عمران خان۔۔۔ پہلا خطاب

عمران خان۔۔۔ پہلا خطاب
عمران خان۔۔۔ پہلا خطاب

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اتوار کی شام وزیراعظم عمران خان قوم سے پہلی دفعہ مخاطب ہوئے۔ یہ خطاب غیررسمی اور غیر روایتی تھا۔ انہوں نے بہت سی اچھی باتیں کیں اور توقع کے مطابق سٹیٹس کو ٹوٹتا نظر آیا۔ اُن کی نیت بھی نیک ہے،ارادے بھی بلند ہیں خدا کرے انہیں اچھے ارادوں میں کامیابی ہو، کیونکہ اُن کی ذات کے علاوہ پاکستان کو فائدہ ہو گا لیکن یہ کہنا پڑتا ہے کہ عملی سیاست اور فن حکمرانی بہت پیچیدہ عمل ہے۔ نیک ارادوں پر عملدرآمد اتنا آسان نہیں۔ انہوں نے اپنے خطاب میں مجموعی طور پر سوشل ڈویلپمنٹ کی بات کی، یہ شعبہ پہلے کسی حد تک توجہ سے محروم رہا ہے لہٰذا اس کی ضروت تھی۔ پھر حسب توقع انہوں نے کرپشن کے خاتمے کا ذکر کیا، لیکن اُن کا زور زیادہ تر سیاست دانوں کی طرف رہا، کیونکہ اُن کے جرم کا والیم بھی بڑا ہے اور پھر اس سے ملک کے علاوہ حکومت کو بھی بہرحال فائدہ ہوتا ہے۔ عام سرکاری ملازم کی کرپشن اور تاجر طبقے کی بے ایمانیوں کا انہوں نے کوئی ذکر نہیں کیا۔ دہشت گردی اور انرجی سمیت کئی اہم مسئلوں کا انہوں نے سرے سے ذکر ہی نہیں کیا۔ دینی مدرسوں اور کئی ایسے مسائل کا ذکر انہوں نے ایک یا دو جملوں تک محدود رکھا، ان کا کوئی حل انہوں نے نہیں بتایا۔


وزیراعظم کے ملٹری سیکرٹری کے مکان میں رہائش رکھنا بھی کوئی قابل تعریف کام نہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ دو ملازم اپنے ساتھ رکھیں گے لیکن یہ نہیں بتایا کہ وزیراعظم ہاؤس کے باقی 524 ملازمین کا وہ کیا کریں گے۔ وزیراعظم ہاؤس میں یونیورسٹی کے قیام کا ارادہ بھی صحیح نہیں ہے یہ ہائی سیکیورٹی زون ہے اور وزیراعظم ہاؤس کی عمارت ’’کسٹم میڈ‘‘ ہے یہاں یونیورسٹی بنانا شاید مناسب نہیں ہو گا۔ البتہ یونیورسٹی کے لئے پنجاب کا گورنر ہاؤس موزوں جگہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ دو گاڑیاں رکھیں گے باقی نیلام کر دیں گے۔ سوال یہ ہے کہ جب کوئی غیرملکی مہمان آئیں گے تو اُن کے لئے گاڑیوں کا بندوبست کہاں سے کریں گے؟ سٹیٹ گیسٹ ہاؤس تو بنایا ہی نہیں گیا۔ ویسے جیو پر سلیم صافی صاحب بتا رہے تھے کہ جاتے ہی ملٹری سیکرٹری کے بیڈروم کا بیڈ تبدیل کیا گیا ہے اور عمران خان نے حکم دیا کہ نوازشریف کے اخراجات کی تفصیل لاؤ، لیکن پتہ چلا کہ اپنے خاندان پر اُٹھنے والے اخراجات نوازشریف اپنی جیب سے ادا کرتے رہے ہیں۔ غیرملکی دوروں کے معاملے میں اُن کی ناپسندیدگی بھی کچھ بلاجواز لگی۔ دنیا کی برادری میں منسلک رہنے کے لئے وزیراعظم اور دوسرے حکام کو غیرملکی دورے کرنے پڑتے ہیں ورنہ آپ تنہا رہ جائیں گے اور آپ کا مؤقف دنیا تک نہیں پہنچے گا۔ یہ وقت کے ساتھ عمران خان پر واضح ہو جائے گا اس طرح کی کئی باتوں سے اُن کی ناتجربہ کاری اور Idealistic سوچ کا اظہار ہوتا ہے۔


