پروفیسر غلام اعظم کے ساتھ سات دن

پروفیسر غلام اعظم کے ساتھ سات دن

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مجھے حُب الوطنی کے جذبات سے بھرپور جنگ کے دوران 3 دسمبر سے 10 دسمبر1971ءتک پروفیسر غلام اعظم صاحب امیر جماعت اسلامی مشرقی پاکستان کے ہمراہ گزارے ہوئے دن جن کا ایک ایک لمحہ ذہن پر نقش ہے، یاد آ رہے ہیں۔ پروفیسر صاحب جن کی عمر اس وقت91 برس کی ہے۔ حال ہی میں بنگلہ دیش کی کورٹ نے انہیں 90 سال کی عمر قید دی ہے۔ مَیں اس وقت فوج میں کیپٹن تھا اور کومیلا، چھاو¿نی مشرقی پاکستان میں پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ ہاکی کے کھلاڑی بریگیڈیئر عاطف مرحوم کا سٹاف آفیسر تھا۔ نومبر 1971ءکے آخری ہفتہ میں مجھے بریگیڈیئر عاطف نے سمجھیں کہ ایک طرح کا حکم دیا کہ مَیں چند روز چھٹی گزار آو¿ں، کیونکہ ایک تو مَیں معمولی زخمی ہوا تھا اور پھر تقریباً ایک سال سے مشرقی پاکستان تعینات تھا۔
مَیں 3 دسمبر1971ءکو ڈھاکہ واپس جانے کے لئے پی آئی اے کے جہاز میں کراچی سے سوار ہوا۔ یہ ہوائی سفر تب چھ گھنٹوں کا تھا، چونکہ انڈیا نے دسمبر کی جنگ سے تھوڑا پہلے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت گنگا جہاز ہائی جیک کروا کے لاہور ائیر پورٹ پر لینڈ کروایا اور پھر اس کا بہانہ بناتے ہوئے اپنی فضائی حدود پی آئی اے کے جہازوں کے لئے بند کر دیں، لہٰذا مشرقی پاکستان کا سفر جو کہ پہلے صرف ڈیڑھ گھنٹے کا تھا اور اب چھ گھنے کا ہوگیا تھا چونکہ پی آئی اے کو براستہ سری لنکا جانا پڑتا تھا۔ اس جہاز میں دو اور آرمی آفیسر اور 150 فوجی جوانوں کے علاوہ صرف پروفیسر غلام اعظم اور ایک بنگالی بزنس مین تھے۔
 تقریباً4 گھنٹے کی پرواز کے بعد جب جہاز نے نیچے کی طرف پرواز شروع کی تو ہم حیران ہو رہے تھے کہ آج ڈھاکہ دو گھنٹے پہلے کیسے پہنچ رہے ہیں، لیکن جب تھوڑی دیر کے بعد جہاز نے لینڈ کیا تو یہ کولمبو ایئر پورٹ تھا۔ ہمارے پوچھنے پر جہاز کے عملے نے بتایا کہ چونکہ مکمل جنگ شروع ہوگئی ہے اور انڈین لڑاکا جہازوں نے ڈھاکہ ایئر پورٹ پر حملے کئے ہیں۔ اس لئے ہمارے جہاز کو سری لنکا لینڈ کرنا پڑا۔ تقریباً 3 گھنٹوں کے بعد جہاز کے پائلٹ کیپٹن قادری نے اناو¿نس کیا کہ اب یہ جہاز جدہ جائے گا اور مزید بتایا کہ چونکہ کولمبو سے اڑان کے بعد بحرہ ہند پر پرواز کرتے ہوئے انڈین ایئر فورس کے لڑاکا جہازوں سے خطرہ ہے۔ اس لئے جہاز کی تمام کھڑکیاں بند رکھیں۔ ایک گھنٹے کی پرواز کے بعد پائلٹ نے دوبارہ اناو¿نس کیا کہ الحمدللہ اب ہم خطرہ سے باہر نکل آئے ہیں اور چند گھنٹوں کے بعد جدہ ایئر پورٹ لینڈ کریں گے۔ جہاز نے جدہ ایئرپورٹ پر 4 دسمبر کی علی الصباح جب لینڈ کیا تو ایئر پورٹ پر پاکستانی سفیر اور عملہ بے چینی سے اس جہاز کے انتظار میں تھے۔ غالباً انہیں یہ اطلاع تھی کہ یہ VIP فلائیٹ ہے اور ہم بغیر پاسپورٹ اور ویزا سعودی عرب میں موجود تھے۔ یاد رہے کہ ایک دن پہلے ہی پی آئی اے کا ایک اور طیارہ چند بنگالیوں نے ہائی جیک کر کے پیرس ایئرپورٹ پر لینڈ کروایا ہوا تھا۔
جدہ ایئر پورٹ سے ہم تین آرمی افسروں، غلام اعظم صاحب اور بنگالی بزنس مین کو ہوٹل میں ٹھہرایا گیا اور اُسی شام ہمارے سفارت خانے نے ہم پانچوں کے لئے عمرہ ادا کرنے کا انتظام کیا۔ 4 دسمبر1971ء کوعمرہ ادا کرنے اور عشاءکی نماز کے بعد خانہ کعبہ میں موجود پاکستانیوں اور سعودی علماءنے پروفیسر صاحب سے درخواست کی کہ وہ مائیک پر آکر پاکستان کی سلامتی کے لئے دعا کروائیں۔ جیسے ہی غلام اعظم صاحب مائیک پر پہنچے تو انہوں نے زار و قطار رونا شروع کر دیا، تقریباً آدھے منٹ کے بعد اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے کہا کہ مَیں کتنا بدنصیب ہوں کہ خدا نے مجھے استطاعت دی، لیکن پھر بھی مَیں نے خدا کے گھرکبھی حاضری نہیں دی اور آج بھی کراچی سے ڈھاکہ جا رہا تھا، لیکن اللہ نے مجھے حاضری کے لئے یہاں پہنچا دیا۔
اُس وقت خانہ کعبہ میں 20 سے 25 ہزار حاجی موجود تھے، چونکہ اگلے ماہ حج تھا اور ہم سب اس یادگار دعا میں شامل ہوئے جو کہ پروفیسر صاحب نے خانہ کعبہ سے صرف چند میٹر دور کھڑے ہو کر کروائی۔ یہ شاید غلام اعظم صاحب کے لئے ایک منفرد اعزاز ہو، جس میں کہ ایک غیر ملکی نے خانہ کعبہ کے ساتھ کھڑے ہو کر بلند آواز سے اپنے ملک کے لئے ہزاروں حاجیوں سے دعا کروائی۔
مجھے اس کے بعد غلام اعظم کی شخصیت کو سمجھنے اور دیکھنے کے لئے مزید چھ دن ملے کیونکہ نہ تو ہم ڈھاکہ جا سکتے تھے اور نہ ہی کراچی واپس آسکتے تھے اور مجبوراً جدہ میں قیام پذیر تھے۔ 10 دسمبر1971ءکو ہم تین آرمی آفیسر ایک سعودی ایئر فورس کے C-130 جہاز میں جس میں کہ پاکستان ایئر فورس کے چھ پائلٹ جو کہ اُردن میں رُکے ہوئے تھے، بھی سوار ہو کر کراچی پہنچے۔ یہ وہ آخری دن تھا، جب مَیں نے پروفیسر صاحب کو خدا حافظ کہا۔ پروفیسر غلام اعظم کو جو 90 برس کی عمر قید سنائی گئی ہے اس کو پوری دنیا میں کروڑوں انسانوں نے بہت دکھ اور رنج سے سنا۔ غلام اعظم صاحب کی اپنی شناخت، اصول پرستی اور باعمل ہونا ان کی ذات کو ان عالمی شخصیتوں میں شامل کرتی ہے جن کے لئے لاکھوں انسان دعا گو رہتے ہیں۔      ٭

مزید :

کالم -