امریکی صدر آ ج افغانستان جنوبی سمیت ایشیا بارے نئی حکمت عملی کے خاص نکات کا انکشاف کرینگے
واشنگٹن (اظہر زمان، خصوصی رپورٹ) باخبر ذرائع سے معلوم ہوا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان میں موجود اپنی افواج میں ساڑھے تین ہزار سے چار ہزار کا اضافہ کریں گے۔ وہ امریکی وقت کے مطابق سوموار کی رات نو بجے اور پاکستانی وقت کے مطابق منگل کی صبح چھ بجے دارالحکومت کے نواح میں آرلنگٹن شہر میں واقع فوجی چھاؤنی فورٹ مائر میں فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے افغانستان سمیت جنوبی ایشیا کے بارے میں نئی امریکی حکمت عملی کے خاص خاص نکات کا انکشاف کریں گے، جس میں اضافے اس اعلان کی بھی توقع ہے۔ افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد کو سابق صدر اوبامہ ایک مرحلہ وار پروگرام کے تحت کم کرکے 9800 کی سطح پر لے آئے تھے۔ انہوں نے اس میں مزید کمی کرنی تھی لیکن افغانستان کی جنگی صورت حال کے پیش نظر جہاں طالبان کو کامیابی حاصل ہو رہی تھی، انہوں نے کمی کرنے کا سلسلہ روک لیا تھا۔ صدر ٹرمپ اقتدار سنبھالنے سے قبل افغانستان سے مکمل امریکی انخلاء کا مطالبہ کرتے رہے تھے، لیکن صدر بننے کے بعد انہوں نے افغان جنگ کو جیتنے کے لئے فوج کی تعداد کو بڑھانے پر زور دیا تھا۔ ان کے مشیروں کا مشورہ تھا کہ افغانستان سمیت پورے جنوبی ایشیاء کے لئے ایک نئی جامع حکمت عملی بنائے بغیر فوج کی تعداد میں اجافہ کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ صدر ٹرمپ نے جو امریکی وزیر دفاع جنرل جیمز میٹس کو اختیار دیا تھا کہ وہ موقع کا جائزہ لینے کے بعد اضافے کی تعداد کا فیصلہ کریں۔ تاہم وائٹ ہاؤس میں نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر جنرل ایچ آر میکماسٹر کی نگرانی میں کئی ماہ سے جامع حکمت عملی کی تیاری کا کام جاری تھا جس کا اعلان جولائی کے وسط میں متوقع تھا لیکن مختلف پیچیدگیوں کے باعث یہ معاملہ تاخیر کا شکار ہوگیا۔ اب آخر کار جمعہ کے روز کیمپ ڈیوڈ میں سکیورٹی کے اعلیٰ مشیروں کے اجلاس میں جنرل میکماسٹر نے اس حکمت عملی کا مسودہ پیش کیا جسے طویل بحث مباحثے کے بعد صدر ٹرمپ نے منظور کرلیا۔ اجلاس کے بعد بیرونی دورے پر روانہ ہونے سے پہلے امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے بتایا کہ افغانستان کے بارے میں جامع حکمت عملی تیار کرلی گئی ہے تاہم صدر ٹرمپ اس کا اعلان خود کرنا چاہتے ہیں جو ویک اینڈ میں اسے پیش کرنے کے طریقے پر غور کرنے کے بعد سوموار کی رات اس کا اعلان کریں گے۔ جنرل میٹس نے تصدیق کی کہ نئی حکمت عملی افغانستان کے علاوہ پورے جنوبی ایشیا کو کور کرے گی جس میں پاکستان اور بھارت بھی شامل ہیں۔ پاکستان کے بارے میں ٹرمپ انتظامیہ کے حالیہ سخت بیانات کے بعد پاکستان کا یہ خدشہ درست معلوم ہوتا ہے کہ اس میں اس کے بارے میں سخت رویہ اختیار کرنے کی پالیسی متوقع ہے۔ مبصرین یہ سمجھتے ہیں کہ اگر امریکہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے اگر پاکستان کی مغربی سرحد کے دونوں جانب واقع دہشت گردوں کے خفیہ ٹھکانوں کے خاتمے کے لئے ایک شفاف طریق کار طے کرتا ہے تو اس سے افغانستان اور پاکستان دونوں کی ایک دوسرے شکایات کا ازالہ ہوسکتا ہے اور اس حکمت عملی میں بھارت کو شامل کرنے کا یہ فائدہ ہوگا کہ وہ اپنی خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے اپنے تخریبی عزائم پر عملدرآمد نہیں کرسکے گا۔نائن الیون حملوں کے بعد امریکہ نے القاعدہ کی ’’محفوظ گاہوں‘‘ کے خاتمے کے لئے افغانستان پر حملہ کرکے طالبان کی حکومت کا خاتمہ کرکے وہاں طالبان مخالف حکومت کا قیام کرکے اپنی فوج کے ذریعے براہ راست جنگ کا سلسلہ شروع کیا۔ سابق صدر اوبامہ نے امریکہ کی طویل ترین جنگ میں براہ راست شرکت سے 2014ء میں ہاتھ کھینچ لیا اور امریکی فوج کا کردار افغان فورسز کو جنگ میں مدد دینے تک محدود کر دیا۔ امریکی فوج کم ہوکر 8400 رہ گئی لیکن اس صورت حال کا فائدہ اٹھا کر طالبان نے کامیابیاں حاصل کرنا شروع کر دیں۔ اس وقت افغان سرکار کا ملک کے ساٹھ فیصد سے بھی کم علاقے تک محدود ہوچکا ہے۔ باقی علاقے زیادہ تر طالبان اور جزوی طور پر داعش کے زیر اثر ہیں۔ داعش کے سرحد کے قریبی علاقے میں بڑھتے ہوئے اثر کو زائل کرنے کے لئے امریکہ نے ڈرون حملے کا سلسلہ جاری رکھا اور رواں سال اپریل میں ان پر ’’بموں کی ماں‘‘ کو بھی گرایا۔سکیورٹی ماہرین کو یقین ہے کہ امریکہ کی نئی حکمت عملی میں افغان جنگ کو منطقی انجام پر پہنچانے کے لئے راہ فراوا تیار کرنے کے بجائے امریکہ اس خطے کے معاملات میں زیادہ دلچسپی لیتے ہوئے یہاا8 مستقل امن کے قیام کے لئے کوششوں کا آغاز کرے گا۔
امریکہ