عید قربان (عزم و ہمت ، اطاعت خداوندی کی عظیم مثال)
تحریر:محمد عمر قاسمی
حیوانیت سے انسانیت کی طرف ارتقاء کے بالکل ابتدائی دور میں فکر انسانی کو جس محبوب مقصد کے لئے بطور وسیلہ اختیار کرنے کی دائمی ہدایت دی گئی اسے قربانی کہا جاتا ہے۔قربانی کا بحیثیت عبادت شروع ہونا اگرچہ حضرت آدم ؑ کے زمانے سے ثابت ہے لیکن اس کی خاص شان حضرت ابراہیم ؑ سے شروع ہوتی ہے اور اسی یادگار کی حیثیت سے شریعت محمدیہ ﷺ میں’’ قربانی‘‘ کو واجب قرار دیا گیا ہے۔سیدنا ابراہیم ؑ جب اپنے پیغمبرانہ فریضے اور دعوت کو لے کر اٹھے تو سب سے پہلے اپنے والد ’’ آذر‘‘ ہی سے سابقہ پڑا۔ آپ ؑ نے اپنے والد سے قائم رشتے کو ملحوظ رکھتے ہوئے نہایت ادب و احترام کے ساتھ انہیں بت پرستی چھوڑنے کی دعوت دی،مگر وہ آپؑ کی دی گئی دعوت پر خفا ہو گئے۔قرآن کریم اس عظیم المرتبہ فرزند اور بت پرست باپ کے درمیان ہونے والی گفتگو کو کچھ اس طرح بیان کرتا ہے : ۔
’’جب کہا ابراہیم ؑ نے اپنے باپ سے،اے میرے باپ ! تو کیوں ایک ایسی چیز کو پوجتا ہے جو نہ تو سنتی ہے، نہ دیکھتی ہے، نہ تیرے کسی کام آ سکتی ہے؟ اے میرے باپ! سب سچ کہتا ہوں علم کی ایک روشنی مجھے مل گئی ہے، جو تجھے نہیں ملی، پس میرے پیچھے چل، سب تجھے سیدھی راہ دکھاؤں گا۔اے میرے باپ! شیطان کی بندگی نہ کر، شیطان تو خدائے رحمان سے نا فرمان ہو چکا ۔اے میرے باپ! ڈرتا ہوں کہیں ایسا نہ ہو، خدائے رحمان کی طرف سے کوئی عذاب تجھے آلگے اور تو شیطان کا ساتھی ہوجائے۔ باپ نے (یہ باتیں سن کر )کہا ابراہیم !کیا تومیرے معبودوں سے پھر گیا ہے؟ یاد رکھ ! اگر تو ایسی باتوں سے باز نہ آیا تومیں تجھے سنگسار کرکے چھوڑوں گا، اپنی خیر چاہتا ہے تو مجھ سے الگ ہوجا‘‘۔۔۔ (سورۃ :مریم )
اس دعوت کا نتیجہ یہ ہوا کہ بت پرستی کی آبائی رسم چھوڑنے کے سبب والد سمیت پوری قوم سیدنا ابراہیم ؑ کی مخالف ہو گئی اور آپؑ نے ماں، باپ، خاندان اور وطن کو خیر آباد کہنے کا فیصلہ کر لیا۔چنانچہ آپؑ نے اپنے عم زاد بھائی حضرت لوطؑ (جو آپ پر ایمان لائے تھے)کو ساتھ لیااور آبائی وطن کو خیر آباد کہہ کر فلسطین کے علاقے ’’کنعان‘‘ میں قیام فرمالیا۔اور بھر وہیں چھیاسی سال کی عمر میں حضرت ابراہیم ؑ کی دعا ’’رب ھب لی من الصالحین‘‘ جو اب ’’فبشرناہُ بغلام حلیم‘‘ کی صورت میں پوری ہوچکی تھی ۔ اللہ رب العزت نے انہیں ایک فرزند عطاء کیااور فرزند بھی ایسا کہ صرف صالح ہی نہیں ،بلکہ صفت حلیمی سے بھی نوازا گیا،کیونکہ اللہ رب العزت جانتے تھے کہ ابراہیم ؑ کے فرزند کو عشق اور امتحان کی ان پرخطر وادیوں کی سختی سے گزرنا ہے جو صالح ہونے کے ساتھ ساتھ ایک حلیم ہی برداشت کر سکتا ہے۔