اختیارات کی جنگ
بیوروکریسی کسی بھی نظام میں حکمرانی کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے،کابینہ جسے تیسری دنیا میں حکومت کا نام دیا جاتا ہے کا کام پالیسی سازی ہے جبکہ پارلیمنٹ کا کام قانون سازی،قانون اور پالیسیوں پر عملدرآمد کرانا بیورو کریسی کا کام ہے جسے گورنمنٹ سرونٹ کہا جاتا اور اس کا دوسرا نام پبلک سرونٹ ہے،بد قسمتی سے تیسری دنیا میں اختیارات کو اپنے ہاتھ میں رکھ کر اقتدار کو مضبوط کرنے اور عرصہ اقتدار کو طول دینے کیلئے اختیارات کی جنگ جاری ہے،پارلیمنٹ کی توجہ قانون سازی پر کم اورکابینہ، ارکان اسمبلی کی اپنے حلقوں میں مرضی کے افسر تعینات کرا کے مرضی کے فیصلے اور ان پر مرضی سے عملدرآمد کرا کے عوام کو احساس دلایا جاتا ہے کہ اصل حکمران ہم ہیں ہماری مرضی کے بغیر پرندہ پر نہیں مار سکتا پتہ پھڑک نہیں سکتا،بیوروکریسی اس ماحول میں عوام کی خدمت کرنے کی بجائے وزراء اور ارکان اسمبلی کو خوش کرنے میں مصروف رہتی ہے جس کے نتیجے میں مسائل جوں کے توں رہتے ہیں اور عوام کو ان کے حل کیلئے آخر کار منتخب ارکا ن یا وزراء کے دروازے پر دستک دینا پڑتی ہے،جس کے باعث عوام کا نظام پر اعتمادڈانواں ڈول ہو جاتا ہے۔
ہر حکومت منتخب ہونے کے بعد مرضی کے بیوروکریٹس کو منتخب کر کے ان سے مرضی کے کام لینا چاہتی ہے جس کے بعدسرکاری عملہ عوام کا خادم کم اور حکومتی عہدیداروں کا ذاتی ملازم بن کر رہ جاتا ہے،ماضی میں ہر حکومت نے بیوروکریسی کو اپنی مٹھی میں کرنے کیلئے افسروں کوقواعد سے ہٹ کر مراعات بھی دیں،جس کے نتیجے میں سرکاری افسرذاتی مفادات کیلئے سرگرم رہنے لگے،موجودہ حکومت بھی اپنے منشور پر عملدرآمد اور انتخابی مہم میں عوام سے کئے گئے وعدوں کو تعبیر دینے کیلئے من پسند،اصول پسند،دیانتدار،اہل افسروں کی تلاش میں ہے مگر آٹھ ماہ کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی افسروں کی ٹیم کے انتخاب میں ناکام ہے،جس کی وجہ سے آئے روز خاص طور پر پنجاب میں تبادلوں کا جھکڑ چلتا ہے،ایک ایک پوسٹ پرتین تین مرتبہ تعیناتی کی گئی مگر اطمینان اب بھی نہیں،آٹھ ماہ کے دوران پنجاب میں تیسرے آئی جی کی تعیناتی عمل میں آئی ،یہ نئے آئی جی کی اس عہدے پر دوسری مرتبہ تعیناتی ہے۔
گزشتہ دنوں 41سیکرٹریز،کمشنرز اور ڈی سی اوز کے تبادلے کئے گئے جن میں دلچسپ ترین تبادلہ آئی جی پنجاب کا تھا،تحریک انصاف حکومت کا روز اول سے ہی پولیس ریفارمز لانے کا مصمم ارادہ تھا اور اس کیلئے کئی کمیٹیاں بھی تشکیل پائیں،مگر نتیجہ صفر رہا، یہ تبادلے حتمی نہیں ابھی گریڈ 21اور22کے تمام صوبوں کے چیف سیکرٹریز اور آئی جی صاحبان سمیت متعدد افسروں کے تبادلے آئندہ چند دنوں میں متوقع ہیں، جس کی سفارش مشیر وزیراعظم شہزاد ارباب کی سربراہی میں قائم سپیشل کمیٹی نے کر دی ہے،ان افسروں کی تعیناتی بھی چھ ماہ کے عرصہ کیلئے ہو گی،کارکردگی نہ دکھانے والے افسروں کو پھرسے تبادلوں کا سامنا کرنا پڑے گا، تاہم کارکردگی دکھانے والے افسر اسی پوسٹ پرتین سال کیلئے خدمات انجام دے سکیں گے، یہ مگر طے ہے کہ کسی بھی افسر کی اس کے عہدے پر موجودگی وزیر اعظم کے اطمینان سے مشروط ہو گی،وزیر اعظم وزراء کی طرح اب بیوروکریسی کی کار کردگی کا بھی جائزہ لیا کریں گے۔
