اطہر مسعود! بڑا ایڈیٹر،خوبصورت انسان!
عہد ِ حاضر کے نامور دانشور، ادیب،عظیم صحافی،اعلیٰ درجے کی انتظامی صلاحیتوں کے مالک، سینکڑوں صحافیوں کے استاد، صحافتی صنعت کا فخر،پرائیڈ آف پرفارمنس، کالم نویس، تحریر کار ایڈیٹر، خوبصورت انسان جناب اطہر مسعود 17رمضان المبارک کو اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے،جانا تو طے ہے خوش قسمتی میرے پیارے بھائی اطہر مسعود کو دن ملا تو یوم بدر کا،دن ملا یوم الفرقان کا، دن ملا شوکت سلام کا، اُمت مسلمہ کی تاریخ میں انمول، یوم جنگ ِ بدر انسانی تاریخ کا عظیم الشان واقعہ ہے اللہ نے حق و باطل کے اس معرکے میں اہل ایمان کو شاندار فتح سے سرفراز کیا، پورے جزیرہ عرب میں اسلام کی دھاک بیٹھ گئی کفر کی ہو اکھڑ گئی، قریش کا رعب اور دبدبہ خاک میں مل گیا، 17رمضان المبارک جناب اطہر مسعود کی رخصتی کا دن،”فضائے بدر پیدا کر، فرشتے تیری نصرت کو اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی“۔ 17رمضان المبارک مسلمانوں کی تاریخ میں اہمیت کا ایک اور اہم پہلو، اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ کا یوم وفات بھی ہے، کون عائشہ نبی مہربان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا، عالم انسانیت نے نورِ علم سے جن ہستیوں کو فیض یاب کیا ان میں سیدہ عائشہؓ بھی ہیں۔ اللہ کے محبوب کی لاڈلی اور محبوب بیوی، جن کی پاک دامنی کی گواہی اللہ نے اپنے قرآن کے ذریعے دی۔ 17رمضان المبارک عالم ِ اسلام کی تاریخ کا روشن باب ہے۔ جناب اطہر مسعود کو اللہ نے اپنے پاس بلانے کے لئے اس دن کا انتخاب کیا یہ ان کے لئے تو یقینا خوش نصیبی، ان کے خاندان کے لئے بھی باعث ِ تکریم ہے۔ اطہر مسعود کو بطور روزنامہ جنگ،جناح، پاکستان، آزاد اور بہت سے اخبارات و جرائد کے ایڈیٹر، تجزیہ نگار، کالم نویس کی حیثیت سے ہزاروں اور لاکھوں لوگ جانتے ہوں گے، راقم کا ان سے تعلق بہت ہی مختلف تھا۔
بہت کم لوگ جانتے ہوں گے اطہر مسعود بڑے اخبار کے بڑے ایڈیٹر ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب ِ علم بھی تھے دین سے ان کا خاص لگاؤ اور شغف تھا، ان کی یاد داشت ناقابل ِ فراموش ان کی ذہانت قابل ِ دید تھی، ان کا مطالعہ وسیع النظر، قرآن کی تفسیر ازبر صحابہ کرامؓ کی سیرت پڑھنا ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ اطہر مسعود وقت کے پابند، خوش اخلاق، اخلاقی قدروں کے خوگر،راقم کا ان سے قریبی تعلق، ان کے ساتھ تعلق جنگ یا پاکستان کے ایڈیٹر کی حیثیت سے زیادہ ان کے دین سے لگاؤ اور دو جہانوں کے سردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہؓ سے عقیدت کی وجہ سے زیاد بنا، جو آخری دم تک قائم رہا۔ اطہر مسعود صاحب کے بھائی اظہر سہیل ان کے دوسرے بھائی حاجی عبدالشکور جو پولیس میں ڈی ایس پی تھے،ملازمت کے دوران ہی اللہ کو پیارے ہوئے،دونوں بھائیوں کی وفات پر ان کو بہترین صبر کرنے والا، دلجوئی کرنے والا بھائی پایا۔ اطہر مسعود بھائی کی اہلیہ محترمہ سادگی اور شرافت کا وہ نام ہے جو اُن سے ایک دفعہ مل لے پھر ان سے دور نہیں رہ سکتا۔یہی وجہ ہے میری فیملی اور اطہر بھائی کی فیملی نے ایک ساتھ حرمین شریفین میں حاضری کی سعادت حاصل کی۔مجھے یاد ہے اطہر بھائی اکثر کہا کرتے تھے میں نے حضرت آمنہؓ کی قبر پر جانا ہے اور میں انہیں وہاں کے سفر اور مشکلات سے آگاہ کرتا رہتا تھا،مگر دُھن کے بڑے پکے تھے جو طے کر لیتے کر گزرتے۔ایک دفعہ فیملی کے ہمراہ گئے اور فیملی کو مکہ سے مدینہ منتقل کر کے خوشی سے حضرت آمنہؓ کے ہاں حاضری کے لئے نکل گئے، طویل مسافت اور مشکلات کے بعد حضرت آمنہؓ کی قبر پر حاضری دی اور واپسی پر میں ملنے گیا تو بڑے خوش تھے۔ حضرت آمنہؓ کی قبر پر حاضری کی تفصیل سمیت ان کی زندگی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی میں وفات تک کی تاریخ بیان کر دی اور حضرت آمنہؓ کی قبر پر حاضری کی خوشی دِل پسند انداز میں سناتے رہے۔
