ماہِ تمام

   ماہِ تمام
   ماہِ تمام

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 پانچ جمعوں پر مشتمل ماہ مقدس اپنی تمام تر رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ تمام ہو گیا ہے، پاکستانیوں کو رمضان المبارک 30 دن کا ہونے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ انہیں پانچواں جمعہ بھی میسر آگیا جو ہفتے کے سات دنوں میں افضل ترین دن ہے، جمعرات کی شب ملک بھر کے کسی بھی حصے میں شوال المکرم کا چاند نظر نہ آنے کے باعث عید الفطر آج بروز ہفتہ منا ئی جا رہی ہے۔29 رمضان کی شب مرکزی رویت ہلال کمیٹی سمیت چاروں صوبائی اور دیگر زونل کمیٹیوں کے اجلاس ہوئے لیکن پاکستان کے طول و عرض پر چاند کی کہیں سے کوئی شہادت موصول نہیں ہوئی۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین عبدالخبیر آزاد نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ ملک میں چاند نظر آنے کے امکانات پہلے ہی بہت کم تھے جبکہ مطلع بھی ابر آلود تھا۔


پاکستان میں رمضان المبارک کا آغازتو سعودی عرب کے ساتھ ہی ہوا تھا تاہم سعودیہ سمیت امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور یورپ کے بیشتر حصّوں میں 29 رمضان المبارک کے بعد جمعۃ المبارک کو عیدالفطر منالی گئی،لیکن پاکستان میں چاند کی کوئی شہادت موصول نہ ہونے کے باعث یہاں عید الفطر ایک روز بعد منائی جا رہی ہے۔ اس لحاظ سے پاکستانی خوش قسمت بھی رہے کہ انہیں رمضان المبارک کے دوران پانچ جمعے پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ایک خوش آئند امر یہ بھی تھا کہ ہمیشہ کی طرح پشاور کی پرائیویٹ رویت ہلال کمیٹی کی جانب سے ایک روز قبل سعودی عرب کے ساتھ عید منانے کااعلان نہیں کیا گیا۔پشاور میں مسجد قاسم علی خان کی پرائیویٹ رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ مفتی شہباب الدین پوپلزئی نے بھی عید ملک بھر کے دیگر حصوں کی طرح آج بروز ہفتہ منانے کا اعلان کیا ہے۔مفتی پوپلزئی کی جانب سے بھی 29 رمضان کو چاند کی رویت کیلئے باقاعدہ اجلاس ہوا جس کے بعد ٹوئٹر پر جاری اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ہنگو سے دو جبکہ سرائے نورنگ سے چاند کی رویت کی ایک غیر مصدقہ شہادت موصول ہوئی تھی۔تاہم اس کوپرکھنے کے بعد چاند نظر آجانے کی تصدیق نہیں ہوئی لہٰذا پشاور میں بھی پاکستان بھر کی طرح عید آج بروز ہفتہ ہی منائی جا رہی ہے۔دوسری جانب رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے اس مرتبہ مفتی پوپلزئی والا کام کیا ہے جنہوں نے یہ ”رپھڑ“ ڈال دیا کہ شمالی وزیر ستان میں شوال کا چاند نظر آ گیا ہے لہٰذاعیدبھی سعودی عرب کے ساتھ منائیں گے۔