چنانچہ اللہ رب العزت کا حکم ملا کہ اے ابراہیم! اپنے فرزنداسماعیل اور ان کی والدہ ہاجرہ کو ساتھ لے کر ہجرت کرکے حجاز کے گرم ریگستان میں چھوڑ آئیں۔ جہاں دور دور تک نہ تو کسی کا نام و نشان ، نہ جانور ، نہ درخت ، بس ایک سنسان بے آب و گیاہ وادی۔!حضرت ابراہیمؑ نے بغیر کسی جھجک کے حکم کی تعمیل فرمائی اور شیر خوار اسماعیل کو ان کی والدہ حضرت ہاجرہ کے ساتھ اونٹنی پر سوار کر کے اپنی منزل کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں ۔چلتے چلتے جب وہ وادی آتی ہے جسے قرآن نے وادی ’’غیرذی زرع‘‘کے نام سے موسوم کیا ہے،وہاں حضرت ہاجرہ کو اتارتے ہیں اور ان کی گود میں حضرت اسماعیل کو دے دیتے ہیں پھر آپؑ کو حکم ملتا ہے کہ ماں اور بچے کو وہیں چھوڑ کرخود شام چلے جائیں ۔حضرت خلیل اللہ نے حکم ملتے ہی تعمیل شروع کی اور واپس چل دیئے۔
حضرت ہاجرہ نے جب اس بے آب و گیاہ جنگل میں جہاں دور دور تک کوئی انسان تو کیا کوئی چرند پرندبھی نظر نہیں آتا تھا، حضرت ابراہیم ؑ کو یوں چھوڑ کر واپس جاتے دیکھا تو دامن خلیل کو پیچھے سے تھام کر سوال کیا کہ ہمیں کہاں چھوڑے جا رہے ہیں ؟ یہاں نہ دانہ ہے نہ پانی، میں تنہا کیسے رہوں گی؟ چلیں ،میرا نہیں تو اس کمسن شیرخوار کا ہی سوچ لیں ، جسے آپؑ نے بڑھاپے میں رو رو کر اپنے رب سے مانگا ہے،لیکن حضرت ابراہیم ؑ پر پیغمبرانہ صبر اور حوصلے کا ضبط غالب تھا، اسی لئے آپؑ نے مڑ کر نہ دیکھا ۔پھر حضرت ہاجرہ کو خیال آیا کہ ابراہیمؑ کوئی بھی کام حکم خداوندی کے بغیر نہیں کرسکتے اور سوال کیا کہ کیا آپؑ کو اللہ نے یہاں سے جانے کا حکم دیا ہے؟اس وقت حضرت ابراہیم ؑ نے سن کر فرمایا کہ ہاں میرے رب کا حکم ہے!حضرت ہاجرہ نے جواب سن کر فوری ’’دامن خلیل‘‘ کو چھوڑ کر’’ در جلیل‘‘ کو پکڑ لیا اور فرمایا کہ اگر یہ حکم خداوندی ہے تو جایئے! وہ ذات ہمیں کبھی ضائع نہیں ہونے دے گی۔جو خدا آتش نمرود میںآپؑ کا کفیل ہو سکتا ہے، وہی خدا ’’وادی ذی ذرع‘‘ میں میرا بھی کفیل ہو سکتا ہے۔عجب سماں تھا، عجیب سناٹاتھا، عجیب امتحان تھا۔پیغمبر اپنے اکلوتے بیٹے کو اور اپنی عفت ماؔ ب بیوی کو تنہا جنگل میں چھوڑ کرایک خدائے بزرگ و بر تر کے حوالے کر کے روانہ ہو گئے۔جب حضرت ہاجرہ اور اسماعیل آنکھوں سے اوجھل ہوگئے تو آپؑ نے ایسی رقت آمیز ، درد و سوز میں ڈوبی ہوئی دعا مانگی کہ عرش وفرش پر اس کی سحر انگیزی کے اثرات پھیل گئے۔حضرت ابراہیم ؑ اپنے رب سے التجاء کرتے ہیں کہ ’’اے اللہ ہم سب کے پروردگار ! تو دیکھ رہا ہے کہ جہاں کھیتی کا نام و نشان تک نہیں ہے، مَیں نے اپنی بعض اولاد تیرے محترم گھر کے پاس لا بسائی ہے تا کہ نماز قائم رکھیں۔پس تو اپنے فضل وکرم سے ایسا کر کہ لوگوں کے دل ان کی طرف مائل ہو جائیں اور ان کے لئے زمین کی پیداوار سے سامان رزق مہیا کر دے تاکہ تیرے شکر گزار ہوں‘‘۔
