماعت کے ٹکٹ پر،اُن میں سے کسی ایک نے بھی یہ نعرہ نہیں لگایا تھا کہ وہ اگر منتخب ہو گیا تو پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام لانے کی کوشش کرے گا،اِس لئے یہ بات آسانی سے کہی جا سکتی ہے کہ2018ء کے انتخابات میں نظام کی بحث سرے سے انتخابی مسئلہ ہی نہیں تھی،اِس لئے موجودہ پارلیمینٹ میں بیٹھے ہوئے ارکان چاہے وہ ذاتی طور پر صدارتی نظام کے کتنے بھی مداح ہوں، قانوناً تو کجا اخلاقاً بھی صدارتی نظام کی حمایت نہیں کر سکتے،اِس لئے ہمارا خیال ہے کہ خیبرپختونخوا کے گورنر شاہ فرمان صدارتی نظام کے حق میں جو ’’تبلیغ‘‘ کھلم کھلا کر رہے ہیں وہ نہ صرف آئین کی خلاف ورزی ہے،بلکہ انہوں نے جس آئین کے تحفظ کا حلف اٹھا رکھا ہے دانستہ یا نادانستہ طور پر اس کی مخالفت کے بھی مرتکب ہو رہے ہیں اور اگر اس بنا پر کوئی شخص شاہ فرمان کے معاملے کو اعلیٰ عدالت میں لے جائے تو شاید اُنہیں اپنے خیالات کا دفاع کرنا مشکل ہو جائے۔

موجودہ پارلیمینٹ،مروجہ آئین کے تحت تخلیق ہوئی ہے، اس کا ہر ہر رُکن آئین کے تحفظ کی قسم اُٹھا چکا ہے اور اِس قسم کے بعد اس کی یہ آئینی اور قانونی ذمے داری بن جاتی ہے کہ وہ نہ صرف پارلیمانی نظام کی حمایت کرے،بلکہ اس کو مضبوط بھی بنائے، اور جن ارکان کو یہ نظام پسند نہیں ان کے لئے بہترین راستہ یہ ہے کہ وہ پارلیمینٹ کی رکنیت سے استعفا دیں، اور اس سے باہر آ کر صدارتی نظام کے لئے سیاسی جدوجہد کریں، ہو سکے تو ایسی سیاسی جماعت بنائیں جو قوم کو اس کا ہمنوا بنائے اور صدارتی نظام کی راہ ہموار کرے۔ ایسی صورت میں وہ جو چاہیں کہیں انہیں کوئی نہیں روکے گا،لیکن جو شخص موجودہ پارلیمانی آئین کے تحت حلف اٹھا لیتا ہے وہ اس بات کا مکلف ہو جاتا ہے کہ پارلیمانی نظام کی حمایت کرے۔
چونکہ موجودہ پارلیمینٹ، پارلیمانی نظام کی تخلیق ہے اور جس آئین کے تحت یہ وجود میں آئی ہے اس کی بنیاد پارلیمانی نظام ہے،اِس لئے یہ پارلیمینٹ اس نظام کی بنیاد کو نہیں ڈھا سکتی، وہ جو بھی قانون سازی کرے گی اسی نظام کے تحت ہی کرے گی، اعلیٰ عدالتیں یہ بھی قرار دے چکی ہیں کہ آئین سپریم ہے اور اس کی منشا کے خلاف کوئی قانون سازی پارلیمینٹ نہیں کر سکتی، عدالتوں نے پارلیمینٹ کے بنائے ہوئے بہت سے قوانین اسی لئے کالعدم قرار دیئے ہیں،کہ وہ آئین سے متصادم تھے،اسی لئے موجودہ پارلیمینٹ کو قانون سازی اپنی حدود میں رہ کر کرنا ہوتی ہے، وہ ان حدود سے باہر نہیں نکل سکتی،اِس لئے گورنر پنجاب کا یہ فرمان محلِ نظر ہے کہ صدارتی نظام کا فیصلہ پارلیمینٹ ہی کر سکتی ہے۔ جو پارلیمینٹ آئین کے خلاف قانون نہیں بنا سکتی وہ اس آئین کی ہیّت کیسے تبدیل کرسکتی ہے؟
ایسا فیصلہ اگر کرناہے تو موجودہ پارلیمینٹ کو قانون کے مطابق توڑ دیاجائے اور ایک نئی آئین ساز اسمبلی کے لئے انتخابات کرائے جائیں،اس اسمبلی کے لئے جو سیاسی جماعتیں اپنے امیدوار کھڑے کریں وہ اپنا ’’صدارتی منشور‘‘ عوام کے سامنے پیش کریں، اگر عوام ان کو اپنے اعتماد سے نوازیں اور وہ اتنی تعداد میں منتخب ہو کر آ جائیں کہ وہ ایسا آئین بنا سکیں جسے صدارتی کہا جا سکے تب کہیں جا کر درجہ بدرجہ صدارتی نظام تک پہنچا جا سکتا ہے۔ موجودہ پارلیمینٹ آئین میں دو تہائی اکثریت سے ترمیم تو کر سکتی ہے،لیکن اس کی بنیاد تبدیل نہیں کر سکتی، یعنی پارلیمانی نظام کو صدارتی میں تبدیل کرنے کا اختیار پارلیمینٹ کے پاس بھی نہیں ہے۔ اسی طرح مملکت کا کوئی بڑے سے بڑا عہدیدار بھی یہ کام نہیں کر سکتا۔البتہ اگر کسی کے دِل میں صدارتی نظام کی خواہش بہت زیادہ مچل رہی ہے اور اسے بے قرار کر رہی ہے تو اس کے لئے سادہ ترین شارٹ کٹ ماورائے آئین اقدام ہی ہوسکتا ہے اور ہمارا نہیں خیال کہ کوئی ایسا اقدام کرنے کی خواہش رکھتا ہے، اِس لئے صدارتی نظام کی راہ میں موجودہ آئین چٹان کی طرح کھڑا ہے، کسی کو صدارتی نظام کا تجربہ دوبارہ کرنا ہے تو وہ پہلے اس چٹان کو اپنے راستے سے ہٹائے، اِس لئے ہماری گزارش یہ ہے کہ سیاست دان اور مملکت کے اعلیٰ مناصب پر فائز حضرات اِس سلسلے میں زبان کھولنے سے پہلے تھوڑا بہت غور کر لیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ آئین کی کتاب اور عدالتی فیصلے بھی ان کے لئے مشعل راہ ہوسکتے ہیں۔

مزید :

رائے -اداریہ -