عمران سیاسی حقیقت ہے 

 عمران سیاسی حقیقت ہے 
 عمران سیاسی حقیقت ہے 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 اب اسے بونگی خان کہئے، فتنہ کہئے، آفت کا پرکالہ کہئے....کچھ بھی کہئے، عمران خان پاکستان کی ایک سیاسی حقیقت بن چکا ہے۔ جس طرح کبھی پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالے یہ ماننے کے لئے تیار نہ ہوتے تھے کہ بے نظیر بھٹو کے سامنے نواز شریف کی بھی کوئی سیاسی حیثیت ہے، اسی طرح آج نون لیگ کے متوالے ماننے کے لئے تیار نظر نہیں آتے ہیں کہ نواز شریف کے سامنے عمران خان کی کوئی سیاسی حیثیت ہے لیکن پھر وقت نے جس طرح ثابت کیاکہ نواز شریف محض جنرل ضیاء الحق کا روحانی بیٹا نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ سے ٹکراجانے والا ایک حقیقی سیاستدان بن گیا ہے اسی طرح کل کی تاریخ یہی کچھ عمران خان کے بارے میں تسلیم کرتی نظر آئے گی!


اگر سندھ کا لیڈر بلاول بھٹو ہے، جی ٹی روڈ کا لیڈر نواز شریف ہے تو پاکستان کے بڑے شہروں کا لیڈر عمران خان ہے۔ خاص طور پر بڑے شہروں کی خواتین کی اکثریت کا محبوب لیڈر عمران خان ہے جو ہر جلسے میں جوق در جوق عمران خان کے لئے امڈ آتی ہیں اور خود ان خواتین کے پیچھے پیچھے نوجوان امڈ آتے ہیں اور یوں عمران خان کا جلسہ بن جاتا ہے۔ عمران خان ون مین شو کرتا ہے اور میلہ لوٹ لیتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس وقت اگرکوئی سیاستدان نواز شریف کی مقبولیت کو چیلنج کرسکتا ہے تو وہ عمران خان ہی ہے، بلاول بھٹو میں ابھی ایسا دم خم نہیں ہے، بلکہ بلاول بھٹو میں تو اب عمران خان کی مقبولیت کو چیلنج کرنے کا بھی دم خم نہیں ہے، اس کے لئے بھی متحدہ اپوزیشن کو محترمہ مریم نواز کو میدان میں اتارنا پڑا ہے۔ 


پاکستان کی سیاست سیڑھی اور سانپ کی سیاست ہے۔ یہاں ہر بڑے سیاستدان نے اسٹیبلشمنٹ کی سیڑھی پر سوار ہو کر اقتدار حاصل کیا اور پھرعدلیہ کی عصا سے ڈسے جانے کے بعداقتدار سے باہر ہوتا نظر آیا ہے۔ عمران خان نے بھی سیڑھی اور سانپ کا کھیل کھیل لیا ہے۔انہوں نے سیڑھی چڑھ لی ہے اور سانپ سے اپنے آپ کو ڈسوا لیا ہے، اب وہ گنوانے کی شے نہیں رہے ہیں۔ اب عمران خان ہماری اسٹیبلشمنٹ کے لئے کام کے آدمی بن چکے ہیں، آج نہیں تو کل کی اسٹیبلشمنٹ ضرور ان سے دوبارہ فائدہ اٹھائے گی، یہی نہیں بلکہ اب وہ تو امریکہ کے کام والے آدمی بن چکے ہیں جو ہر مقبول عام لیڈر کو اس کے اپنے ملک میں ریجیم چینچ کے لئے خوشی خوشی استعمال کرتا ہے۔