حضرت ابراہیم ؑ بیوی اور بچے کو چھوڑ کر روانہ ہو گئے۔حضرت ہاجرہ چند دن تک تو پاس موجود مشکیزے سے پانی پی کر اور کھجوریں کھا کر گزر بسر کرتی رہیں اور حضرت اسماعیل ؑ کو دودھ پلاتی رہیں لیکن وہ وقت بھی آ گیا کہ پانی رہا نہ کھجوریں، تب سخت پریشان ہوئیں اور حضرت اسماعیلؑ کوچھوڑ کر پانی کی تلاش میں نکل پڑیں۔بے چینی کے عالم میں کبھی’’ صفا‘‘پر جاتیں اور کبھی ’’مروہ‘‘پر،اور جب اسماعیلؑ سامنے تڑپتے نظر آتے تو واپس دوڑ پڑتیں۔ابھی اسی عالمِ اضطراب میں چکر لگا رہیں تھیں کہ شدتِ پیاس سے اسماعیلؑ نے ایڑیاں رگڑنا شروع کر دیں۔تب آپ بے اختیار ہو گئیں اور رو کر عرض کیا میرے رب! میرا تیرے سوا کوئی نہیں، میری مشکل حل فرما، اور اسماعیل کی سوکھی ہوئی زبان کے لئے پانی عطاء فرما۔اِدھر حضرت ہاجرہ کی زبان سے یہ الفاظ نکلے اور اُدھر’’رحمت حق‘‘ کو اپنی پاک بندی کے اس والہانہ دوڑنے ، بے کسی اور بے بسی کے عالم میں خدا کے ہاں دست سوال دراز کرنے پر جوش آیا اور اسماعیل نے جہان پاؤں کی ایڑیاں رگڑیں وہیں سے پانی کا چشمہ جاری ہوگیا۔سبحان اللہ العظیم قرآن کر یم میں اللہ رب العز ت فرماتے ہیں کہ ’’ وہ بچہ (اسماعیل) ایسی عمر میں پہنچا کہ اس(ابراہیم علیہ السلام)کے کاموں میں مدد گار بن سکے تو ابراہیم نے کہاکہ میرے پیارے بیٹے میں نے خواب دیکھا ہے کہ تجھے ذبح کر رہا ہوں ، سو اس معاملے میں غور کر تیری کیا رائے ہے۔؟(سورت الصافات) حضرت اسماعیل ؑ نے جب اپنے والد حضرت ابراہیم ؑ سے خواب کو سنا تو آپ سمجھ گئے تھے کہ یہ میرے والد کی اپنی بات نہیں، بلکہ امر الٰہی ہے۔اللہ کے پیغمبر کا خواب بھی ’’وحی‘‘ کے درجہ میں ہوتا ہے اور انبیاء علیہم السلام کا عقیدہ ہے کہ ہوگا وہی جو اللہ چاہیں گے اور پھر آپؑ نے اپنے والد حضرت خلیل اللہ کو ایسا جواب دیا جو کہ رہتی دنیا تک اطاعت خداوندی کی عظیم مثال بن کر رہ گیا۔فرمایا! اے میرے باپ ! جو حکم ہوا ہے آپ اسے بجا لایئے۔ ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ (سورت الصافات)
جان دی ، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
چنانچہ حضرت ابراہیمؑ اپنے فرزند حضرت اسماعیل ؑ کو لے کر صحرا کی طرف روانہ ہوگئے۔اللہ رب العزت کی عبادت اور اطاعت کا عظیم الشان مظاہرہ دیکھ کر شیطان سے رہا نہ گیااور یہ جانتے ہوئے بھی کہ مقابلے پر کوہ استقامت ابراہیم خلیل اللہ ہیں ، اپنی گمراہ کن تدابیر اختیار کرنا شروع کر دیں۔سب سے پہلے خیرخواہ کی شکل میں بھاگتا ہوا حضرت ہاجرہ کے پاس جا پہنچااور پوچھنے لگا کہ اسماعیل کہاں ہیں ؟