اس سے پہلے جمعہ کی شام قومی اسمبلی کے ایوان میں وزیراعظم کا انتخاب ہوا اور پہلی گنتی میں ہی عمران خان وزیراعظم منتخب ہو گئے ۔ حلف کی عبارت میں خاتم النبین جیسے الفاظ پر اٹکنے سے بھی کوئی اچھا تاثر پیدا نہیں ہوا۔ اس موقع پر مسلم لیگ (ن) سے میچ پڑنا تھا جن سے اقتدار چھینا گیا تھا اس میچ نے بہرحال ماحول کو نارمل نہ رہنے دیا اور عمران خان Provoke ہو گئے۔یہ عمران خان کی پہلی ناکامی تھی۔ انہیں یہ احساس ہونا چاہئے کہ دوسروں کو چور ڈاکو کہنا آسان ہے، لیکن وزیراعظم بن کر آپ اُسی زبان میں جواب نہیں دے سکتے وزیراعظم پر بڑے بوجھ ہوتے ہیں وہ ہائی پیڈسٹل سے نیچے نہیں اُتر سکتا۔ اگر وہ اسی طرح Provoke ہوتے رہے تو سمجھو اپوزیشن کا کام آسان ہو گیا کیونکہ وہ غصے میں غلط باتیں بھی کریں گے اور غلط فیصلے بھی ۔ توقع کرنی چاہئے کہ وہ اس واقعے کو پیچھے چھوڑ جائیں گے اور اپوزیشن لیڈر کی بجائے وزیراعظم کا کردار اپنا لیں گے۔


اس سے پہلے پچھلے چند دنوں میں انہوں نے جو فیصلے کئے ہیں وہ بھی میرٹ پر پورا نہیں اُترے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے سمجھوتے کئے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں وہ اپنی مرضی کا وزیراعلیٰ نہ لا سکے اور انہیں پرویز خٹک سے بلیک میل ہونا پڑا۔ انہوں نے بڑی دیر اور بڑے غوروفکر کے بعد پنجاب کے وزیراعلیٰ کے نام کا اعلان کیااس سے بھی اُن کے ہی خوابوں کو بھی مایوسی ہوئی۔ اُن کے قریبی تجزیہ نگار بھی اس پر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں غالباً نئے وزیراعلیٰ عثمان بزدار صاحب پھر ایک سمجھوتے کی پیداوار ہیں۔ بزدار صاحب کا تعلق تونسہ سے ہے اُن کے والد بزدار قبیلے کے سردار ہیں۔ مقامی سکول میں ہیڈماسٹر بھی رہے ہیں، عمران خان صاحب نے کہا ہے کہ وہ سردار عثمان بزدار صاحب کے تقرر سے غریبوں کے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں۔ بڑی عجیب بات ہے کہ ایک قبائلی سردار سے وہ کیسی توقعات باندھ رہے ہیں۔پھر جنوبی پنجاب کا صوبہ وجود میں آ گیا تو سردار عثمان کا مستقبل کیا ہو گا۔ خیال ہے کہ اُن کے پیچھے جہانگیر ترین ہیں یہ پی ٹی آئی کی بدقسمتی ہے کہ انہیں پنجاب کے وزیراعلیٰ کے لئے کوئی موزوں اُمیدوار دستیاب نہیں ہوا۔ خود جہانگیر ترین اس عہدے کے لئے موزوں ترین آدمی تھے،لیکن وہ نااہلی کی زد میں آ گئے پھر شاہ محمود قریشی بھی اچھا چوائس تھا، لیکن اتفاق سے وہ صوبائی نشست پر الیکشن ہار گئے ۔ جنوبی پنجاب بھی دوسرا بلوچستان بن گیا ہے، جس کا احساس محرومی کسی طرح ختم نہیں ہو رہا،حالانکہ جنوبی پنجاب کی محرومیوں کی کچھ ذمہ داری تو اس قدرتی فیکٹر پر ہے کہ وہ صوبائی دارالحکومت لاہور سے بہت دور ہے اور کچھ ذمہ داری جنوبی پنجاب کی قیاد ت پرہے پاکستان کے پہلے تیس پینتیس سال آج کے پورے پاکستان پر جنوبی پنجاب ہی کی حکومت رہی ہے۔ دولتانہ ، مخدوم، دستی، قریشی ، گیلانی ، کھر،گورمانی، ممدوٹ عباسی وغیرہ کیا جنوبی پنجاب سے نہیں تھے؟ اس دوران انہوں نے اس خطے کو کتنی ترقی دی۔ پھر اگلے تیس پینتیس برسوں میں بیشک سنٹرل پنجاب کی مرکٹائل کلاس اقتدار میں رہی،لیکن اس دوران بھی کیا جنوبی پنجاب کی اشرافیہ اقتدار میں شامل نہیں رہی؟ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جنوبی پنجاب کی زمیندار کلاس سے کسی انقلابی تبدیلی کی اُمید رکھنا عبث ہو گا وہ تو سٹیٹس کو کے زبردست حامی ہیں اور رہیں گے۔ اب بھی وہ جنوبی پنجاب کے صوبے کا مطالبہ عوام کی بہبودی کے لئے نہیں کر رہے،بلکہ انہیں یہ یقین ہو گیا ہے کہ اب پنجاب پر انہیں حکمرانی کا موقع شاید ہی ملے۔ یہ عثمان بزدار کا انتخاب آپ ایک استثناء ہی سمجھ لیں پتہ نہیں یہ انتظام کتنے عرصے چلتا ہے؟