دوسری جانب، عیدالفطر ہفتے کے روز منائے جانے کا سب سے زیادہ فائدہ درزیوں کو ہوا جو ہرسال اپنی ”کپیسٹی“ سے زیادہ آرڈرز بُک کر لیتے ہیں جس کا نتیجہ آخر میں لڑائی جھگڑے کی صورت میں نکلتا ہے، کئی افراد کے نئے سوٹ سلنے سے رہ جاتے ہیں، کئی ایک کو درزی کی جانب سے ”گولی“ ملتی ہے، جبکہ گنجائش پوری ہونے کے باوجود سلام دعا اور منہ پیار والے جن گاہکوں کے سوٹ ”بکنگ بند“ کا بورڈ لگے ہونے کے باوجود درزی پکڑ لیتے ہے انہیں کم از کم چوبیس گھنٹے مزید میسر آجاتے ہیں اور کچھ نہ کچھ عزت بچ جاتی ہے۔ علاوہ ازیں چاند رات کو لاہور کی لبرٹی مارکیٹ، انار کلی بازار، گلبرگ، ڈیفنس، علامہ اقبال ٹاؤن، سمن آباد اور دیگر بازاروں میں خریداروں کے بے پناہ رش اور عید کی صبح سحری کے وقت تک بازاروں میں نظر آنیوالے لوگ عید کی شاپنگ کیسے کرتے اگر رمضان 29 کا ہو جاتا؟چاند رات کو نائی کی دکانوں پر حجامت بنوانے والوں کی بھی لمبی لائنیں صبح تک لگی رہیں۔ بلکہ اب تو یہ نائی کی دکان نہیں بلکہ ”باربر شاپ“ کہلاتی ہے اور وہاں کام کرنیوالوں کو اگر ”نائی“ سمجھا جائے تو وہ بُرا مناتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ بیوٹی انڈسٹری بہت ترقی کرگئی ہے اور اب مردوں کے بھی بیوٹی پارلر اور سیلون بن چکے ہیں جہاں پر نوجوان لڑکے ہیئرکٹنگ، فیس مساج حتیٰ کہ تھریڈنگ وغیرہ تک کرواتے ہیں جن سے ہزاروں روپے وصول کئے جاتے ہیں۔ اس لئے عید پر دیگر دکانداروں کے ساتھ ساتھ ہر گلی محلے میں کھلے ہوئے بیوٹی سیلونز بھی لمبی دیہاڑیاں لگاتے ہیں۔

بلکہ جس طرح بکرا عید پر ہر شخص ہاتھ میں چھری، ٹوکاپکڑ کرقصائی بن جاتا ہے اسی طرز پر عید سے قبل پارلر کا تھوڑا بہت کا م جاننے والی لڑکیاں بھی باقاعدہ ”بیوٹیشن“ بن جاتی ہیں جو بیوٹی پارلرز پر لمبی لائنوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ”بیگمات“ کو گھر جا کر سروس فراہم کرکے منہ مانگے دام اور عیدی وصول کرتی ہیں۔ اسی طرح میٹھی عید پر چوڑیوں اور مہندی کے سٹالزلگانے والے بھی خوب کمائیاں کرتے ہیں جبکہ گلی محلوں میں جان پہچان والی نوجوان لڑکیاں گھروں میں مہندی لگا کر عیدیاں وصول کرتی ہیں۔ بہرحال،اسلامی شعار کی روشنی میں عیدالفطر کی اصل روح تو یہی ہے کہ اس پر مسرت موقع پر غریب اور نادار لوگوں کو بھی اپنی خوشیوں میں شامل رکھا جائے، صاحب ثروت افراد ہر سطح پر اپنے آس پڑوس میں بسنے والے مستحق افراد کو اپنی خوشیوں میں شامل رکھیں۔


 خیر، عید الفطر پر جہاں دکانداروں، درزیوں اور نائیوں سمیت دیگر شعبہ زندگی کے لوگوں کو فائدہ ہوگا وہیں کالم نگاروں کو بھی ایک فائدہ یہ ہوگا کہ قارئین کو عید کے روز شائع ہونیوالے کالم ”باسی“ ہونے کے باوجود مسلسل تین روز تک پڑھنے پڑھیں گے۔کیونکہ چاند رات کو اخبارات کے دفاتر معمول کے مطابق کھُلتے ہیں جس کے باعث عید والے دن اخبار گھروں میں پہنچتا ہے، تاہم عید اور ٹرو والے دن کی روایت یہ ہے کہ تمام اخبار نویس اے پی این ایس کی اعلان کردہ دو چھٹیاں کرتے ہیں جس کے نتیجے میں عید کے دوسرے اور تیسرے دن اخبار شائع نہیں ہوتا۔ لہٰذا ہمیں رمضان المبارک کے 30 دن کے دو فائدے ہوئے ہیں، ایک تو یہ کہ رمضان کا ایک جمعہ اضافی مل گیا اور آخری دن جمعۃ الوداع ہونے کے باعث تمام ہونیوالے ماہ صیام کو بھرپور انداز میں رخصت کیا گیا جبکہ دوسرا بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اب ہمارا یہ کالم آئندہ  تین روز تک ”مسلسل“  پڑھا جائے گا۔

مزید :

رائے -کالم -