انہوں نے جواب دیا کہ اپنے والد کے ساتھ لکڑیاں چننے کے لئے گئے ہیں۔ شیطان نے کہا نہیں! تم غفلت میں ہو ۔ وہ تو ان کو ذبح کرنے کے لئے لے گئے ہیں۔ حضرت ہاجرہ نے فرما یا کہ کوئی باپ اپنے بیٹے کوذبح بھی کرتا ہے؟ شیطان نے کہا کہ ہاں۔! وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے یہ حکم دیا ہے۔ یہ سن کر اکلوتے بیٹے کی ماں نے بھی وہی جواب دیا جو خاندان خلیل کے شایان شان تھا ۔فرمایا! اگر واقعی ان کو اللہ تعالیٰ نے ذ بح کرنے کا حکم دیا ہے تو ا ن کو تعمیل کرنی ہی چاہیے ۔ چنانچہ شیطان وہاں سے مایوس ہوکر واپس چلا گیا ۔ اب کی باراسے باپ اور بیٹے کو پھسلانے کی کوشش کرنا تھی سو ان کے تعاقب میں چل پڑا جو شہر مکہ سے منیٰ کی طرف جارہے تھے ۔ سب سے پہلے ایک دوست کی شکل میں حضرت ابراہیم ؑ کوروکنا چاہامگر انہوں نے تاڑ لیا اور اثر انداز نہ ہوسکا۔ اس کے بعد ’’جمرۃعقبہ‘‘ کے قریب آپ کا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا۔ ایک فرشتہ حضرت ابراہیم کے ساتھ تھا۔ اس نے ابراہیمؑ سے کہا کہ اس (شیطان)کو پتھر مارو۔ حضرت ابراہیم ؑ نے سات کنکریاں ماریں اور ہر کنکر کے ساتھ اللہ اکبر کہا تو شیطان دفع ہوگیا۔آگے بڑھ کر پھر ’’جمرہ وسطی ‘‘ کے قریب اسی طرح راستہ روکا تو پھر حضرت ابراہیم ؑ نے تکبیر کہہ کر سات کنکریں ماریں توشیطان پھر بھاگ گیا ۔ اسی طرح تیسری بار پھر نمودار ہوا اور’’ جمرہ اولیٰ‘‘ کے مقام پر راستہ گھیر کر کھڑا ہوگیا۔ حضرت ابراہیم ؑ نے بھر تکبیر کہہ کر وہی عمل دہرایا اور اس بار شیطان ہمیشہ کے لیے ناکام ونامراد ہوگیا۔
اب حضرت ابراہیم ؑ آگے بڑھ کر قربانی کی جگہ پہنچے ۔ اور حضرت اسماعیل ذبیح اللہ کو کروٹ دے کر لٹادیا تاکہ گردن پر چھر ی چلا سکیں ۔ اس طرح لٹانے میں تواضع بھی تھی اور یہ حکمت بھی کہ اگر اکلوتے بیٹے کاچہرہ سامنے آگیاتو شفقت پدری کے جاگنے سے کہیں ہاتھوں میں غیر اختیاری لغزش نہ آجائے۔ کیا عجب منظر ہوگا۔
باپ خلیل اللہ ہیں۔
فرزند ذبیح اللہ ہیں۔
خلیل اللہ چھری چلانے کو تیار ہیں۔
ذبیح اللہ گردن کٹوانے کوتیار ہیں۔
شاعر مشرق علامہ محمد اقبال ؒ اس مقام پر کیا خوب فرماتے ہیں کہ:
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت
سکھائے کس نے اسماعیل ؑ کو آدابِ فرزندی
