وہ پاکستانی جو اپنی بہن کے پاسپورٹ پر دبئی پہنچ گیا، ایسا واقعہ کہ یقین نہ آئے

وہ پاکستانی جو اپنی بہن کے پاسپورٹ پر دبئی پہنچ گیا، ایسا واقعہ کہ یقین نہ آئے
وہ پاکستانی جو اپنی بہن کے پاسپورٹ پر دبئی پہنچ گیا، ایسا واقعہ کہ یقین نہ آئے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) آج کل ایئرپورٹس پر جس قدر سکیورٹی ہے، کسی دوسرے کے پاسپورٹ کر غیرملک پہنچ جانا محال ہے لیکن آپ کو یہ سن کر یقین نہیں آئے گا کہ ایک پاکستانی نوجوان اپنی بہن کے پاسپورٹ پر نہ صرف دبئی چلا گیا بلکہ اسی پاسپورٹ پر واپس بھی آ گیا۔ ویب سائٹ مینگوباز کے لیے تحریر کردہ اپنی اس کہانی میں نوجوان نے اپنی شناخت مخفی رکھتے ہوئے بتایا ہے کہ ”میری پرواز علی الصبح تھی اور میں رات کو جلد بازی میں پیکنگ کر رہا تھا۔ اسی جلد بازی میں میں نے اپنے پاسپورٹ کی بجائے اپنی بہن کا پاسپورٹ اٹھا لیا۔ اگلے روز پرواز میں میرے ساتھ میرا ایک کولیگ اور دوست بھی جا رہا تھا۔ ہم چند دن کی سیاحت کے لیے دبئی جا رہے ہیں۔ ہم ایک غیرملکی پرواز کی بزنس کلاس میں بیٹھے اور دبئی پہنچ گئے۔ دبئی میں امیگریشن آفیسر نے میرا پاسپورٹ دیکھا اور میری طرف بغور دیکھا۔ وہ کافی دیر تک میرے پاسپورٹ کو دیکھتا رہا۔ بالآخرمیں نے اسے پوچھا لیا کہ کیا کوئی مسئلہ ہے؟ اس پر اس نے کہا کہ تمہارا پاسپورٹ اور ویزا نمبر میچ نہیں کر رہے۔ یہ کہہ کر اس نے مجھے پاسپورٹ تھما دیا اور جانے کی اجازت دے دی۔“
نوجوان لکھتا ہے کہ”میں وہاں سے روانہ ہوا تو میں نے اپنے دوست سے کہا کہ آفیسر کو ایسا کیوں لگا تو میرے دوست نے کہا کہ تمہارا پرانا پاسپورٹ بھی نئے کے ساتھ منسلک ہے، شاید آفیسر پرانا پاسپورٹ دیکھ رہا تھا۔میں نے بھی کندھے اچک دیئے اور ہم ہوٹل پہنچ گئے۔ وہاں میں نے یونہی پاسپورٹ کو ایک نظر دیکھا تو میرے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ یہ پاسپورٹ تو میری بہن کا تھا۔ میں نے اپنے دوست کو بتایا تو وہ بھی سرپیٹ کر رہ گیا۔ میں نے واپس اپنے گھر والوں کو فون کیا تو وہ بھی پریشان رہ گئے۔ میرے والد نے میرا پاسپورٹ ڈاک کے ذریعے مجھے بھیج دیا اور خود بھی دبئی پہنچ گئے تاکہ میں کسی مشکل میں پھنسوں تو وہ میرے پاس ہوں۔ اب میرے پاس میرا پاسپورٹ بھی تھا اور بہن کا بھی۔ مسئلہ یہ تھا کہ اگر اب میں اپنے پاسپورٹ پر سفر کرتا تو میں اور میری بہن دونوں مشکوک ہو جاتے کیونکہ میرے پاسپورٹ پر میری انٹری نہیں ہو گی، صرف ایگزٹ کی مہر لگے گی جبکہ میری بہن کے پاسپورٹ پر انٹری کی مہر لگے گی اور ایگزٹ کی نہیں ہو گی۔ چنانچہ میں نے اپنی بہن ہی کے پاسپورٹ پر واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ میں اپنی بہن کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا کیونکہ اس طرح اس کے متحدہ عرب امارات میں داخلے پر پابندی بھی لگ سکتی تھی۔ میرے والد اور دوست نے بھی اس فیصلے میں میرا ساتھ دیا۔“
نوجوان مزید لکھتا ہے کہ ”جس روز ہماری واپسی تھی، میں شدید خوفزدہ تھا کہ اگر میں پکڑا گیا تو مجھے جیل بھی ہو سکتی تھی۔ میرا دوست اور والد دونوں میرے ساتھ تھے اور میرا حوصلہ بڑھا رہے تھے۔ میں امیگریشن ڈیسک تک پہنچا۔ آفیسر نے میرا پاسپورٹ لیا، جو کہ میری بہن کا تھا۔ وہ کافی دیر تک پاسپورٹ دیکھتا اور کمپیوٹر میں کچھ ٹائپ کرتا رہا اور پھر اس نے مجھے آفس میں آنے کو کہہ دیا۔ خوف سے میری بری حالت ہو گئی کیونکہ جب کسی کو گرفتار کیا جاتا ہے تو اسے اسی طرح آفس میں بلایا جاتا ہے۔ آفس میں جا کر اس آفیسر نے پھر پاسپورٹ کو دیکھنا شروع کر دیا اور کمپیوٹر پر ٹائپنگ کرتا رہا۔ کافی دیر بعد اس نے مجھ سے میرا نام پوچھا۔ اس پر میں نے حیرت کے اظہار کا ڈرامہ کرتے ہوئے ’کیا؟‘ کہا۔ میرے یہ کہتے ہی آفیسر نے پاسپورٹ مجھے دے دیا اور مجھے پرواز پر سوار ہونے کی اجازت دے دی۔ یوں میں اپنی بہن کے پاسپورٹ پر دبئی سے ہو کر واپس گھر پہنچ گیا۔ حالانکہ میں اور میری بہن نہ تو جڑواں ہیں اور نہ ہی ہماری شکلیں اتنی ملتی ہیں۔“