بنگلہ دیش کی بھارت کو مداخلت نہ کرنے کی تنبیہ
بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی اور طلباء تحریک کے رہنماؤں نے بی جے پی کو بنگلہ دیش میں مداخلت نہ کرنے کی تنبیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور بنگلہ دیش میں امن و امان کی صورت حال خراب کرنا چاہتا ہے۔ بی جے پی بنگلہ دیشی سیاست میں بڑے پیمانے پر مداخلت کر رہی ہے جس پر خطے میں تشویش کی لہر ہے۔ مودی سرکار اپنے اوچھے ہتھکنڈوں سے خطے کاامن تباہ کرنا چاہتی ہے۔شیخ حسینہ واجد بنگلہ دیش میں بھارتی کٹھ پتلی وزیرِاعظم کی حیثیت سے کام کر رہی تھیں۔ بنگلہ دیش کو سیاسی بحران کے بعد اس وقت بھارت کی طرف سے مداخلت کا سامنا ہے۔آخر کب تک مودی سرکار انتہا پسندی کی سیاست کو فروغ دیتی رہے گی؟
بنگلہ دیش نے مفرورسابق وزیر اعظم حسینہ واجد کو بھارت سے واپس لانے پر غور شروع کردیا۔بنگلہ دیش کی مفرور شیخ حسینہ واجد کو بھارت میں مودی سرکار کی پشت پناہی حاصل ہے.زیادتی میں ملوث مفرور قاتل وزیر اعظم کو پناہ دینے کے بعد مودی سرکار کی مکمل خاموشی ہے۔مقامی عدالتوں میں حسینہ واجد کے خلاف قتل اور اغوا کے مقدمات درج ہیں،حسینہ واجد کے خلاف طلبہ تحریک کے دوران وحشیانہ قتل کے احکامات جاری کرنے،متعدد کارکنوں کو غائب کرانے اور ان کے قتل کی راہ ہموار کرنے کے حوالے سے مقدمات درج کیے گئے ہیں۔حسینہ واجد اور ان کے رفقائے کار کیخلاف قتلِ عام کے مقدمات کی کارروائی شروع کر دی گئی ہے متعدد مقدمات درج ہونے کے باوجود مودی سرکارکی ہٹ دھرمی برقرار ہے۔ماضی میں بھی بھارت مجرموں کی محفوظ پناہ گاہ رہ چکا ہے.1971 میں بھی بھارت کی مداخلت اورگھناؤنی سازش سقوطِ ڈھاکہ میں کلیدی کردار ادا کر چکی ہے۔
بنگلہ دیش میں طلبہ کے پْر تشدد احتجاج کے سبب وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کے مستعفی ہونے اور ملک چھوڑ کر بھارت آمد نے بھارتی سیاسی، سفارتی و صحافتی حلقوں میں تشویش پیدا کر دی ہے۔ بھارتی حکومت نے سرحدی محافظ دستے ’بارڈر سیکیورٹی فورس‘ (بی ایس ایف) کو 24 گھنٹے الرٹ پر رکھا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان 4096 کلومیٹر طویل سرحد ہے۔دونوں ممالک کے درمیان سرحد پر آمد و رفت بند کر دی گئی ہے جب کہ دونوں ملکوں کے درمیان چلنے والی میتری بس بھی روک دی گئی ہے۔ ریلویز نے ٹرینیں اور ایئر انڈیا اور نجی ایئر لائنز انڈیگو نے اپنی پروازیں منسوخ کر دی ہیں۔ ڈھاکہ میں بھارتی ہائی کمیشن اور دہلی میں بنگلہ دیشی ہائی کمیشن کی سیکورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ شیخ حسینہ وزیرِ اعظم کے عہدے سے استعفیٰ دینے کے فوری بعد ڈھاکہ سے بھارت پہنچ گئی تھیں۔ انھوں نے برطانیہ میں پناہ کی درخواست کی ہے جب تک انھیں وہاں پناہ کی اجازت نہیں مل جاتی وہ بھارت میں رہیں گی۔