یہ ماں کی گود اور والد کی نظر تھی جس نے اسماعیل ؑ کوکیمیا بنا دیا تھا۔ اب حضرت ابراہیم ؑ پوری قوت کے ساتھ چھری چلا رہے ہیں، مگر قدرت خداوندی بیچ میں حائل ہوجاتی ہے۔ جس کا ذکر قرآن میں کچھ اسطرح سے آتا ہے۔’’پس جب ان دونوں نے رضا و تسلیم کو اختیار کرلیا اور پیشانی کے بل اس بیٹے کو پچھا ڑ دیا۔ ہم نے اس کو آواز دی کہ اے ابراہیم تو نے خواب سچ کر دکھایا ۔ بے شک ہم اسی طرح نیکو کاروں کو بدلہ دیا کرتے ہیں۔ بلاشبہ کھلی ہو ئی آزمائش ہے اور بدلہ دیا ہم نے اس کو بڑے ذبح (مینڈھے) کے ساتھ، اور ہم نے آنے والی نسلوں کے لیے یہ باقی چھوڑا کہ ابراہیم ؑ پر سلام ہو۔ اس طرح ہم نیکو کاروں کو بدلہ دیا کرتے ہیں۔ بے شک وہ ہمارے مومن بندوں میں سے ہے۔۔۔(سور ۃ صافات)۔۔۔اس طرح خواب سچ کر دکھانے پر اللہ رب العزت نے ایک دنبہ آسمان سے نازل کیا تاکہ حضرت اسماعیل ؑ کی جگہ دنبہ کی قربا نی کی جائے خدائے وحدہُ لاشریک نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور حضرت اسماعیل ذبیح اللہ کے ان اعمال کو اتنا پسند فرمایا کہ قیامت تک کے لیے زندہ رکھنے کے لیے محبوب عبادت قرار دے کر بندوں پر لازم قرار دے دیا اور آج تک مسلمان دوران حج تینوں جمرات پر کنکریاں مار کر حجاج پر خصوصاً اور مسلمانوں پرعموماً مقررہ جانور کی قربانی کرکے ’’صفا‘‘ اور’’ مروہ‘‘ کے مقام کے درمیان دوڑ کر سنت ابراہیمی کو ادا کرتے ہیں۔
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’اور ہر گروہ کے لیے ٹھہرا دی ہم نے قربانی تاکہ وہ یاد کریں۔اللہ کا نام ان چوپایوں کے ذبح پر جو اللہ نے دیئے ا ن کو ، تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے ، بس اُسکے حکم میں رہو‘‘۔(الحج)
صحابہ کرامؓ نے رسول ﷺ سے دریافت کیاکہ قربانی کی کیا اصلیت و حقیقت ہے؟ آپﷺ نے فرمایا : ’’تمہارے والد ابراہیم ؑ کی سنت اور یادگار ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین نے عرض کیا کہ پھر ہمارے لئے اس میں کیا ثواب ہے؟ فرمایا! جانور کے ہر بال کے عوض نیکی تمہار ے نامہ اعمال میں لکھی جائے گی۔( مشکٰوۃالمصابیح)
حضرت عبداللہ بن قرطؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عظمت والا دِن یوم الخر (دس ذی الحجہ ،قربانی کادن) ہے۔ (رواہ ابو داؤد) ایک اور حدیث میں اُم المو منین سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ دس ذی الحجہ کو کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں اور قیامت کے دِن قربانی کرنے والا اپنے جانور کے بالوں ، سینگوں، کھروں کو لے کر آئے گا(اور یہی چیزیں اجر و ثواب کا باعث بنیں گی ) ۔ نیز فرمایا کہ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیک شرف قبولیت حاصل کر لیتا ہے ۔ لہذا تم خوش دِلی کے ساتھ قربانی کیا کرو ۔‘‘ (ترمذی) ایک جگہ حضرت ابو ہریرہؓ روایت فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ’’جس شخص میں قربانی کرنے کی وسعت ہو ،پھر بھی قربانی نہ کرے تو (ایسا شخص ) ہماری عید گاہ میں داخل نہ ہو ‘‘ (مسنداحمد)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ مین دس سال قیام فرمایا اور اس عرصے میں آپ عید قربان کے موقع پر مسلسل قربانی فرماتے تھے۔