صوبائی تعصب کا خاتمہ اور قائد اعظم ؒ
14اگست یوم آزادی کے حوالے سے راقم الحروف کو ضلعی انتظامیہ چنیوٹ کے ساتھ دو پروگرام منعقد کرانے کاموقع ملا، جس میں مسیحی برادری کے ساتھ جذبہ خیر سگالی کے تحت ایک چرچ میں بھی تقریب منعقد کی گئی اور اس تقریب کے منعقد کرنے میں راقم کے ساتھ میاں نعیم اقبال نائب تحصیلدار بھی شامل تھے۔ بہرحال مقررین نے موقعہ کی مناسبت سے خاص طور پر ملت کے اتحاد اور یکجہتی پر زور دیا اسی ضمن میں راقم نے بھی جو تقریب کا میزبان تھا نے بھی بان�ئ پاکستان کے ارشادات کی روشنی میں اس امر پر بہت زور دیا کہ قائداعظم ؒ نے خاص طور پر قومی مفادات کے سلسلہ میں ہر اس آواز کوسختی سے دبا دیا جو قومی اتحاد اور یگانگت کی نفی کرنے والی تھی۔ چنانچہ قائداعظم ؒ اپنی تقریر 15 جون1948ء بمقام کوئٹہ فرماتے ہیں کہ :’’ہر شخص کو اپنے گاؤں اور قصبے اور شہر سے محبت ہونی چاہئے اور اس کی بہبود اور ترقی کے لئے محنت کرنی چاہئے بڑی اچھی بات ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ اچھی بات یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنے ملک سے اپنے قصبے یا شہر کی نسبت زیادہ محبت ہونی چاہئے اور ملک کی خاطر نسبتاً زیادہ لگن اور زیادہ شدت سے محنت کرنی چاہئے ۔
ذاتی اور مقامی نوعیت کی وابستگیاں یقیناًقدر و قیمت کی حامل ہوتی ہیں، لیکن جزو کی قدر و قیمت ہی کیا ،جب تک وہ کل کے اندر نہ ہواس کے باوجود یہ سنگین اور ٹھوس حقیقت ہے کہ لوگ قومی مفادات کو آسانی سے نظرانداز کردیتے ہیں اور ان پر مقامی فرقہ وارانہ یا صوبائی مفادات کو ترجیح دینے لگتے ہیں۔ جب مَیں پاکستانیوں کے کسی گروہ یا جماعت کو صوبائی عصبیت کی لعنت میں لپٹا ہوا دیکھتا ہوں تو مجھے قدرتی طور پر دکھ ہوتا ہے ۔پاکستان کو اس لعنت سے جلد از جلد نجات حاصل کر لینی چاہئے ۔یہ اس پرانے نظم و نسق کی باقی ماندہ نشانی ہے، جب آپ حاکمانہ کنٹرول یعنی برطانوی کنٹرول سے تحفظ حاصل کرنے کے لئے صوبائی خود مختاری اور مقامی آزادی عمل کے کمزور اور عارضی ستونوں سے چمٹا کرتے تھے، لیکن اب آپ کی اپنی مرکزی حکومت ہے ،با اختیار مرکزی حکومت۔اب انھی اصطلاحوں میں سوچتے رہنا اور انہی کمزور سہاروں سے چمٹے رہنا بہت بڑی غلطی ہے، خاص طور پر ایسی صورت میں کہ آپ کی بالکل نئی اور نو زائیدہ مملکت زبردست اور بے شمار اندرونی و بیرونی مسائل میں گھری ہوئی ہے ۔ایسے ہنگامی موقع پر مملکت کے وسیع تر مفاد کو صوبائی یا ذاتی مفاد کے تابع کرنے کا ایک ہی مطلب ہے ۔۔۔خود کشی!‘‘
یہ حقیقت نفس الامری ہے کہ کانگریس نے جب یہ محسوس کیا کہ قیام پاکستان کے مطالبہ کو عملی جامہ پہنائے جانے سے اب کوئی طاقت مسلمانوں کو نہیں روک سکتی تو انھوں نے یہ چال چلنے کی کوشش کی کہ پنجاب کے جاگیر داروں ،سندھ کے وڈیروں ،بلوچستان کے سرداروں اور اس وقت کے سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا)کے خوانین کے ذہن میں اپنی علیحدہ حیثیت برقرار رکھنے کا وسوسہ ڈالا جائے، چنانچہ تاریخ شاہد ناطق ہے کہ بہت سارے سرداروں اور جاگیر داروں ،وڈیروں