وزیراعظم کی صدر، جنرل قمر جاوید باجوہ سے اہم ملاقاتیں، کئی اہم امور طے!
وزیراعظم سندھ کے تحفظات کے باوجود لاک ڈاؤن میں نرمی کے حق میں
کیا وزیراعظم اپوزیشن سے بات کریں گے؟
عالمی موسمی تغیرات کے اثرات دارالحکومت پر بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں اگرچہ دنیا بھر میں کورونا وائرس کی بدولت لاک ڈاؤن سے کرہ ارض پر آلودگی کے حوالے سے مثبت اثرات نظر آ رہے ہیں لیکن شاید ابھی اس کا دورانیہ اتنا زیادہ نہیں کہ مثبت اثرات مجموعی طور پر موسم پر نمودار ہو سکیں۔ تاہم وفاقی دارالحکومت میں جس طرح آج کل موسم بے اعتبار ہو رہا ہے ملکی سیاست بھی اسی طرح ہو رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے کی نسبت وفاقی دارالحکومت کی سیاست میں بہت سی اہم تبدیلیاں رو نما ہوتی ہوئی نظر آئی ہیں سب سے اہم ترین پیش رفت ”راولپنڈی“ اور اسلام آباد کے مابین برف پگھلتی ہوئی نظر آئی ہے ایسا لگتا ہے کہ بعض اہم ترین متنازعہ ایشوز پر مثبت پیش رفت ہو گئی ہے۔ اس پیش رفت کے تناظر میں بعض اہم ترین ملاقاتیں رنگ لائی ہیں۔ یہ بات یقینی ہے کہ فی الحال سیاسی مطلع صاف ہو گیا ہے اس حوالے سے پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات اہم ترین تھی جس میں ایک حساس ادارے کے سربراہ بھی موجود تھے بعض ازاں اس ملاقات کے فالو اپ میں صدر پاکستان عارف علوی اور وزیر اعظم عمران خان کے مابین ملاقات بھی غیر معمولی اہمیت کی حامل تھی۔ اس ملاقات میں بھی پاکستان کی سلامتی کے حوالے سے اہم ترین حساس ادارے کے سربراہ بھی موجود تھے۔ تاہم ان پے در پے ملاقاتوں میں جہاں بہت سے سیاسی و انتظامی معاملات پر اتفاق رائے پیدا ہوا ہے۔ وہاں کنٹرول لائن پر بھارت کی جانب سے مسلسل اشتعال انگیزیوں کے ممکنہ خطرناک نتائج پر بات چیت ہونا بھی یقینی تھا۔ بھارت کورونا وائرس کی ہولناک صورتحال میں بھی مقبوضہ کشمیر میں جاری لاک ڈاؤن کو ختم کرنا چاہتا ہے نہ ہی کنٹرول لائن پر جارحیت سے باز آ رہا ہے لگتا ہے کہ بھارت موجودہ عالمی بحران میں بھی ا پنے مذموم ناپاک ارادوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے سے باز نہیں آ رہا۔ پاکستان کو بھارت سے سرحد پر حقیقی خطرات کا سامنا ہے۔ تاہم پاکستان کی مسلح افواج کو بھارت کے ناپاک ارادوں کا نہ صرف پوری طرح ادراک ہے بلکہ وہ ہر طرح کے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار بھی ہے۔ صدر پاکستان عارف علوی نے اس حوالے سے آزاد کشمیر کا اہم ترین دورہ کیا اور انہوں نے واشگاف الفاظ میں بھارت کے ظلم و بربریت کے خلاف کشمیریوں کی ہمت افزائی کی اور انہیں یقین دلایا کہ پاکستان ان کے ساتھ کھڑا ہے جبکہ وزیر اعظم عمران خان نے بھی اپنے ایک ٹویٹ میں مودی سرکار کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ تاہم دوسری طرف حکومت کورونا وائرس سے نبٹنے کے لئے لاک ڈاؤن کے ساتھ لوگوں کے روز گار کے مابین ایک توازن برقرار رکھنے کی کوشش میں ہے جو کہ واقعی ایک کٹھن کام ہے تاہم دارالحکومت میں زیادہ تر حلقوں کا یہی اتفاق ہے کہ کورونا کی وبا کو روکنے کا واحد اور مؤثر حل لاک ڈاؤن ہی ہے، جبکہ حکومت کو ایسے اقدامات کرنے چاہئیں کہ لوگوں کو خوراک کی فراہمی اور مالی امداد کا ایک جامع اور مربوط پروگرام بنا کر اس پر عمل پیرا ہوا جائے۔ تاہم وزیر اعظم عمران خان ے لاک ڈاؤن میں کچھ نرمی برتنے کی خاطر جو رعایتیں دی ہیں عوام نے ان کی آڑ میں لاک ڈاؤن کی خلاف ورزیاں شروع کر دی ہیں جس کے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں جبکہ حکومت کی طرف سے کنسٹرکشن کے شعبہ کو کھولنے کے حوالے سے بھی اپوزیشن جماعتیں تحفظات کا شکار ہیں۔ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور صوبہ سندھ میں حکومت کی حامل پاکستان پیپلزپارٹی مکمل لاک ڈاؤن کے حق میں نظر آتی ہیں۔ لیکن لگتا ہے کہ حکومت ایک بین بین پالیسی رکھنا چاہتی ہے تاکہ اسے مکمل ذمہ داری کا بوجھ نہ اٹھانا پڑے۔
ایک طرف کورونا وائرس سے متاثرہ تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ تاہم حکومت نے قدرے رسک لیتے ہوئے رمضان المبارک کے مقدس مہینہ میں بعض حفاظتی اقدامات کی شرائط کے ساتھ مساجد کو نمازیوں کے لئے کھولنے کا اعلان کیا ہے شاید عالم اسلام میں پاکستان واحد ملک ہے جہاں مساجد کو نمازیوں کے لئے کھول دیا گیا ہے ہو سکتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کا یہ اقدام خدا کی رحمت کے دروازے کھولنے میں ممدو معاون ثابت ہو۔ صدر عارف علوی نے اس ضمن میں کلیدی کردار ادا کیا۔ انہوں نے تمام علماء و مشائخ کو ایوان صدر میں جمع کر کے ان سے اتفاق رائے کرایا تاہم اب دیکھنا ہے کہ علماء مشائخ نے مساجد کو کھولنے کی غرض سے جن حفاظتی اقدامات پر مبنی شرائط پر اتفاق رائے کیا ہے ان پر کس حد تک عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ تاہم بعض حلقے اس بات پر تعجب کا اظہار کر رہے ہیں کہ حکومت اس مشکل گھڑی میں بھی اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے پر آمادہ نظر نہیں آتی۔ تاہم وزیر اعظم عمران خان کورونا ریلیف فنڈ میں چندہ اکٹھا کرنے میں خاصے متحرک اور سنجیدہ نظر آ رہے ہیں جبکہ پاکستان میں کام کرنے والے ملٹی نیشنل اداروں کے سربراہ وزیر اعظم عمران خان سے ملاقاتیں کر کے انہیں امدادی چیک پیش کر رہے ہیں۔ جبکہ مختلف ٹی وی چینلز بھی وزیر اعظم عمران خان کی اس مہم میں حصہ لینے کے لئے ٹیلی تھون نشریات کا آغاز کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے رمضان المبارک کے مہینہ میں بالخصوص کورونا وائرس کی بدولت عوام کی معاشی بد حالی کے تناظر میں ذخیرہ اندوزی کے خلاف قوانین کو سخت کر کے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دے دیا ہے جس پر تاجر اور دوکان دار طبقہ کا مؤقف ہے کہ اس حوالے سے قانون بناتے ہوئے انہیں اعتماد میں نہیں لایا گیا جس کی بدولت انتظامیہ تاجروں کو ہراساں کرنے کے لئے اس قانون کو استعمال کرے گی۔ جبکہ 25 تاریخ کو آٹے، چینی سکینڈل کی فرانزک رپورٹ کے توقعات کے پیش نظر ملکی سیاست میں ایک نئے طلاطم کی توقع کی جا رہی ہے تاہم اس بات کا امکان ہے کہ یہ رپورٹ کچھ التوا کا شکار ہو جائے اور اس کا دامن اتنا وسیع ہو جائے کہ شاید جہانگیر ترین کو کچھ ریلیف مل جائے تاہم جہانگیر ترین اور وزیر اعظم عمران خان کے مابین فاصلے کم کرنے کی غرض سے مؤثر کوششیں ہو رہی تھیں۔ دریں اثناء وفاقی کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ پاور سیکٹر کی تحقیقات کمیشن سے کراکر رپورٹ مشتہر کی جائے گی۔ یہ نیاپینڈورا بکس کھل جائے گا۔