‘‘ (ترمذی ) اسی طرح سنت ابراہیمی کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین نے بعد میں بھی جاری رکھا۔ علامہ اِبنِ سرین ؒ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبداللہ اِبن عمرؓ سے قربانیوں کے متعلق پوچھا کہ ’’ آیا یہ واجب ہیں ‘‘ ؟ تو ابن عمرؓ نے فرمایا کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کی اور آپ ﷺ کے بعد اہل اسلام ( صحابہ کرامؓ) نے قر بانی کی اور اس قربانی کا عمل سنت کے طور پر ہمیشہ کے لئے جاری ہے۔‘‘
اسی طرح نویں ذی الحجہ کی صبح سے تیرہویں ذی الحجہ کے دن نماز عصر تک ہر نماز کے بعد با آواز بلند ایک مرتبہ تکبیر تشریق (اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الااللہ واللہ اکبر اللہ اکبروللہ الحمد)کہنا واجب ہے۔ باجماعت اور تنہا نماز پڑھنے والے اس میں سب برابر ہیں۔البتہ عورت باآواز بلند تکبیر نہ کہے ، بلکہ آہستہ آواز سے کہے۔عیدالاضحی کے دن صبح سویرے اُٹھنا ، غسل کرنا، مسواک کرنا ، پاک وصاف عمدہ کپڑے جو اپنے پاس موجود ہوں پہننا، خوشبو لگانا، نماز (عیدالضحیٰ) سے پہلے کچھ نہ کھانا ، عید گاہ کو جاتے ہوئے باآواز بلند تکبیر تشریق کہنا مسنون ہے۔ حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے :کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عید الفطر اور عید الضحیٰ کے دِن عید گاہ میں تشریف لے جاتے تو سب سے پہلی چیز جسے شروع فرماتے وہ نماز ہوتی۔نماز عید کے بعد فوراً قربانی کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور غروبِ آفتاب تک رہتا ہے، لہٰذا ہمارے ہاں خطباء حضرات عید کی نماز سے پہلے وعظ و نصیحت کرنا شروع کر دیتے ہیں جو کہ درست نہیں۔اہل تفکر علماء کو اس کے سد باب کے لئے موثر آگاہی پیداکرنی چاہیے۔ حضرت ابو رافع ؓ روایت فرماتے ہیں کہ: ’’بلاشبہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قربانی کا ارادہ کرتے تو سیاہ وسفید مخلوط رنگ والے دو مینڈھے خرید لیتے تھے۔ یہاں تک کہ جب آپ عید کی نمازاور خطبہ سے فارغ ہوجاتے تو پہلے ایک مینڈھا لٹایا جاتا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اُس وقت بھی اپنے مصلیٰ پر موجود ہوتے، اور اسے اپنے ہاتھ سے ذبح کرتے پھر فرماتے ’’اے اللہ! یہ مینڈھا میری تمام اُمت کی طرف سے قربان ہے ۔ یعنی جو لوگ آپ کی توحید اور میری پیغمبری کی گواہی دیں اُن کی طرف سے‘‘ پھردوسرا مینڈھا لٹایا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسے ذبح کرتے پھر فرماتے: ’’اے اللہ ! یہ مینڈھا محمد (ﷺ) اور محمد(ﷺ) کی بیوی، بچوں اور مسلم و مومن رشتہ داروں کی طرف سے قربان ہے‘‘۔ (مشکٰوۃ المصابیح)اس سے معلوم ہوا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ذات مبارکہ کے علاوہ اپنے اہل وعیال اور ساری اُمت کے نیک و گناہ گار سب مسلمانوں کو یاد فرمایا اور انکی طرف سے پیشگی نفل قربانی بھی دی ۔
