عوام کو مایوس نہ کریں  

عوام کو مایوس نہ کریں  

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے دوران بتایا کہ حکومت ِ پنجاب نے اپنے وسائل سے صوبے کے عوام کو ریلیف دیا، اِس میں وفاق کی حصہ داری صفر ہے، اس نے کوئی حصہ ڈالا ہے اور نہ ہی کوئی مدد کی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ وفاق نے بجلی کے بلوں پر 200 یونٹ تک کے صارفین کو تین ماہ کا ریلیف دیا تھا، پنجاب حکومت نے اِس کا دورانیہ دو ماہ کر کے یونٹ 500 یونٹ کر دیئے۔ اِس ریلیف کے لئے صوبائی حکومت نے  اپنے ترقیاتی فنڈ سے 45 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی ہے، یہ اس کی طرف سے عوام کو تحفہ ہے۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ دیگر صوبوں کو بھی اِس سلسلے میں بسم اللہ کرنی چاہیے اور اپنے اپنے عوام کو ریلیف دینا چاہئے لیکن بد قسمتی سے بعض حلقوں سے ایسی باتیں سننے کو مل رہی ہیں جنہیں سن کر افسوس ہوا۔خیبرپختونخوا (کے پی کے) کے ایک وزیر نے الزام لگایا کہ وفاقی حکومت نے پنجاب کو تو ریلیف کے لئے پیسے دے دیئے لیکن کے پی کے کو نہیں دیئے، خیبرپختونخوا کی حکومت کو بھی اِس کی پیروی کرنی چاہئے،وہاں کے عوام کو ریلیف ملے گا تو اُنہیں خوشی ہو گی، لیکن اِس معاملے پر سیاست نہ کی جائے اور نہ ہی حقائق مسخ کئے جائیں۔اُنہوں نے واضح کیا کہ 2010ء کے قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کے بعد بجٹ کا 60 فیصد حصہ صوبوں کو ملتا ہے لہٰذا صوبوں کے پاس کھربوں روپے کا فنڈ ہوتا ہے جبکہ وفاق کے ذرائع کافی محدود ہیں، قومی اور بین الاقوامی قرض پر شرح سود وفاق ادا کرتا ہے لیکن فائدہ صوبوں کو ہوتا ہے۔اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر بجلی کے مسئلے کا مستقل اور دیر پا حل نکالنے کے لئے کام کر رہی ہے تا کہ ملکی معیشت کا پہیہ گھوم سکے، صنعتی، تجارتی اور زرعی ترقی ممکن ہو اور برآمدات میں اضافہ ہو۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور آج کی اتحادی حکومت کی اجتماعی کاوشوں سے ہی مہنگائی 38 فیصد سے 11.5 فیصد پر آئی، ترسیلاتِ زر اور برآمدات میں اضافہ ہوا۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بلوچستان حکومت کی شراکت داری کے ساتھ صوبے میں 70 ارب روپے کی لاگت سے 28 ہزار ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرے گی جس سے بجلی چوری کے مسئلے پر قابو پا لیا جائے گا۔

واضح رہے کہ چند روز قبل پنجاب حکومت نے 201 سے 500 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے لئے فی یونٹ 14روپے ریلیف کا اعلان کیا تھا، گورنر سندھ نے بھی وہاں کے وزیراعلیٰ سندھ کو خط کے ذریعے لوگوں کو بجلی بل میں ریلیف دینے کا مشورہ دیا،جو کہ وزیراعلیٰ کو خاص پسند نہیں آیا،بلکہ اُلٹا اُنہوں نے پنجاب حکومت پر تنقید کرتے ہوئے اِسے ”تھروئنگ گڈ منی آفٹر بیڈ“ قرار دے دیا، جس کا مطلب ہے کہ پہلے کام خراب کرو، پھر اُسے ٹھیک کرنے کے لئے پیسہ بہاؤ۔ اُنہوں نے کہا کہ وہ اِس پر یقین نہیں رکھتے،اُن کا خیال ہے کہ اِس دو ماہ کے ریلیف کے بعد بجلی کے بل ڈبل ہو کر آئیں گے۔ اُنہوں نے صدرِ مملکت اور بلاول بھٹو کی ہدایات کے مطابق ایسا منصوبہ لانے کی ٹھانی ہے جس سے عوام کو فائدہ ہو اور بجلی کا بحران بھی ختم ہو۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کسی کا نام تو نہیں لیا لیکن اِس کا جواب ضرور دیا،کرپشن اور پروٹوکول میں پیسے اُڑانے کی بات کر دی۔ اُنہوں نے یقین دہانی کرائی کہ یہ ریلیف قلیل مدتی نہیں ہے وہ دو ماہ بعد شمسی توانائی کا ایک بڑا منصوبہ لائیں گی جو عوام کو بھاری بلوں سے نجات دلائے گا،اُن کی تو خواہش ہے کہ بجلی کے بلوں پر ریلیف پورے ملک کے عوام کو ملے۔سندھ کے صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن نے بھی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ(ن) کو آڑے ہاتھوں لیا۔ بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ دونوں وفاق میں مخلوط حکومت کا حصہ ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ مل کر دونوں نے اقتدار سنبھالا، پیپلز پارٹی نے آئینی عہدے لئے، کابینہ میں حصہ نہیں ڈالا،دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر آگے بڑھیں تو اب یہ رویہ کیوں، تنقید برائے تنقید سے کیا حاصل ہو گا۔کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، اگر وہ ایسی باتیں کرے تو سمجھ بھی آتا ہے لیکن دو سیاسی جماعتیں جو مل کر آ گے بڑھ رہی ہیں اُنہیں ایسی گفتگو نہیں کرنی چاہئے۔ایک دوسرے کے اچھے کاموں کو سراہنے اور اپنے اپنے وسائل کے مطابق اس کی تقلید کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔   