واقفانِ حال جانتے ہیں روزنامہ ”جنگ“پاکستان کا بڑا اور نامور اخبار ہے،مگر اس کا ایک ایک فقرہ، سرخی اور وزن سب ایڈیٹر کا کمال نہیں،بلکہ اطہر مسعود جیسے دانشور اور استاد کا کمال ہے،جو دفتر میں ہو یا گھر میں، کام سے توجہ نہیں ہٹنے دیتا۔ازمیر سے اپر مال شفٹ ہوئے تو جب بھی کسی جنازے یا شادی میں ملتے تو گلہ کرتے کہ تم ملتے نہیں ہو تمہاری باجی تمہارا اور بچوں کا پوچھتی رہتی ہے۔نام اور تعلق خوب کمایا، تعلق نبھانا، دُکھ درد میں شریک ہونا زندگی کا اہم جزو تھا، عقیدہ کے حوالے سے بڑے کلیئر تھے توحید پرست تھے، جب بھی ملنے کا پروگرام بنتا تو مجھے فرماتے جمعتہ المبارک کا پروگرام بنا لیں ارشد محمود صاحب کو ساتھ لے لیں عرصہ تک مولانا زبیر احمد ظہیر کی مسجد میں نمازِ جمعتہ المبارک پڑھتے رہے۔ پھر کئی ماہ تک لارنس روڈ میں ابتسام الٰہی ظہیر کی مسجد میں جمعتہ المبارک پڑھنے کی سعادت مجھے ان کے ساتھ ملی۔ہمارے بڑے محترم گروپ ایڈیٹر قدرت اللہ چودھری اللہ کو پیارے ہوئے تو مجھے فون آیا جنازہ پر اکٹھے جائیں گے۔چودھری قدرت اللہ کے ساتھ جنگ سے تعلق تھا، راستے میں بتانے لگے، 1969ء کو میں نے جنگ جوائن کیا تھا، قدرت اللہ چودھری صاحب بھی وہاں کام کر رہے تھے، سب ایڈیٹر، نیوز ایڈیٹر، گروپ ایڈیٹر ایگزیکٹو ایڈیٹر تک کی تفصیل سنائی۔میں نے جب انہیں بتایا 1969ء تو میری تاریخ پیدائش ہے، فرمانے لگے آپ تو بچے ہیں، جنازے سے فارغ ہونے کے بعد سب کو رخصت کر دیا اور مجھے گھر لے گئے اور باجی سے ملوایا اور پھر کہنے لگے میں نے ازمیر سے اپر مال شفٹ ہونے کے بعد جو گھر بنانے کا فیصلہ کیا تھا اللہ کا شکر ہے وہ خواب پورا ہو رہا ہے،میں نے پوچھا آج کل کیا کر رہے ہیں فرمانے لگے،گھر بیٹھ کر نوکری اور سارا وقت گھر بنانے میں مزدوروں کے ساتھ گزر جاتا ہے۔باجی نے مجھے فیملی کو لانے کا وعدے لے کر اجازت دی اور ساتھ ہی سادگی سے فرمانے لگی گھر بنانے میں لگے ہوئے ہیں پتہ نہیں تینوں نے ایک ساتھ رہنا بھی ہے نہیں، پھر وقت نے مہلت ہی نہیں دی اور17رمضان کو اُن کی وفات کی اطلاع ہمارے ایڈمن آفیسر شہزاد بھٹی نے دی تو مجھے ایک دم اطہر بھائی کے بڑے بیٹے محسن مسعود،دوسرے نمبر کے احسن مسعود سے رواداری اور محبت کا تعلق تازہ ہوتا چلا گیا، کہاں روز دوسرے دن پھر ہفتوں بعد اور اب سالوں میں ملاقات کا نہ ہونا پچھتاوا ہی رہ گیا یقین جانیے اطہر مسعود کی نمازِ جنازہ میں ہزاروں افراد شامل تھے، سینکڑوں دانشور صحافی، ایڈیٹر، کالم نویس ہر کوئی کہہ رہا تھا میں ان کا شاگرد ہوں، ان سے یہ سیکھا۔ مجھ میں حوصلہ نہیں پڑ رہا تھا کہ میں ان کے بیٹوں کے گلے لگ کر ان سے دُکھ شیئر کروں،پرائیڈ آف پرفارمنس ہمیں چھوڑ گیا، خاموشی سے آنسو بہاتا رہا اور ان کو قبر میں اتارنے کے لمحات میں گزشتہ 30برسوں کی یادیں تازہ کرتا رہا۔ امریکن سکول کی بیک پر میاں میر پنڈ کے قربستان میں سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر رفیق شیخ جیسی شخصیت کے پہلو میں اپنے بھائی کو روزہ جنت میں کھولنے کے لئے اللہ کے سپرد کر کے محترم ایثار رانا صاحب کو المصطفیٰ ٹرسٹ ڈراپ کرنے کے بعد گھر جاتے سوچ رہا تھا ساری عمر بندہ کیا کیا کرتا ہے، ساتھ صرف جاتے ہیں تو اعمال، اللہ اطہر مسعود کو یوم بدر اور اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کی وفات کے دن کے صدقے جنت میں اعلیٰ مقام دے، اور ہم سے بھی راضی ہو جائے،آمین۔