وفاقی کابینہ میں ردوبدل اس بات کا بین ثبوت ہے کہ وزیر اعظم اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کیساتھ کابینہ پر بھی گہری نظر رکھے ہوئے ہیں،اسد عمر سے وزیر خزانہ کا قلمدان واپس لینا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ وزیر اعظم کے نزدیک کسی سے تعلق یا دوستی کیاہمیت نہیں،کارکردگی اصل میرٹ ہے،اسد عمر کو وزیر اعظم کے بہت قریب تصور کیا جاتا تھا، مگر ایمنسٹی سکییم کی تفصیلات اور جزئیات کا راز کھلنے اور آئی ایم ایف سے حالیہ ڈیل سے وزیراعظم خوش نہ تھے حالانکہ مالیاتی ادارہ کی شرائط تسلیم کرنا ان کی مجبوری تھا،حکومت کے ذرائع آمدن اب بھی نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ سابق حکومتوں کی طرف سے حاصل کردہ بیرونی قرضوں کی قسط اورسود کی ادائیگی کیلئے حکومت کو فوری بھاری رقوم کی ضرورت ہے،اسد عمر محصولات میں اضافہ کو بھی ممکن نہ بنا سکے،ٹیکس ریکوری میں اب بھی حکومت کو مشکلات ہیں، ٹیکس نیٹ میں اضافہ ہو سکا نہ ٹیکس چوری رکی،جس پر وزیر اعظم خاصے نالاں تھے،جس پر ان سے وزارت خزانہ کا قلمدان واپس لیا گیا،ان کی جگہ تعینات مشیر خزانہ حفیظ شیخ کا تعلق سندھ کے علاقے جیکب آباد سے ہے ان کے والدعبدالنبی شیخ پیپلز پارٹی کے بانی ارکان میں شامل تھے،حفیظ شیخ اقتصادی پالیسی سازی اور عملدرآمد کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں،بوسٹن یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد ہارورڈیونیورسٹی میں بطور پروفیسر خدماست انجام دیں،ورلڈ بینک کے ڈائریکٹرکے طور بھی خدمات انجام دیں،سندھ اور وفاق میں وزیر بھی رہے،وزیر خزانہ کے طور بھی خدمات انجام دیں اور سینیٹر بھی رہے، اقتصادیات کے شعبہ میں وسیع تجربہ کے حامل ہیں۔
فواد چودھری سیاسی مخالفین کیخلاف دو دھاری تلوار ثابت ہو رہے تھے،مخالفین کے علاوہ کچھ اپنے بھی ان سے خفاء تھے،خاص طور پر ایم ڈی پی ٹی وی کی تبدیلی پر نعیم الحق کے ساتھ ان کے اختلافات عروج پر تھے،فواد چودھری کسی حد تک اپنے مقصد میں کامیاب رہے مگر نجانے کیوں عتاب کا شکار ہو گئے،ان کی جا نشین فردوس عاشق اعوان پیپلز پارٹی دور میں بھی وزارت اطلاعات کا قلمدان سنبھال چکی ہیں،آئوٹ سپوکن ہیں اور صحافی برادری سے اچھے تعلقات رکھتی ہیں۔کابینہ میں ردو بدل ظاہر کرتی ہے کہ وزیراعظم وزراء کی کارکردگی سے لاتعلق نہیں ہیں،خبر ہے کہ جلد بیوروکریسی کے ساتھ پنجاب کابینہ میں بھی ردوبدل کا امکان ہے۔پنجاب حکومت کے ڈیلیور نہ کرنے کی ایک وجہ بیوروکریسی میں آئے روز تبادلے ہیں ابھی ایک سیکرٹری اپنی جگہ بھی نہیں بنا پاتا کہ تبدیل کر دیا جاتا ہے اس طرز عمل پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’dailypak1k@gmail.com‘ پر بھیج دیں۔