بہرحال یہ سیاست کی معروضی حقیقتیں ہیں جنہیں عمران خان کو شروع ہی میں تسلیم کرنا پڑا ہے،چونکہ پنجاب کے لئے کوئی موزوں آدمی دستیاب نہیں تھا، لہٰذا اب فارمولا یہ طے ہوا ہے کہ وزیراعلیٰ تقریباً ڈمی ہو گا اور اِسے گورنر چودھری محمد سرور ، جہانگیر ترین اور چوہدری پرویزالٰہی چلائیں گے۔ چودھری پرویز الٰہی کی اسقدر اہمیت سے یاد آیا کہ عمران خان نے پارلیمینٹ میں تقریر کرتے ہوئے گرج دار آواز میں کہا کہ اب کسی ڈاکو کو این آر او نہیں ملے گا۔ جنابِ عالی ایک ڈاکو بقول آپ کے اپنے یعنی چودھری پرویز الٰہی کو تو آپ این آر او دے بھی چکے ہیں،بلکہ معاملہ کچھ اس سے بھی آگے ہے۔ سوال یہ ہے کہ پنجاب کو ایک کنسورشیم کے ذریعے کنٹرول کیا جائے گا۔یہ فارمولا کس حد تک کامیاب رہے گا۔ پھرکیا یہ سسٹم میں Distortion نہیں ہوگی اور کیا اِن تینوں یعنی وزیراعلیٰ ،گورنر اور سپیکر کے درمیان اتنی ہم آہنگی رہے گی؟ جبکہ پنجاب جیسے بڑے صوبے میں جس میں اپوزیشن بھی بہت مضبوط اور تجربہ کار ہے اقتدار پر مضبوط گرفت کی ضرورت ہے۔وفاقی کابینہ میں شامل تقریباً آدھے وزیر مشرف کابینہ میں بھی وزیر رہے ہیں اس سے کوئی اچھا تاثر پیدا نہیں ہوا۔ کابینہ کا سائز البتہ مناسب ہے اور انہوں نے اس میں اضافے کا فی الحال کوئی اشارہ نہیں دیا۔

مزید :

رائے -کالم -