مسلم لیگیوں یا مسلم لیگوں کا اتحاد ممکن ہے؟
یہ بہت پرانا اور بڑا سہانا خواب ہے، جسے مسلم لیگ(ق) کے صدر اور سابق وزیر اعظم چودھری شجاعت حسین نے پھر سے دیکھا ہے اور وہ اس عمر میں بھاگم بھاگ کراچی گئے وہاں مسلم لیگ( فنکشنل) کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ سندھ بزرگ مسلم لیگی سید غوث علی شاہ سے ملاقات کی، تبادلہ خیال ہوا اور پھر کہا گیا کہ مسلم لیگیں اکٹھی ہو جائیں، اس مرتبہ تھوڑی مزید تبدیلی بھی کی گئی اور عہد کیا گیا کہ مسلم لیگیوں کو بھی اکٹھا کیا جائے گا حتیٰ کہ جو مسلم لیگی پیپلز پارٹی یا کسی اور جماعت میں چلے گئے ان سے بھی رابطہ کرکے ان کو واپس لایا جائے گا، اس سلسلے میں سید غوث علی شاہ کی قیادت میں چاررکنی کمیٹی قائم کی گئی اس میں چودھری پرویز الہٰی بھی شامل ہیں، یہ حضرات اتحاد کے لئے کوششوں کا فریضہ سرانجام دیں گے۔
ہمیں اس خبر سے یوں دلچسپی پیدا ہوئی کہ اس نام سے جماعتیں بنتی اور بکھرتی دیکھیں اور پھر اتحاد کے لئے ہونے والی تمام کوششوں کو قریب سے جانچا اور خبریں بھی دیں، مسلم لیگیں تمام ترخواہش کے باوجود اکٹھی نہ ہوئیں بلکہ ایک کے بطن سے دوسری نکلتی رہی، جیسے ابتدا کنونشن اور کونسل لیگ سے ہوئی تو پھر مسلم لیگ (ن) سے مسلم لیگ (ق) برآمد ہوگئی اور ملک پر حکومت بھی کی، ویسے بھی پیپلز پارٹی کے تین ادوار نکال دیئے جائیں تو مجموعی طور پر مسلم لیگ ہی برسراقتدار رہی چاہے وہ ج، ن یا ق کے لاحظہ سے ہو یا پھر کنونشن لیگ کہلائی۔
مسلم لیگ اچھی بھلی ایک جماعت تھی جسے پاکستان کے قیام کا فخر حاصل ہے، تاہم جونہی پاکستان بنا یہاں سیاسی تبدیلیاں بھی ہونا شروع ہوگئی تھیں اور پھر ہم نے وہ وقت بھی دیکھا جب آمریت بھی آئی تو اسے جس سیاسی جماعت کی ضرورت محسوس ہوئی اس کا نام مسلم لیگ ہی رہا، جنرل ایوب خان نے ملک کی باگ ڈور سنبھال لی تو اس وقت مسلم لیگ نام سے ایک ہی جماعت تھی، ایوب کو سیاسی سہارے کی ضرورت کا احساس ہوا تو انہوں نے بھی مسلم لیگ ہی کو چنا چنانچہ مسلم لیگ کے انتخابات کے نام پر ایک کنونشن بلالیا گیا، اس نیک کام کے لئے بھی مسلم لیگی راہنما خلیق الزمان نے خدمات انجام دیں اور کنونشن ہوا تو ان کو ہی صدر بنالیا گیا، یہ مسلم لیگ کنونشن مسلم لیگ کہلائی، دوسری طرف میاں ممتاز محمد خان دولتانہ نے اختلاف کیا اور مسلم لیگ کی جنرل کونسل کا اجلاس بلالیا ان کے مطابق مسلم لیگ کے آئین میں کسی کنونشن میں عہدیدار منتخب کرنے کی گنجائش نہیں تھی اور یہ اختیار جنرل کونسل کا ہے چنانچہ اس جنرل کونسل کے اجلاس میں ان کو صدر چن لیا گیا اس حساب سے یہ کونسل لیگ کہلائی، ایوب خان کے طویل دور میں یہی صورت برقرار رہی، اس کے بعد کئی تبدیلیاں ہوئیں حتیٰ کہ ملک قاسم (مرحوم) طویل عرصہ اسی کنونشن لیگ کے سیکرٹری جنرل بھی رہے۔
