کراچی چیمبرنےسٹیٹ بینک سے پالیسی ریٹ یکمشت4فیصد پر لانے کا مطالبہ کردیا
کراچی(آئی این پی)کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے صدر آغا شہاب احمد خان نے غیر معمولی حالات اور دنیا بھر میں جاری معاشی بحران کے مدنظر رکھتے ہوئے گورنر سٹیٹ بینک سے پالیسی ریٹ موجودہ9.0 فیصد سے کم کرکے 4.0 فیصد پرلانے کا مطالبہ کردیا کیونکہ عالمی اقتصادی بحران کے یقینی طور پر پاکستان کی معیشت پر بھی طویل عرصے تک منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
تفصیلات کےمطابق کے سی سی آئی کے صدر نے گورنرسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر کو لکھے گئے ایک خط میں اس بات پر زور دیا کہ ٹکڑوں میں پالیسی ریٹ میں کمی کے معیشت کو مطلوبہ فوائدحاصل نہیں ہوپارہے لہٰذا یہ ضروری ہے کہ موجودہ غیرمعمولی بحران میں کاروباری اداروں کی مدد کرنے کے لیے شرح سود میں ایک ہی بار نمایاں کمی کردی جائے۔
انہوں نےکہاکہ پالیسی ریٹ میں کمی کااب کافی جوازموجود ہےکیونکہ خام تیل کی قیمتوں میں نمایاں کمی،اجناس اورخام مال کی قیمتیں کم ہونے اور مانگ بھی رکنےسےافراط زر میں بھی تیزی سے کمی آرہی ہے،کے سی سی آئی کے صدر نے کورونا وائرس کے پھیلاؤکو روکنے کے لیے لاک ڈاؤن کے باعث مالی بحران ودیگرچیلنجز سےنمٹنےکےلیےسٹیٹ بینک کی جانب سے صنعت وبرآمدکنندگان کی مدد کےاقدامات کو سراہاجبکہ فائلرز کے لیے 4 فیصد اور نان فائلرز کے لیے 5 فیصد شرح سود کے اقدام کی تعریف کرتے ہوئے تجویز دی کہ موجودہ سنگین صورتحال کے پیش نظر کم ازکم ایک سال کے لیے اس شرح سود کو صفرکردیا جائے تاکہ معیشت کا استحکام ممکن ہوسکے اور صنعتیں اپنی بقا قائم رکھ سکیں۔
انہوں نے تاہم اس بات پر بھی زور دیا کہ چھوٹے کاروباری اداروں اور ایس ایم ایز کو تباہی سے بچانے کے لیے ریلیف پیکیج کی انتہائی ضرورت ہے جن کی جی ڈی پی میں شراکت40 فیصد کے لگ بھگ ہے۔انہوں نے نشاندہی کی کہ بدقسمتی سے چھوٹے کاروباری اداروں اور ایس ایم ایز کے لیے اب تک ریلیف کا اعلان نہیں کیا گیا جو بڑے پیمانے کے کاروبار کے مقابلے میں شدید مالی بحران کا شکار ہیں اور ان کی بقا کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔
انہوں نے کہاکہ قرضوں کے حصول کے لیے نچلی سطح پر اور چھوٹے کاروباری اداروں کے بینکوں کے ساتھ تعلقات کچھ خاص نہیں ہوتے اور ان کے وسائل بھی انتہائی محدود ہیں اس کے باوجود یہ شعبہ بڑی تعداد میں ہنر مند اور غیر ہنر مند افراد کو روزگار فراہم کررہاہے۔ سپلائی چین کی اہم کڑی ہونے کی وجہ سے ایس ایم ایز کی مدد بہت ضروری ہے جو اپنی بقا قائم رکھنے کی جدوجہد تو کررہے ہیں تاہم انہیں مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ اپنے ورکرز کو نکال دیں لہٰذا اس طرح کے شعبوں کو دیگر شعبوں کی نسبت زیادہ مدد اور بچانے کی ضرورت ہے۔