’’ تبدیلیوں سے قبل کابینہ اجلاس کے دوران ایک پیغام آیا، وزیراعظم عمران خان نے سرگوشی میں جواب دیا اوراپنے ارد گرد2 کرسیاں لگوادی گئیں، 2 اہم افراد کمیٹی روم میں داخل ہوئے اور ۔ ۔ ۔‘‘ سینئر صحافی نے تہلکہ خیز دعویٰ کردیا
اسلام آباد (ویب ڈیسک) وزیراعظم عمران خان نے حکومتی کارکردگی کو مزید بہتر بنانے کے لیے کابینہ میں تبدیلیاں کی ہیں اور کچھ نئے افراد کو ذمہ داریاں سونپ دیں جبکہ کئی وزراء کے قلمدان بدل دیئے ، اب پنجاب اور خیبرپختونخوا کابینہ میں تبدیلیوں کی افواہیں ہیں لیکن ایسے میں سینئر صحافی انصار عباسی تبدیلیوں سے قبل کابینہ اجلاس کی انتہائی حیران کن کہانی سامنے لے آئے ہیں ۔
روزنامہ جنگ کیلئے اپنے کالم میں انصار عباسی نے لکھا کہ ’’ گزشتہ ہفتے کابینہ میں اہم تبدیلیوں کے اعلان سے قبل وزیراعظم عمران خان پاور سیکٹر سے متعلق ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے کہ اسی دوران ایک افسر کمیٹی روم میں داخل ہوا اور آکر اسٹاف کے ایک اعلیٰ افسر کے کان میں کچھ کھسر پھسر کی۔ اعلیٰ افسر اپنی نشست سے اُٹھے اور آکر وزیر اعظم عمران خان کے کان میں کوئی بات کی۔ جس پر وزیراعظم نے سرگوشی کے انداز میں انہیں جواب دیا۔ اس کے تھوڑی دیر بعد وزیراعظم جہاں بیٹھے تھے، اس کے دونوں اطراف میں ایک ایک کرسی لگا دی گئی۔ پھر دو اہم افراد کمیٹی روم میں داخل ہوئے اور وزیراعظم کے دونوں اطراف لگائی گئی کرسیوں پر براجمان ہو گئے۔ ذرائع کے مطابق نئے آنے والوں نے اجلاس کی کارروائی میں شرکت کرتے ہوئے حکومت کی کارکردگی سے متعلق کچھ ایسی سخت باتیں کیں کہ اجلاس میں شامل سرکاری افسران ہکا بکا رہ گئے۔
شرکت والے والی شخصیات کون تھیں، اس پر بات نہیں کرتے لیکن یہ بھی اطلاعات ہیں کابینہ میں کی گئی تبدیلیوں میں چند قومی اداروں کا بھی اہم کردار شامل ہے، جنہوں نے وزیراعظم کو چند ایک وزراء کے متعلق ڈوزئیرز بھی دیئے۔ ان ڈوزئیرز میں کچھ کرپشن کی بھی کہانیاں درج تھیں۔ میڈیا خصوصاً ٹی وی چینلز میں یہ سوال بہت اٹھایا جا رہا ہے کہ آیا یہ تبدیلیاں وزیراعظم عمران خان کی اپنی ذاتی خواہش پر ہوئیں یا کسی اور کے کہنے پر۔ ایک نجی ٹی وی چینل سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے ممتاز صحافی کامران خان صاحب نے اپنے ایک ٹویٹ میں نئے مشیرِ خزانہ کی تعیناتی سے قبل ہی یہ لکھ دیا تھا ’’وزارتِ خزانہ کس کو ملے، قرعہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کے نام کھل رہا ہے، بتایا گیا ہے کہ ریس کے خاتمے کا فیصلہ اب سے تھوڑی دیر قبل آرمی چیف کی وزیراعظم سے ملاقات میں کیا گیا‘‘۔ جیسا کہ کامران خان نے لکھا، بالکل ویسے کچھ دیر بعد ، حکومت کی طرف سے اسد عمر کی جگہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کو مشیرِ خزانہ بنانے کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا۔
اطلاعات یہ بھی مل رہی ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کی طرف سے ندیم بابر کو اپنا معاونِ خصوصی برائے پیٹرولیم بنائے جانے پر سب خوش نہیں اور ممکنہ طور پر یہ تعیناتی واپس بھی لی جا سکتی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ وزیرِ پانی و بجلی عمر ایوب کو وزارتِ پیٹرولیم کا اضافی چارج دیئے جانے کا مقصد ندیم بابر کو فارغ کرنا ہو سکتا ہے۔ ندیم بابر کے متعلق میڈیا میں کہا اور لکھا جا رہا ہے کہ اُن کی تقرری مفادات کے ٹکرائو کے ضمن میں آتی ہے۔ نہ صرف یہ کہ وہ مبینہ طور پر ڈیفالٹر ہیں بلکہ اورینٹ پاور کمپنی کے شیئر ہولڈر بھی ہیں اور یہ اعتراض ایک اہم حکومتی ایجنسی کی طرف سے بھی اُٹھایا گیا ہے۔ البتہ ندیم بابر کا کہنا ہے کہ مقامی عدالت کے فیصلہ دینے سے قبل اُن کی کمپنی کو ڈیفالٹر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ خبروں کے مطابق اورینٹ پاور سوئی ناردرن کی سب سے بڑی ڈیفالٹر کمپنی ہے۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ وزیراعظم نے اپنی ٹیم میں جو تبدیلیاں کیں، اُس کے بعد بھی اگر حکومت کی کارکردگی بہتر نہ ہوئی اور خصوصی طور پر معیشت اور کاروبار کے حالات بہتر نہ ہوئے تو عمران خان کے اپنے لیے مشکلات بہت بڑھ سکتی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ابتدائی طور پر اسد عمر کو بجٹ کے بعد وزارتِ خزانہ سے فارغ کیے جانے کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن جلدی کرنا پڑی‘‘۔