کیا وزیر اعظم کی سادگی کے اثرات نچلی سطح تک مرتب ہوں گے؟
بات سچے دل اور جذبے سے کی جائے تو اثر کرتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے قوم سے پہلے باضابطہ خطاب نے عوام پر گہرے اثرات مرتب کئے، تقریر اتنی دل پذیر تھی کہ اُن کے مخالفین نے بھی اُس کی تعریف کی، مگر ساتھ ہی نجل سے کام لیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ جو کچھ کہا گیا ہے، اُس پر عمل کرنا مشکل ہے۔ مجھے عمران خان کی جو خوبی سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے، وہ اُن کے اندر کا رجائی پن ہے۔ وہ مایوسی کو بھی اُمید میں بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ماضی کے وزرائے اعظم کی طرح انہوں نے قوم کو ڈرایا نہیں، بلکہ اُمید دلائی کہ وہ حالات کو بدل کر دکھائیں گے۔ چیلنجز اُن کے سامنے بہت ہیں، تاہم انہوں نے ہر چیلنج کا حل بھی بتا دیا ہے، اُن کے خطاب کا ہر پہلو بہت اہم ہے، البتہ ایک بات انہوں نے ایسی کی ہے جس میں بہت سے مسائل کا حل موجود ہے، انہوں نے سادگی اپنانے کا وعدہ کیا ہے، انہوں نے ساڑھے پانچ سو ملازمین کی جگہ دو ملازم اور بیسیوں گاڑیوں کے بجائے دو گاڑیاں رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ اُن کا یہ کہنا ہے کہ میں نے ایک گاڑی رکھنی تھی، مگر سیکیورٹی سٹاف نے بتایا کہ حفاظتی نقطہ، نظر سے دو گاڑیاں ضروری ہیں، انہوں نے وزیر اعظم ہاؤس کی بجائے ملٹری سیکرٹری کے تین بیڈ ہاؤس کو اپنے لئے منتخب کیا ہے۔ گویا ایک سوگیارہ کنال کا وزیر اعظم ہاؤس چھوڑ کر ایک کنال کے گھر میں رہنے کو ترجیح دی ہے، سیانے کہتے ہیں کہ پانی ہمیشہ فراز سے نشیب کی طرف آتا ہے۔ ہمارے ہاں حکمرانوں نے خود تو پر تعیش زندگی گزاری، لیکن رعایا سے سادگی کی اپیل کرتے رہے۔ یہ الٹی گنگا بھلا کیسے بہہ سکتی تھی، حکمرانوں کی دیکھا دیکھی سرکاری افسروں نے قومی خزانے کی لوٹ مار کی۔ فیڈرل سیکرٹری نے دس دس گاڑیوں کا فلیٹ رکھ لیا، نئی نئی پالیسیوں کے ذریعے اپنی مراعات بڑھائیں۔ سرکاری وسائل کو مال غنیمت سمجھ کر خرچ کیا، ریٹائرمنٹ پر اسلام آباد میں دو کنال کے پلاٹ کی سکیم بھی منظور کرالی، جب حکمرانوں نے اپنے جائز ناجائز کام انہی سے کرانے تھے تو اُن کی بات کیوں نہ مانتے۔ اب ایک مثال اوپر سے قائم ہورہی ہے، وزیر اعظم نے خود کو چھوٹے گھر اور دو گاڑیوں تک محدود کرلیا ہے، کیا اس مثال کو بیوروکریسی ہوا میں اڑادے گی؟ کیا اپنے اللے تللے جاری رکھے گی؟