انہوں نے اسٹیٹ بینک سے درخواست کی کہ ایس ایم ایز کی مدد کے لیے خصوصی ریسکیو پیکیج ترتیب دیا جائے اور کمرشل بینکوں کے ذریعے ایک لاکھ سے پندرہ لاکھ تک قرضے دیے جائیں۔ اس ریسکیو پیکیج کے تحت شرح سود صفر ہونا چاہیے اور ضرورت سے زیادہ دستاویزات طلب کئے بغیر فوری قرضوں کی فراہمی یقینی بنانا چاہیے۔بینکوں کو صرف مالک کے شناختی کارڈ کی ضرورت ہونی چاہیے اورکاروباری مقام کے تصدیق کی جانی چاہیے۔بینکوں کو کسی بھی قسم کی ضمانت کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے اور ذاتی ضمانت پر قرضوں کی منظوری دینی چاہیے۔
آغا شہاب نے درآمدکنندگان کی حالت زار اور مشکلات کو اجاگر کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ لاک ڈاؤن اور مارکیٹوں کی بندش کی وجہ سے گزشتہ ایک ماہ کے دوران پوری سپلائی چین کی وصولیاں رک گئی ہیں،اس کے نتیجے میں درآمدکنندگان کو سرمائے کی شدید قلت کا سامنا ہے جس کی وجہ سے وہ بینکوں کو ادائیگیوں کے کے درآمدی دستاویزات کو ریٹائر کروانے اور بندرگاہوں سے درآمدی کنسائمنٹس کلیئر کراوانے سے قاصر ہیں۔ وہ درآمدی مرحلے پر ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی ادائیگی کی طاقت نہیں رکھتے،درآمدی مال کے ہزاروں کنٹینرز بندرگاہ پر پڑے ہیں جن پر بھاری بھرکم پورٹ چارجز اور ڈیمرج لگ رہا ہے۔انہوں نے خدشے ظاہر کیا کہ اگر موجودہ صورتحال برقرا رہی تو درآمدکنندگان کی بڑی تعداد دیوالیہ ہوجائے گی اور وہ قومی خزانے کو واجب الادا ٹیکس اور ڈیوٹیز بھی جمع نہیں ہوسکیں گی،درآمدی مال کا بیشتر حصہ صنعت اور برآمدکنندگان کا ہے جس میں خام مال اور ضروری سامان ہے۔
کے سی سی آئی کے صدر نے گورنرسٹیٹ بینک سے درخواست کی کہ تمام درآمدکنندگان کو ری فنانس اسکیم کے تحت فوری طور پر ریلیف فراہم کیا جائے۔ درآمدی بل جو واجب لادا ہیں اس کے لیےسٹیٹ بینک کے ذریعے ایک سال کی مدت تک 4فیصد کی شرح سود پر مالی اعانت فراہم کی جاسکتی ہے،کمرشل بینکوں کو درآمدی مال کی ضمانت پر غیر ملکی سپلائز کو درآمدی بلوں کی ادائیگی کا اختیار دیا جاسکتا ہے،بینکوں کو یہ ہدایت بھی کی جاسکتی ہے کہ وہ کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی ادائیگی کے لیے 4فیصد کی شرح پر رننگ فنانس کو منظورکریں۔آغا شہاب نے کہاکہ ان اقدامات سے درآمدکنندگان کو بندرگاہ پر رکھے مال کو کلیئر کروانے اور بھاری بھرکم پورٹ چارجز کی ادائیگی میں مدد ملے گی،موجودہ غیر معمولی حالات میں چھوٹے کاروباری ادارے،ایس ایم ایز اور درآمدکنندگان کو بچانا بہت ضروری ہے جو سپلائی چین کا لازمی حصہ ہیں اور مقامی صنعتوں، تھوک فروشوں، ریٹیل مارکیٹوں سمیت برآمدکنندگان کو سپورٹ کرتے ہیں۔