افغانستان میں اتفاق رائے سے وسیع البنیاد حکومت قائم کی جائے، مشاہد حسین سید
لاہور(لیڈی رپورٹر)افغانستان میں امریکہ کو شکست ایک تاریخی واقعہ ہے اور طاقت کا توازن مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔ افغانستان میں اتفاق رائے سے ایک وسیع البنیاد حکومت قائم کی جائے جس میں سب گروپوں کی نمائندگی ہو افغانستان کی سرزمین پاکستان یا کسی بھی ملک کیخلاف استعمال کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ افغان قیادت فروعی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر آگے بڑھے تو روشن صبح کی کرن ضرور طلوع ہو گی ان خیالات کااظہار سینیٹ کی دفاعی کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید نے ایوان کارکنان تحریک پاکستان، لاہور میں منعقدہ خصوصی نشست بعنوان ”افغانستان میں دیرپا امن اور پاکستان“ کے دوران کیا۔ اس نشست کا اہتمام نظریہئ پاکستان ٹرسٹ نے تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے اشتراک سے کیا تھا۔ پروگرام کے باقاعدہ آغاز پر محمد بلال ساحل نے تلاوت کلام پاک اور نعت رسول مقبولؐ سنانے کی سعادت حاصل کی۔سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ15اگست 2021ء کو باضابطہ طور پر اس صدی کا اختتام ہوا جسے امریکہ کی صدی کہا جاتا تھا یہ صدی 1945ء میں شروع ہوئی تھی مؤرخ لکھیں گے کہ اس دن (15اگست)کوایشین سنچری کا آغاز ہواتھا افغانستان پر بیس سالہ امریکی قبضے کا اختتام ہوا اور طالبان نے پرامن طریقے سے کابل کا کنٹرول سنبھالا اس سے امریکہ کی نااہلی کے ساتھ نالائقی بھی ثابت ہوتی ہے علامہ محمد اقبالؒ نے آج سے نوے برس قبل کہا تھا ”مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ“ اقبالؒ کے فارسی کلام میں افغانستان کابہت ذکر ملتا ہے انہوں نے کہا کہ افغانستان سپرپاورز کا قبرستان ثابت ہوا ہے۔ نام نہاد دہشتگردی کیخلاف جنگ میں امریکہ نے ساڑھے چھ کھرب ڈالر جھونک دیے۔ عراق، افغانستان، لیبیا، شام اور پاکستان میں لڑی گئی اس جنگ میں 8لاکھ لوگ لقمہ اجل جبکہ ساڑھے تین کروڑ افراد بے گھر ہوئے۔ امریکہ نے بیس برسوں میں افغانستان میں 2.2ٹریلین ڈالرز خرچ کئے جو ماہانہ سو ارب ڈالر بنتے ہیں۔ اس دوران امریکہ کے پچیس ہزار فوجی ہلاک یا زخمی جبکہ اڑھائی لاکھ افغانی جاں بحق ہوئے۔ امریکہ نے بھی تاریخ سے سبق نہیں سیکھا، اس طرح گزشتہ تین صدیوں میں تین سپرپاورز کو افغانستان میں شکست ہوئی۔ 1979ء سے 2021ء یعنی 42سال سے افغانستان میدان جنگ بنا ہوا ہے افغانستان کی خفیہ تنظیم این ڈی ایس، را کی ذیلی تنظیم بن کر رہ گئی جنہوں نے ملکرپاکستان میں دہشتگردی کے کئی واقعات کروائے۔ بھارت پاکستان میں دہشتگردی کیلئے 87 ٹریننگ کیمپس چلا رہا تھا جن میں 66افغانستان اور21بھارت میں تھے پاکستان کا سفارتخانہ کابل میں اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ علاقائی اپروچ کو سامنے رکھتے ہوئے روس، ترکی، ایران، وسطی ایشیائی ریاستوں سے مشورہ کر کے آگے بڑھیں۔ ا انہوں نے کہا کہ چین کے اس وقت دو مفادات افغانستان سے جڑے ہیں، ایک تو افغان سرزمین اس کیخلاف استعمال نہ ہو اور دوسرے افغانستان بھی سی پیک اور بیلٹ روڈ انشی ایٹو منصوبے کا حصہ بنے۔ اس شکست کے امریکہ پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ امریکہ کی توہین ہوئی ہے۔ افغانستان میں نئی حکومت کو سب سے بڑا چیلنج امن وامان کی بحالی کا ہو گا۔پرامن بقائے باہمی اصول کے تحت نئی حکومت کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ سیکرٹری نظریہئ پاکستان ٹرسٹ شاہد رشید نے کہا کہ افغانستان ہمارا برادر ہمسایہ اسلامی ملک ہے اور ہماری خواہش ہے کہ وہاں امن وامان قائم ہو پاکستان افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے۔ پاکستان، ترکی، ایران اور افغانستان ملکر ایک مضبوط علاقائی اسلامی بلاک بنا سکتے ہیں۔
مشاہد حسین سید