ایک حقیقی غلطی، جس کا موجودہ دور سے تعلق نہیں!

ایک حقیقی غلطی، جس کا موجودہ دور سے تعلق نہیں!
ایک حقیقی غلطی، جس کا موجودہ دور سے تعلق نہیں!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 حالات کے تناظر میں ”ہڈبیتی“ کا ذکر بے جا نہ ہوگا۔ کسی تحفظ اور تبصرے کے بغیر واقعہ کا ذکر کر دیتا ہوں، یہ 1988ء کا ذکر ہے۔ استاد محترم سید اکمل علیمی حیات اور صحافتی میدان میں سرگرم تھے۔ میں ان دنوں روزنامہ ”امروز“ میں بحالی کے بعد رپورٹنگ سے منسلک تھا، شاہ جی، وائس آف امریکہ کی اردو سروس میں سینئر پروڈیوسر تھے، ان کی ہدائت اور تعاون سے میں یہاں وائس آف امریکہ کے لئے بھی خدمات انجام دیتا تھا، محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم ہوئیں اور یوم آزادی (14اگست) آیا تو پارٹی کی خواہش پر انہوں نے لاہور میں مینار پاکستان پر جلسہ کا پروگرام بنایا، برادرم جہانگیر بدر (مرحوم) نے ذمہ داری سنبھالی اور دوستوں کے تعاون سے جلسے کا انتظام کیا، اسی سلسلے میں وہ اوپر سے گرے اور ان کی دونوں ٹانگیں ٹوٹی تھیں اور وہ صاحب فراش رہے۔ ان کی عدم موجودگی میں میاں ارشد اور دیگر دوستوں نے تکمیل کی، اس جلسے میں پہلی بار مقررین کی سٹیج کے سامنے پریس گیلری بنائی گئی اور ڈائریکٹ فون کی سہولت بھی مہیا کی گئی۔ میں جب کوریج کے لئے اپنی نشست سنبھال چکا تو دفتر فون کرکے پریس گیلری کا نمبر دے دیا کہ دفتر کو ضرورت ہو تو بات کر لیں۔ ابھی جلسہ شروع نہیں ہوا تھا۔ پنڈال قریباً بھر چکا اور اردگرد کی سڑکوں پر قافلے تھے جو سست رفتاری سے پہنچ رہے تھے۔ لوگ پرجوش بھی تھے، اسی اثناء میں استاد محترم اکمل علیمی کی فون کال آئی۔ انہوں نے جلسے کا حال احوال پوچھا تو میں نے بتایا کہ لوگ آ گئے،آ رہے ہیں، تاہم جلسہ ذرا تاخیر سے شروع ہوگا۔ اس پر انہوں نے ہدائت کی کہ وہ (اکمل صاحب) سٹوڈیو جا رہے ہیں، وقت کم ہے اسی لئے میں لائیو بول دوں اور وہ براہ راست نشر کر دیں گے۔ ان کی دوبارہ کال سٹوڈیو سے آئی اور میں نے بولنا شروع کر دیا، جوش میں کہا کہ جلسہ گاہ میں دو تین لاکھ لوگ آ چکے اور ابھی آ رہے ہیں اور دور دور تک جلوس ہیں، یہ سب ریڈیو وائس آف امریکہ سے نشر ہو گیا۔ اسی روز رات کو استاد محترم کا فون آیا اور ڈانٹ کر ہدایت کی کہ صبح مینار پاکستان جا کر قدموں سے جگہ ناپ کر بتاؤں کہ کتنے ہوئے، اگلے روز جا کر یہ ڈیوٹی پوری کی اور جب طول، عرض کو ضرب دے کر ایک مربع فٹ فی کس کے حساب سے تعداد نکالی تو حقیقت نے شرمندگی کا احساس دلایا کہ سبزہ زار میں ایک مربع فٹ فی کس کے حساب سے 25سے 30ہزار افراد کی گنجائش تھی۔ اس شرم ساری کے بعد میں نے کبھی بھی کسی جلسہ گاہ میں شرکاء کی تعداد کا ذکر نہ کیا اور یہی رپورٹ کیا کہ پرہجوم، شاندار اور پرجوش تھا۔
اسے یہیں تک محدود رکھتے ہوئے آج ایک اور اعتراف بھی کرتا ہوں کہ کبھی کسی امر میں تاخیر ہو جائے تو کوئی اور بازی لے جاتا ہے۔ میں خود آئین سے رجوع کرنے والا تھا، تاکہ یہ بتا سکوں کہ صدر مملکت کا مواخذہ ممکن ہے یا نہیں کہ آج ہی کے کالم میں میرے شہردار بلکہ محلے دار نصرت جاوید نے تفصیل سے بتا دیا ہے کہ حالات حاضرہ میں آرٹیکل 47 کے تحت موجودہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے مواخذے کے لئے برسراقتدار اتحاد والوں کے پاس تعداد پوری نہیں ہے، اس لئے گزارہ تو انہی کے ساتھ کرنا ہوگا اور اب وہی شیر ہیں، شاید اسی وجہ سے وزیراعظم شہباز شریف نے ان کے ساتھ ملاقات کی اور گورنروں کی تعیناتی کے حوالے سے بھی تبادلہ خیال کیا۔ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے گورنر حضرات نے استعفیٰ دے دیا۔ صدر نے بلوچستان اور سندھ کے گورنر حضرات کے استعفے منظور کر لئے، لیکن کے پی کے گورنر کا ابھی تک منظور نہیں کیا، پنجاب کے گورنر عمر سرفراز چیمہ نے اپنا کام جاری رکھا اور انہوں نے استعفیٰ بھی نہیں دیا، بلکہ حمزہ شہباز کے انتخاب کو متنازعہ قرار دے کر حلف لینے سے بھی انکار کر دیا۔ اس پر وزیراعظم نے ان کو برطرف کرنے کے لئے صدر عارف علوی کو سفارش ارسال کر دی اور فوری برطرفی کا لکھا، تاہم صدر نے دستخط نہ کئے اور عمر سرفراز چیمہ کو کام جاری رکھنے کا کہا۔ پنجاب میں بحرانی کیفیت بن گئی اور اب معاملہ لاہور ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ اس حوالے سے بتایا جا رہا ہے کہ صدر مملکت اس سفارش کو 14روز تک اپنے پاس روک سکتے اور اس عرصے میں منظوری دینے یا پھر معقول آئینی اعتراض کے ساتھ واپس کر سکتے ہیں۔ وزیراعظم اس کے بعد پھر سفارش کریں تو صدر کو مقررہ دنوں میں لازمی منظوری دینا ہوگی اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو یہ سفارش خود بخود منظوری کا درجہ حاصل کر لے گی۔ آئین کے مطابق صدر محترم وزیراعظم کی سفارش (Advice) کے پابند ہیں۔