اب انہیں توشہ خانہ کا چور کہیں یا آئین شکن، عمران خان ان دنوں اپنی مقبولیت کی حدوں کو چھو رہے ہیں،وہ پاکستان کے ایک اور مقبول لیڈر بننے جا رہے ہیں، ان کی کرشماتی شخصیت انہیں مقبول عام بنا رہی ہے، وہ اپنے دلیرانہ لہجے اور انقلابی مزاج کے سبب نوجوانوں کی آنکھ کا تار ا بن رہے ہیں، ان کا سیاسی جنم ہو چکا ہے اور پاکستانی معاشرے نے انہیں اونر شپ دے دی ہے، وہ میدان سیاست کے چند ایک نمایاں شو پیسوں میں سے ایک ہیں اور ان کا لگایا ہوا تماشہ ہرکوئی دیکھتا ہے۔ انہیں کوئی سیاست کا گوریلا کہے یا سیاست کا بہروپیا، یہ بات طے ہے کہ عمران خان نوازشریف کی طرح ایک کامیاب کراؤڈ پُلر بن چکے ہیں۔ لوگ ان کے جلسوں میں یہ دیکھتے ہیں کہ کراؤڈ کتنا تھا، کوئی نہیں پوچھتا کہ ان میں ووٹر کتنے تھے!سیاست کا اصول ہے کہ کراؤڈ کو دیکھ کر کراؤڈ بنتا ہے، چھوٹا دائرہ بڑے اور بڑا دائرہ بہت بڑے دائرے میں تبدیل ہوجاتا ہے اور اس بہت بڑے دائرے کے بیچ میں کھڑا شخص لیڈر بن جاتا ہے۔ جب راناثناء اللہ کہتے تھے کہ ایوان وزیر اعظم کی بجائے جیل میں بیٹھا نواز شریف زیادہ خطرناک ہوگا تو ٹھیک کہتے تھے لیکن اگر آج عمران خان کہتے ہیں کہ ایوان وزیر اعظم سے نکل وہ سڑکوں پر آئیں گے تو زیادہ خطرناک ہوں گے تو وہ بھی ٹھیک کہتے ہیں۔ نواز لیگ مخالف حلقوں کو نواز شریف کا زور توڑنے کے لئے عمران خان کے ساتھ جڑ کر کھڑا ہونا پڑرہا ہے، اب عمران خان کا سیاسی زور مریم نواز توڑ سکتی ہیں اور آنے والے کل میں مریم نواز کا سیاسی توڑ بلاول بھٹو ہوں گے۔ سیاست ہمہ وقت متحرک شے کا نام ہے، اس میں کچھ بھی ساکن ہوتا ہے نہ یہ جمود کی عادی ہوتی ہے، سیاست اسی طرح معاشروں کو آگے بڑھاتی جاتی ہے اور پھر انقلاب فرانس برپا ہوتے ہیں، انقلاب ایران آتے ہیں اور روس کے حصے بخرے ہوتے ہیں!


عمران خان اب ایک سیاسی شخصیت بن چکے ہیں، اپنے مخالفین کے لئے ایک چیلنج، ایک خطرہ اور ایک آفت بن چکے ہیں اور ان کے بہی خواہ انہیں ایک بہترین موقع غنیمت جانتے ہوئے ان کے ساتھ جڑ کر کھڑے ہوگئے ہیں۔ توشہ خانہ کی چوری کے بعد بھی عمران خان کے جلسے اگر بھرے ہوئے ہیں تو وہ گنوانے کی شے نہیں رہے ہیں۔ اب عمران خان کی کردار کشی ہی اس کی کردار سازی کرے گی، ہماری ایلیٹ کلاس اور نوجوان یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ عمران خان کچھ غلط کرسکتا ہے اور اگر کچھ غلط کیا بھی ہے تو ان کے نزدیک وہ چھوٹی سی غلطی ہے جبکہ اس کے ہر مخالف کی چھوٹی سی غلطی بھی ایک فاش غلطی ہے۔ یہی عمران خان کی کامیابی ہے، وہ منظور وٹو ہے نہ پرویز الٰہی کہ بیساکھیوں کے سہارے اوپر جائیں اور بیساکھیاں ہٹیں تو دھڑام سے زمین پر آگریں، اس کے برعکس عمران خان کے بازوؤں کے نیچے سے بیساکھیاں ہٹی ہیں تو نوجوان اورخواتین اس کے پاؤں کے نیچے اپنے سر اور کندھے لے کر کھڑے ہوگئے ہیں جن پر سوار ہو کر وہ آگے بڑھنے کو تیار ہے!

مزید :

رائے -کالم -