بھارت شیخ حسینہ کو اپنا دوست سمجھتا ہے اور بنگلہ دیش میں ان کی جماعت ’عوامی لیگ‘ کی 15 سالہ حکومت میں بنگلہ دیش سے بھارت کے بہت اچھے روابط رہے ہیں۔تجزیہ کاروں کے مطابق بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کے قیام کے بعد حالات معمول پر آجائیں گے اور صورتِ حال میں استحکام آئے گا۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کے موجودہ حالات بھارت کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ اب بنگلہ دیش میں انتہا پسندوں کا ابھار ہوگا جو بھارت کے لیے بہر حال خطرے کی گھنٹی ہے۔
بنگلہ دیش کو بھارت کی موجودہ حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) اور سابقہ حکمراں جماعت ’کانگریس‘ دونوں کی حمایت حاصل رہی ہے اور دونوں کے ساتھ اس کے اچھے تعلقات رہے ہیں۔ شیخ حسینہ نے بنگلہ دیش میں موجود شمال مشرقی ریاستوں میں شورش کے خلاف سخت کارروائی کی تھی اور شورش پسندوں کو گرفتار کرکے بھارت کے حوالے کیا۔اس کے بعد سے شمال مشرقی ریاستوں میں امن ہے۔بھارت میں اقلیتوں کے کسی معاملے پر بنگلہ دیش میں جب بھی احتجاج ہوا تو شیخ حسینہ کی حکومت نے بھارت مخالف عناصر کے خلاف سخت کارروائی کی جس کے نتیجے میں بھارت مخالف رجحانات دب گئے تھے۔
اب وہاں اسلام پسند عناصر ابھر کر آئے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ نئی حکومت ان کے ساتھ کیسا رویہ رکھتی ہے۔ لیکن اگر ان کے ساتھ نرمی کی گئی تو بھارت کی سیکیورٹی کے لیے خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ چوں کہ بنگلہ دیش میں ہونے والے مظاہروں میں بھارت مخالف جذبات کا بھی دخل ہے لہٰذا ب وہاں بھارت کے مفادات پر اثر پڑ سکتا ہے۔ایسا سمجھا جاتا ہے کہ بنگلہ دیش میں نئی حکومت پر جماعتِ اسلامی کا اثر رہے گا۔ مظاہروں میں جماعتِ اسلامی کے کارکن بھی شامل رہے۔جماعتِ اسلامی سے بھارتی حکومت کے تعلقات کبھی خوشگوار نہیں رہے۔ شیخ حسینہ کی حکومت نے بھی جماعتِ اسلامی کے خلاف سخت اقدامات کیے تھے۔
حالیہ برسوں میں بنگلہ دیش میں چین کی تجارتی سرگرمیاں بڑھی ہیں۔ شیخ حسینہ کے دور میں بھارت اور چین کے ساتھ بنگلہ دیش کے متوازن تعلقات تھے۔ شیخ حسینہ چین کے ساتھ اپنی تمام تر تجارتی شراکت داری کے باوجود بھارت کے مفادات کا خیال رکھتی تھیں۔ چین بنگلہ دیش میں اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کرتا رہا ہے۔ اب نئی صورت حال میں وہاں چین کی سرگرمیوں کے بہت زیادہ بڑھ جانے کا خدشہ ہے۔ یہ صورتِ حال بھی بھارت کے لیے تشویش ناک ہے۔
بنگلہ دیش میں رواں سال جنوری میں ہونے والے انتخابات کے سلسلے میں مغربی ملکوں نے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ اس وقت بھارت نے بنگلہ دیش سے اپنی دوستی نبھائی اور بنگلہ دیش، امریکہ اور مغربی ملکوں کے درمیان ثالثی کی تھی۔نئی دہلی نے امریکہ سے کہا کہ اگر بنگلہ دیش سے تعلقات غیر مستحکم کیے جائیں گے تو چین کو وہاں اپنی تجارتی سرگرمیاں تیز کرنے کا موقع مل جائے گا جو کہ نہ تو امریکہ کے لیے اچھا ہوگا نہ ہی بھارت کے مفاد میں ہوگا۔نئی دہلی کے متعدد اخبارات نے بنگلہ دیش کی صورتِ حال اور شیخ حسینہ حکومت کے خاتمے اور ان کے ملک چھوڑنے پر اداریے اور تجزیاتی رپورٹس شائع کی ہیں۔ بیشتر اخباروں نے موجودہ صورت حال کو بھارت کے لیے تشویش ناک قرار دیا ہے۔