اس کے اثرات لازماً نیچے تک مرتب ہونے چاہئیں، اب یہ تو نہیں ہوسکتا کہ وزیر اعظم چھوٹے گھر اور دو گاڑیوں پر انحصار کریں اور اُن کی کابینہ کے ارکان پر کوئی اثرات نہ ہوں، اسی طرح صوبوں کے گورنرز اور وزرائے اعلیٰ اپنی شاہانہ زندگی جاری رکھیں، وزیر اعظم چاہے سادگی کا ڈھنڈورا پیٹتے رہیں، اسی طرح بیوروکریسی بھی وزیر اعظم سے زیادہ سرکاری سہولتیں حاصل نہیں کرسکتی، اُسے بھی نیچے آنا پڑے گا، یہ سب کچھ ہوگیا تو اربوں روپے کی بچت ہوگی۔ پاکستان وہ ملک ہے، جہاں غیر ترقیاتی اخراجات اُس کے ترقیاتی اخراجات سے زیادہ ہوتے ہیں۔ ایک ایک وفاقی سیکرٹری 50,50 لاکھ ماہانہ میں پڑتا ہے، یہ سب کچھ صحیح معنوں میں پاکستان کو تبدیل نہیں کرسکتا، اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ایک کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں خاطر تواضع کا بجٹ لاکھوں میں ہے، یہ خرچ نہیں ہوتا، افسران کی جیبوں میں جاتا ہے،سارا بجٹ مل جل کر ماہانہ کروڑوں تک پہنچتا ہے۔ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ وزیر اعظم کے دفتر کا ریفریشمنٹ کی مد میں بجٹ تو صفر ہو جائے اور ایک ضلع کا ڈپٹی کمشنر لاکھوں روپے ماہانہ خرچ کرے، یہ سب کچھ تو اب تبدیل کرنا پڑے گا، اگر تبدیل نہیں ہوتا تو اس کا واضح مطلب یہ ہوگا کہ وزیر اعظم بیوروکریسی کے ہاتھوں شکست کھا گیا ہے۔
آج بھی ایک معاصر اخبار میں رپورٹ چھپی ہے کہ سرکاری افسران کی بیگمات،بچے حتیٰ کہ نو کر چاکر سرکاری گاڑیوں میں گھومتے ہیں، شاپنگ کرتے ہیں، جس کی قانون میں قطعاً اجازت نہیں سرکاری گاڑی صرف دفتر آنے جانے کے لئے دی جاتی ہے، باقی کام اپنی ذاتی گاڑی پر کرنے پڑتے ہیں، اگر ڈی سی اوز اور ڈی پی اوز کی گاڑیوں کے پٹرول کی مد میں اخراجات کی تفصیل دیکھی جائے تو یوں لگتا ہے، جیسے وہ گاڑی نہیں ہوائی جہاز پر اڑتے رہے ہوں۔ پھر اس مد میں پٹرول کی جعلی رسیدیں بنوانے کی وباء بھی عام ہے۔ صرف ضلعی یا پولیس افسران پر ہی منحصر نہیں، بلکہ دیگر سرکاری اداروں، کارپوریشنوں اور لوکل گورنمنٹ کے محکموں میں اس حوالے سے لوٹ مچی ہوئی ہے، اب چونکہ اعلیٰ سطح پر ایک بڑی مثال قائم ہوگئی ہے، اس لئے ضروری ہے کہ اس کے اثرات نیچے تک آئیں۔ صرف وزیر اعظم کی سادگی سے اتنی بچت نہیں ہوسکتی کہ ہم اُس سے غریبوں کی فلاح پر صرف کرنے کے لئے وسائل حاصل کرسکیں۔ اسے تحصیل کی سطح تک لایا جانا چاہئے، ایک اصول تو فوری طور پر طے کرلیا جائے کہ افسر چاہے کتنا بھی بڑا یا چھوٹا ہو، وہ صرف ایک سرکاری گاڑی استعمال کرے گا، البتہ گاڑیوں کی کیٹیگریز گریڈ کے حساب سے بنائی جاسکتی ہیں، اس کے دوفوری اثرات مرتب ہوں گے، پہلا یہ کہ ہر سال سرکاری محکموں کے لئے گاڑیوں کی خریداری کی مد میں جو کروڑوں روپے رکھے جاتے ہیں، اُن کی بچت ہوگی اور دوسرا ایک سے زائد گاڑیوں کے لئے پٹرول اور ڈرائیوروں کی تنخواہوں پر جو کروڑوں روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں، وہ بچیں گے اور غریبوں کو صحت و تعلیم کی سہولت فراہم کرنے پر صرف ہوسکیں گے۔ یہ بہت تاریخی موقع ہے کہ ہم اس غریب ملک کے شاہانہ نظام کو بدل دیں، کیونکہ پہلی بار کسی وزیر اعظم نے سادگی کی صرف بات ہی نہیں کی، بلکہ اُس پر اپنی ذات سے عمل کا آغاز بھی کردیا ہے۔