اسی طرح حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آل وسلم نے قربانی کے جانوروں کی عمر کا تعین بھی فرمایا ہے۔حضرت جابراِبن عبدُاللہ ا لا نصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ:۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’ایک سال سے کم عمر کا بکرا ،بکری ذبح نہ کرو۔ ہاں اگر تمہاے لیے وقت پر ملنا مشکل ہو جائے تو پھر ، دنبہ میں سے چھ مہینے سے زیادہ عمر کا بچہ ذبح کردو ‘‘۔ (کتاب الا ضاحی ،صحیح مسلم )
اور اسکے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ قربانی کے جانور میں کسی بھی قسم کا عیب نہ ہو مثلاً ایک آنکھ سے معذور نہ ہو ، پاؤ ں سے معذور نہ ہو، تما م دانت گر نہ گئے ہوں۔ جانور کے سینگ جڑ سے ٹوٹے نہ ہوں۔ وغیرہ وغیرہ۔ قربانی کا گوشت آپ خود بھی کھاسکتے ہیں اور دیگر رشتہ داروں کو بھی کھلا سکتے ہیں ۔غرباء اور مساکین میں بانٹ سکتے ہیں۔جس کے لیے بہترین طریقہ یہ ہے کہ گوشت کے تین حصے کرلیے جائیں۔ ایک حصہ اپنے لیے ، دوسراحصہ رشتہ داروں کے لیے ، تیسرا حصہ غرباء اور مساکین کے لیے رکھیں۔
حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے فرزند حضرت اسماعیل ؑ کی زندگی توحید پر کامل یقین ا ور اس کے لئے مکمل یکسوئی،شرک کے تمام مظاہر سے انتہائی درجہ کی بے زاری، رب کی اطاعت و نیاز مندی کے جذبے اور رضائے الٰہی کے لئے بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہ کرنے کا حوصلہ دیتی ہے۔لہذا ہمیں چاہئے کہ عید الاضحی کے بابرکت موقع پر حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کے عزم اور حوصلے کو ،اطاعت خداوندی کو یاد رکھیں۔یہی وہ کردار تھا جس کو اللہ رب العزت نے پذیرائی بخشی۔ یہی وہ ابراہیمیؑ طریقہ اور عمل تھا جس پر چلتے ہوئے دونوں بزرگ و محترم شخصیات نے اللہ کے حکم پر سب سے محبوب چیز کی قربانی دے کر’’ حقِ بندگی‘‘ ادا کرنے کاسلیقہ قیامت تک آنے والی نسلوں کو سکھا بھی دیا اور بتا بھی د یا ۔ اللہ تعالیٰ پوری اُمت کے مسلمانوں کی قربانی کو قبول فرمائیں اور ہمیں سنت ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے ،اپنی زندگی کو توحید و سنت کے عین مطابق، اطاعت و فرمانبرردار ی میں رہتے ہوئے گزارنے کی توفیق عطاء فرمائیں ۔ (آمین)