اور خوانین نے اپنی علیحدہ حیثیت برقرار رکھنے کی کوشش میں قیام پاکستان کی مخالفت کی، مگر جب قائداعظم ؒ اور آپ کے جری ،مخلص اور آزادی کے متوالے ساتھیوں کی قربانیوں کی بدولت پاکستان کا قیام عمل میں آگیا اور ہندوؤں کی تمام سازشیں ناکام ہو گئیں، تو ایسے ہی لوگوں نے پھر اپنی سیاست کا محور صوبائی خود مختاری کو قرار دیا اور یہ نہ سوچا کہ اس ضمن میں بانی پاکستان کا کیا موقف ہے اور اس مؤقف کے پیچھے کیا دلیل کا ر فرما ہے ؟بہر حال غریب عوام کو بڑی ہی چالاکی سے اور ہوشیاری سے اس طرح کے لا یعنی نعروں کی بھینٹ چڑھا دیا گیا اور ان کے اصل مسئلہ روٹی ،کپڑا ،مکان اور عزت نفس کی طرف توجہ ہی نہیں دی گئی کہ ان کو ’’کمی کمین‘‘جیسے الفاظ سے چھٹکارا حاصل ہو ۔
پاکستان کے قیام کے 67سال گزرنے کے باوجود بان�ئ پاکستان کے فرمودات کو ارباب بست و کشاد نے در خور اعتنا نہیں جانا اور جو بھی اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوتا ہے ’’ڈنگ ٹپاؤ ‘‘پالیسی پر ہی عمل پیرا دکھائی دیتا ہے اور اس قوم کی نظریاتی تربیت کی طرف توجہ اس کا مطمح نظر نہیں ہوتا، حالانکہ قومیں حقیقی نظریات سے ہی جنم لیتی ہیں اور ایسی قومیں ہی اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتی ہیں بصورت دیگر ایک بحران سے گلو خلاصی ہو تو دوسرا بحران منہ کھولے کھڑا ہوتا ہے اور ایسی ہی قوموں پر ہر وقت بحرانی کیفیت طاری رہتی ہے ۔اس لئے اب وقت آ گیا ہے کہ ہر اس نظریئے اور سوچ کو دھتکار دیا جائے جو مسلمانوں کے باہمی اتحاد اور یکجہتی پر اثر انداز ہو اور یہی وہ حساس معاملہ ہے، جس کا بانی پاکستان کو بہت زیادہ احساس تھا اور بار بار اِسی حساس مسئلہ پرقیام پاکستان سے قبل بھی بہت زیادہ توجہ دلائی،چنانچہ 5فروری 1938ء کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا :’’مجھے یقین ہے اور آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ کانگریس کی حکمت عملی یہ ہے کہ مسلمانوں میں پھوٹ ڈالی جائے ۔یہ برطانوی حکومت کی وہی پرانی چالیں ہیں ۔کانگریسی اپنے آقاؤں کے نقش قدم پر چلتے ہیں تم کہیں انکی چالوں میں نہ آنا مسلمانوں کے لئے یہ زندگی اور موت کا لمحہ ہے ۔مجھ سے یہ سن رکھئے اگر مسلمانوں میں اتحاد نہ ہوا تو وہ کسی قیمت پر بھی تباہی سے نہیں بچ سکیں گے !‘‘
بہرحال اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم من حیث ا لقوم ہر قسم کے صوبائی ،لسانی ،گروہی اور مسلکی تعصب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک صفحے پر اکٹھے ہو کر اپنے مسائل کا حل تلاش کریں کہ مختلف ترجیحات اور متنوع تقسیمیں کسی بھی سماج اور معاشرے کے لئے زہر ہلاہل کا مرتبہ رکھتی ہیں اور اس کی تباہی کے لئے خشت اول کی حیثیت کی حامل ہوتی ہیں ۔اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ پاکستان کو دشمن کے ہر قسم کے ناپاک منصوبے اور شر سے محفوظ رکھے اور یہ ہمیشہ احمد ندیم قاسمی کے اس شعر کے مصداق بنا رہے کہ :
خدا کرے کہ میری ارض پاک پہ اترے
وہ فصل گل ، جسے اند یشہ زوال نہ ہو!