گاڑیوں کے علاوہ وزیر اعظم عمران خان نے چھوٹے گھر میں رہنے کی روایت بھی ڈال دی ہے، یہ بہت بڑا قدم ہے، ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ ہمارا کوئی گورنر، گورنر ہاؤس میں نہیں رہے گا۔ اب یہ فیصلہ بہت بڑا بھی ہے اور علامتی حوالے سے بہت دورس بھی، اُس کے اثرات کو نیچے تک لایا جائے تو حکومت کے پاس اتنے زیادہ وسائل آسکتے ہیں کہ شاید بہت سے قرضے اتر جائیں، اگر قرضے نہیں اتارنے تو شہروں کے قلب میں ایسی جگہیں میسر آجائیں گی، جہاں اعلیٰ تعلیم کے ادارے یا ہسپتال قائم کئے جا سکتے ہیں، مثلاً آپ پنجاب کے اضلاع میں موجود کمشنر و ڈپٹی کمشنرز ہاؤسز، ڈی آئی جی اور ڈی پی اوہاؤسز، محکمہ انہار افسران کے دفاتر، ریلوے افسران کی رہائش گاہیں، دیکھیں تو یقین نہیں آتا کہ یہ اٹھارویں اور انیسویں گریڈ کے افسران کے مسکن ہیں۔ ایکڑوں پر محیط یہ بنگلے کسی بہت امیر کبیر ملک کی بیورو کریسی کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔ ان پر لاکھوں روپے ماہانہ کے اخراجات آتے ہیں، کیونکہ اتنی بڑی راجدھانی کو سنبھالنا بھی تو ضروری ہے۔ یہ تو کھلی کرپشن ہے، اگر ضابطے کے لحاظ سے دیکھا جائے تو سرکاری افسر کو گھر کرائے پرلینے کے لئے ایک حد مقرر ہے، لیکن اگر شہروں میں واقع ان کی ان رہائش گاہوں کے کرائے مارکیٹ ریٹ پر کرائے کا حساب لگایا جائے تو بیس لاکھ روپے ماہانہ سے کم نہ ملے۔ تو کیا ہم نے سرکاری خرچ پر سفید ہاتھی پال رکھے ہیں۔ پنجاب حکومت کو وزیراعظم عمران خان کے سادگی وژن کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایسی تمام رہائش گاہیں خالی کراکے افسران کو ایک یا دو کنال کی کوٹھیوں میں منتقل کر دینا چاہیے۔ خالی ہونے والی رہائش گاہوں کو کن مقاصد کے لئے استعمال کرنا ہے، اس کے لئے ایک کمیشن بنا دیا جائے جو ہر شہر کی ضروریات کے حوالے سے ان قیمتی ترین جگہوں کا مصرف تلاش کرے۔
باتیں تو اس ضمن میں اور بھی بہت سی کی جا سکتی ہیں، تاہم بنیادی نکتہ یہی ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنی ذات سے سادگی اپنانے کا جو آغاز کیا ہے، اسے ایوان وزیراعظم تک محدود نہیں رہنا چاہیے، بلکہ اس کی پیروی نچلی سطح تک کی جائے۔ تبھی وہ تبدیلی آئے گی، جس کا عوام نے خواب دیکھ رکھا ہے۔بیورو کریسی کو چھوٹے گھروں میں رہنے کی عادت پڑے گی تو اسے عوام کے مسائل بھی سمجھ میں آئیں گے، ابھی تووہ محلات میں رہ کر خود کو بادشاہ سمجھتی ہے اور عوام کو رعایا۔ ایک عوامی وزیراعظم نے نظام بادشاہت کی علامتوں کو توڑ کر رکھ دیاہے، اب ضروری ہے کہ دیگر جمہوری ممالک کی طرح ہم بھی عوام کو رعایا سمجھنے کی بجاے ملک کے اصل مالک سمجھیں۔