یہ ذکر ہوا تو ایک اور بات کی طرف بھی ذہن چلا گیا۔ ہم جب رپورٹنگ کرتے اور یہ الیکٹرونک میڈیا نہیں تھا تو کوئی بھی خبر ملتی تو اس کی نہ صرف تصدیق کی پوری کوشش کرتے بلکہ اکثر تو (Counte Check) بھی کرتے تھے۔ اگر ایک طرف سے خبر بتائی جاتی اور دوسری طرف سے تصدیق کے لئے رجوع کیا جاتا اور پہلے فریق کا ذکر کئے بغیر تصدیق کی جاتی، اس کے علاوہ خود بھی خبر کی کھوج میں رہتے اور خوار بھی ہوتے تھے۔ اب شاید صورت یہ ہوگئی کہ ہمارے پرنٹ میڈیا والے بھی سست ہو گئے اور وہ الیکٹرونک میڈیا سے چلنے والی خبروں ہی کو الٹ پھیر کے چلا دیتے ہیں۔ اس کی وجہ شاید زیادہ فاصلے بھی ہوں کہ بنی گالا یا اسلام آباد کے دور والے سیکٹروں میں جانا پڑتا ہے۔ ای میڈیا والے تو اپنی وین بھگا کر پہنچ جاتے ہیں اور اسی کوریج پر گزارہ کر لیتے ہیں، اب ملنے ملانے اور تعلقات بنانے اور استعمال کرنے والی کوشش محدود ہو گئی ہے اس کے علاوہ مطالعہ کی بھی کمی یہی وجہ کہ میرے محترمہ محلہ دار کو شکایت ہوئی کہ حضرات مولانا فضل الرحمن اور آصف علی زرداری کے درمیان صدر بننے کا مقابلہ کرا چکے اور سابقہ اپوزیشن موجودہ حکومتی اتحاد میں بھی دراڑ ڈال دیتے ہیں۔
میں گزارش کروں کہ کسی دور میں خبروں کا منبع لاہور تھا اور اسلام آباد والے حسرت سے کہتے خبر تو لاہور والوں کے پاس ہوتی ہے۔ یہ درست بھی تھا کہ زیادہ تر جماعتوں کے مرکز لاہور ہوتے اور یہاں سرگرمیاں بھی بہت تھیں، تاہم اب یہ اعزاز اسلام آباد کو حاصل ہے کہ یہ طاقت کا مرکز ہے اور سب اونچ نیچ یہاں ہی ہوتی ہے دکھ یہ ہے کہ اب وہ بات نہیں رہی، ویسی محنت نہیں ہوتی جیسی پرنٹ میڈیا والے دور میں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد والی خبروں کی تردید زیادہ ہوتی ہے۔ اب جو حضرات مسلسل حکومتی اتحاد (سابقہ اپوزیشن) میں روز ایک دراڑ ڈال دیتے ہیں وہ اندرونی کیفیت سے بے پرواہی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ میں یہ عرض کر سکتا ہوں کہ یہ اتحاد مختلف الخیال جماعتوں کا ہے تو ان کے درمیان گفتگو اور مذاکرات بھی اسی حوالے سے ہوتے ہیں، لیکن ایک امر حقیقت ہے جس اندیشے یا خوف سے یہ اکٹھے ہوئے وہ اب مزید بڑھ گیا ہے، اس لئے اختلاف اتحاد کو ٹوٹنے نہیں دے گا، اس کے لئے آصف علی زرداری کے اس انٹرویو سے رجوع کریں جو حال ہی میں انہوں نے حامد میر کو دیا۔

مزید :

رائے -کالم -