یہ سلسلہ کبھی نہیں رکا، ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار میں مسلم لیگ ایک نظرآئی اگرچہ تب بھی کنونشن موجود تھی، بہر حال پیر پگارو کی صدارت میں مسلم لیگ قابل قبول تھی جو حزب اختلاف کا کردار ادا کرتی تھی حتیٰ کہ پی، ڈی، ایف (پاکستان ڈیموکریٹک فرنٹ) کے نام سے بنننے والے مخالف اتحاد میں بھی یہ نمایاں تھی اور صدارت پیر پگارو (ہفتم) پیر علی مردان شاہ کے پاس تھی اور پھر یہی جماعت پی، این، اے کا حصہ بنی جبکہ کنونشن لیگ( ملک قاسم بطور سیکرٹری جنرل) پیپلز پارٹی کی حلیف رہی، اس جماعت پر ایسا وقت بھی آیا جب یہ چٹھہ لیگ، زاہد سرفراز لیگ اور پھر جونیجو لیگ سے مسلم لیگ (ن) بھی بنی، یہ سب ماضی قریب کی تاریخ ہے اور سب جانتے ہیں۔ ہمیں تو یہ یاد ہے کہ پیر پگارو ہفتم علی مردان شاہ سے لے کر ملک قاسم تک سبھی متحدہ مسلم لیگ کے حامی تو رہے لیکن جماعتی نام کے حصول کی خاطر اپنی اپنی مسلم لیگیں بناتے رہے۔
ہمیں یہ بھی یاد ہے کہ اس دور میں بھی اتحاد کی کوششیں ہوتی رہیں تاہم جب بھی ایسا ہوا ایک نئے نام سے ایک اور مسلم لیگ بن گئی، جیسے چٹھہ لیگ سے جونیجو لیگ بنی تو اس میں سے مسلم لیگ(ن) برآمد ہوگئی، بعد میں اس کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ (ق) بنی اب تو کئی اور مسلم لیگیں بھی موجود ہیں ان میں جنرل(ر) پرویز مشرف اور شیخ رشید کی آل پاکستان مسلم لیگ اور عوامی مسلم لیگ بھی ہیں جبکہ اب نئی تازی ملی مسلم لیگ بھی وجود میں آگئی ہے۔
یہ سب اس لئے ہے کہ جس جماعت کے جھنڈے تلے پاکستان بنا اس کا نام مسلم لیگ تھا اور ہر کوئی اسے اپنانے کو پھرتا ہے اب یہی خواب پھر سے چودھری شجاعت حسین نے دیکھا ہے، ہمیں یہ بھی یاد ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھی کوشش ہوئی اور بعد میں بھی ایک مسلم لیگ کا خواب دیکھا گیا، ہر ایک نے اتحاد سے اتفاق کیا لیکن اپنا دھڑا رضاکارانہ چھوڑنے سے گریز کیا اور خواہش یہی رکھی کہ متحدہ مسلم لیگ کی قیادت انہی کے پاس ہو، پیر پگارو ہفتم علی مردان شاہ ایک بھاری بھرکم شخصیت تھے وہ ہمیشہ یہ کہتے کہ جنرل کونسل کا اجلاس بلالیں کہ کونسل ہی صدر کے انتخاب کا حق رکھتی ہے، لیکن کونسل کے اراکین کی فہرست پر اتفاق نہ ہوا، پھرفنکشنل لیگ کے سیکرٹری جنرل رانا اشرف کی قیادت میں بھی ایک مشترکہ کمیٹی بنی، بڑی سنجیدہ کوشش ہوئی پیرپگارو علی مردان شاہ نے خود کو انتخاب سے دستبردار کرلیا اور اعلان کیا کہ وہ امیدوار نہیں ہوں گے، اس کے باوجود اتفاق نہ ہوا، خوف موجود تھا کہ کونسل کا اجلاس ہوا، اگر کسی بھی رکن نے پیرپگارو کا نام لے لیا تو کام پھنس جائے گا اور مشکل ہوگی، یوں یہ بیل بھی منڈھے نہ چڑھی، حتیٰ کہ ملک قاسم دنیا سے رخصت ہوئے ، پھر رانا اشرف اللہ کو پیارے ہوگئے اور پیر پگارو علی مردان شاہ بھی دنیا چھوڑ گئے اور اتحاد کا کام ٹھپ ہوگیا، بہر حال مسلم لیگ تو برسراقتدار رہی تاوقتیکہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ نہ کیا، ان کی ’’توجہ اور مہربانی‘‘ سے مسلم لیگ(ن) کے بطن سے مسلم لیگ (ق) برآمد ہوگئی اور باتی تاریخ ہے سب جانتے ہیں، اب پھر سے چودھری شجاعت نے خواب دیکھا اور وہیں ایک سوال کے جواب میں کہا معلوم نہیں نواز شریف مسلم لیگی ہیں یا نہیں؟ اس روشنی میں فیصلہ کرلیں!