یہ وہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
ہم پاکستانی کسی حد تک بے حس ہوتے جارہے ہیں اور دنیا بھر میں نئی روایات اور نئے ریکارڈ قائم کررہے ہیں۔ ابھی پچھلے سال اگست کی بات ہے کہ دنیا کی تاریخ کا سب سے طویل ترین دھرنا شروع ہوا جو 126دن چلا۔ آئے دن نیا الزام لگا اور قومی اسمبلی تک پر حملہ ہوا۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی غیر فوجی نے پی ٹی وی کی نشریات بند کردیں اور ایک نئی روایت قائم ہوئی۔۔۔ سب چلتا ہے الزامات لگاؤ، الزامات دکھاؤ، ریٹنگ بڑھاؤ، صحیح نکلے تو ٹھیک ورنہ معافی کس نے مانگنی ہے؟
معافی کس سے مانگتے ان سے جو پرامن بقائے باہمی کے اصول اپناتے ہوئے ایک دوسرے کی کرپشن چھپانے پر مک مکا کرچکے ہیں۔ ایفے ڈرین سکینڈل، سوئس بینک، این ایل سی سکینڈل سب پر مٹی ڈالو کی سیاست کی نذر ہوچکے ہیں۔ زرداری، گیلانی اور مخدوم صاحبان کے مقدمہ جات پر حکومت کا چپ کا روزہ ہے کیوں نہ ہو آخر مفاہمت کی سیاست کے نام پر ’’یہاں سب چلتا ہے‘‘ دراصل یہ لوگ ہمارے اقبال کی شاعری سے خاص شغف رکھتے ہیں اور وطن عزیز کو اس کی عملی تصویر بنانا چاہتے ہیں۔ خودی کو بلند کرنے کے لئے بیرون ملک اثاثہ جات بنالئے ہیں اور مفاہمت کی سیاست کے ذریعے ’’اخوت‘‘ کی بے نظیر مثال قائم کی ہے ’اور کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور‘کی عملی تصویر پیش کردی ہے یعنی زور آور کا پاکستان اور ہے اور کمزور کا پاکستان اور ، جب نظر اس شعر پر جاٹکی کہ ’’خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا‘‘ تو ہزار ہا لوگوں کے حق کا خون کرکے اپنے لئے سحر پیدا کرلی۔ ذرخیز مٹی کو جب اتنا نم دیا گیا تو پورے وطن میں خوشحالی آگئی۔ ہر کوئی حال مست مال مست دکھائی دیا اور قصور سکینڈل جیسا واقعہ ظہور پذیر ہوا۔ ظاہر ہے خود دار اور خودی کی حامل قوم کو یہ کب گوارہ تھا کہ بلیو فلموں اور آبرو ریزی و بد فعلی کی داستانوں میں صرف ہندو و یہود کا ذکر آئے اور پاکستان اس سے محروم رہے تو حسین خانوالہ کے بااثر افراد نے اہل سیاست اور انتظامیہ کی یگانگ اور بھائی چارے کے باعث اتنے بڑے ورلڈ ریکارڈ کو جنم دیا، ایسا ریکارڈ جس پر قوم فخر کرسکتی ہے کیونکہ پوری دنیا جو دہشت گردی کے کم ہوتے واقعات پر پاکستان کا نام بھولتی جارہی تھی۔ انہیں یہ نام دوبارہ یاد کروا دیا گیا ہے۔ نئی نسل جس نے 1947ء کے فسادات کے دوران زیادتی کے واقعات نہیں سنے تھے۔ انہیں نئی یادیں عطا کی ہیں کہ ہم ہندو اور سکھوں سے بڑھ کر ظلم اور درندگی کرسکتے ہیں۔ بس ذرا نم ہونا چاہیے۔۔۔۔ کیا کہا کہ آپ شرمندہ ہیں۔ بھئی سچی بات تو یہ ہے کہ میں روز اپنی قوم کی صداقت، شجاعت، عدالت اور دیانت کے واقعات پڑھ کر بے حس ہوچکا ہوں لیکن 1971ء میں پاکستان کے ہتھیار ڈالنے کے بعد یہ دوسرا واقعہ ہے جس کی شرمندگی نے مجھے رات بھر سونے نہیں دیا کہ یہ سب کچھ گڈ گورننس کے سب سے بڑے دعویدار صوبے پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی عین ناک کے نیچے قصور میں ہوا۔ دراصل یہ مسئلہ ہمارے آپ کے شرمندہ ہونے، حکمرانوں کے نوٹس لینے، غم و غصے کا اظہار کرنے سے حل نہیں ہوگا۔ سرطان جب بڑھ جاتا ہے تو اسے سرجری کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس متعفن انتظامی نظام کو بھی بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر آگے نہیں جاسکتے تو پیچھے چلے جائیں ضیاء دور کا حدود اور حد آرڈیننس لگا کر ان سب کو سرعام سنگسار کریں اور میڈیا اس منظر کو دکھا کر ریٹنگ بڑھانے کا شوق پورا کرے ورنہ اقبال کی اتنی باتوں پر عمل کرنے والی قوم کو اقبال طعنہ دیتے رہیں گے۔