حکومت ِ پنجاب نے بجلی کے بلوں پر جو ریلیف دیا ہے اِس سے عوام میں ایک اچھا پیغام گیا ہے، مثبت تاثر قائم ہوا ہے،پنجاب کے عوام نے سُکھ کا سانس لیا ہے۔اب اگر دیگر صوبوں کے عوام بھی اس ریلیف کی اُمید باندھ بیٹھے ہیں تو اِس میں کسی کا کوئی قصور نہیں ہے۔ایسے سوالات پوچھنے سے کیا حاصل ہو گا جن کے جواب سب کو ہی معلوم ہیں۔ 2010ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے عہد ِ اقتدار میں آٹھویں آئینی ترمیم منظور ہو جانے کے بعد صوبائی حکومتوں کو زیادہ موثر اور طاقتور بنا دیا گیا تھا،این ایف سی ایوارڈ کے تحت زیادہ تر فنڈز صوبوں کو منتقل کر دیئے جاتے ہیں جن کی وجہ سے وہ سینکڑوں ارب روپے کے ترقیاتی بجٹوں کا اعلان کرتے ہیں۔ توانائی کا شعبہ اگرچہ وفاق کے پاس ہے لیکن اس نے کسی بھی صوبے کو عوام کو ریلیف دینے سے نہیں روکا،جو صوبہ چاہے وہ ایسا ریلیف مہیا کر سکتا ہے، ترقیاتی بجٹ کا مقصد ہی عوام الناس کی فلاح و بہبود ہوتا ہے۔ صوبائی حکومتوں کے پاس اختیار ہوتا ہے کہ وہ اِن فنڈز کو اپنی منصوبہ بندی کے حساب سے مختلف جگہوں پر استعمال کر سکیں، اِس سے وفاق اور کسی دوسرے صوبے کا کوئی تعلق نہیں ہے،تو پھر اتنی تلملاہٹ کیوں ہے۔اہل ِ سیاست کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اِس وقت پاکستان کے عوام بہت سے مسائل کا شکار ہیں،مہنگائی کی وجہ سے زندگی کے روزمرہ معاملات چلانا بھی مشکل ہو گیا ہے، ایسے میں بھاری بجلی اور گیس کے بل جلتی پر تیل کا کام کر تے ہیں، جنہیں ہر مہینے ادا کرنا لازم ہوتا ہے۔کھانے پینے اور دوسری ضرورت کی اشیاء پر تو ہاتھ روکا جا سکتا ہے لیکن بل سے تو کسی صورت جان نہیں چھڑائی جا سکتی۔ ماہانہ 500 یونٹ تک استعمال کرنے والے لوگ عمومی طور پر مڈل اور لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں،ان کا بجلی کا استعمال زیادہ نہیں ہو تا لیکن اگر 200 سے ایک یونٹ بھی زیادہ ہو جائے تو وہ پروٹیکٹڈ صارفین کی حد سے باہر ہو جاتے ہیں ایسے میں بجلی کی قیمت میں کمی ان کے لئے بہت بڑی نعمت ہے، چند ہزار روپے ماہانہ کی بچت سے اُنہیں خاصا افاقہ ہو گا۔ دیگر صوبوں کو بھی کوشش کر کے اپنے عوام کی بہتری اور آسانی کے لئے ریلیف پیکیج کا اعلان کرنا چاہئے، ان کی فلاح کے لئے منصوبہ سازی کرنی چاہئے، ایک اندازے کے مطابق سندھ کو پنجاب کی طرز پر ریلیف دینے کے لئے 10 ارب، خیبرپختونخوا کو آٹھ ارب جبکہ بلوچستان کو ایک ارب روپے درکار ہوں گے۔ لہٰذا صوبائی حکومتیں اِس معاملے پرکھلے دِل سے غور کریں، جہاں بھی جس بھی قسم کا ریلیف دینے کی استطاعت رکھتے ہیں وہ دے ڈالیں، نیکی کے کام میں دیر نہ کریں،گلے شکوے ہوتے رہیں گے،اِس وقت تو عوام منتظر ہیں، اُن کو مایوس نہ کریں۔

مزید :

رائے -اداریہ -