کراچی حادثہ،خونِ خاک نیشناں اور تحفظ ِ مسند ِ نیشناں 

  کراچی حادثہ،خونِ خاک نیشناں اور تحفظ ِ مسند ِ نیشناں 
  کراچی حادثہ،خونِ خاک نیشناں اور تحفظ ِ مسند ِ نیشناں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 اس ملک میں سڑکوں پر درجنوں حادثات روزانہ ہوتے ہیں جن میں بیسیوں افراد القمہئ اجل بن جاتے ہیں اور سینکڑوں عمر بھر کے لئے اپاہج ہو کر بستر تک محدود ہو کر زندگی گزارتے ہیں تاہم بعض حادثات ایسے ہوتے ہیں،جنہیں حادثہ ماننے کو دِل نہیں کرتا،کیونکہ اُن میں سفاکیت، بے رحمانہ غفلت اور حد سے زیادہ قانون کی بے توقیری نظر آتی ہے۔ایک ایسا ہی حادثہ کراچی کے علاقے کار ساز میں پیش آیا، جس میں لینڈ کروزر پر سوار ایک خاتون نے سڑک پر جاتے موٹر سائیکل سوار باپ بیٹی کو کچل دیا اور پھر اُس کی گاڑی سائیڈ پر کھڑی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو روندتی آگے بڑھی، جس سے کئی دیگر افراد بھی شدید زخمی ہو گئے۔ موقع پر لوگ اکٹھے ہوئے اور انہوں نے خاتون ڈرائیور کو بھاگنے نہیں دیا۔پولیس اور رینجرز آئی اور اُس خاتون کو جس کا نام نتاشہ بتایا گیا تھانے لے گئی، جہاں یہ عقد کھلا وہ ایک امیر کبیر گھرانے سے تعلق رکھتی ہے اور اُس کے شوہر ایک بڑی انرجی کمپنی کے مالک ہیں۔وہ خاتون خود بھی کئی کمپنیوں کی سی ای او اور ڈائریکٹر ہیں، خاصی اثرو رسوخ والی فیملی کا حوالہ آنے کے بعد پولیس کی پیشہ ورانہ کارروائی کی بجائے روایتی کارروائی کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے،جو یہاں بھی ہوا۔اتنے بڑے حادثے کی خبر سوشل میڈیا کے ذریعے ملک کے طول و عرض میں پھیل گئی،مرنے والی بچی آمنہ یونیورسٹی کی طالبہ تھی اور اُس کا محنت کش والد اُسے چھٹی کے بعد گھر چھوڑنے جا رہا تھا۔اس حادثے کی جو سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آئی،اُس میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے دونوں باپ بیٹی معقول رفتار سے موٹر سائیکل پر جا رہے ہیں اور ایک سفید رنگ کی لینڈ کروزر اُنہیں پیچھے سے ٹکر مار کرروندتی ہوئی آگے بڑھتی ہے۔کوئی اناڑی ڈرائیور بھی ایسا نہیں کرتا کہ سامنے موجود کسی دوسری گاڑی کو اس طرح پیچھے سے ٹکر مار دے۔اِس کا واضح مطلب یہ ہے خاتون نتاشہ نے شراب پی رکھی تھی اور وہ اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھی۔وگرنہ یہ ہو نہیں سکتا، چند گز آگے جانے والی گاڑی کو کوئی اس طرح روند دے۔ حادثہ اُسے کہتے ہیں جب کوئی موٹر سائیکل یا شخص اچانک چلتی گاڑی کے سامنے آ جائے،یہاں تو سامنے موٹر سائیکل جا رہی ہے اور اندھے کے سوا سب کو جاتی نظر آ سکتی ہے۔ ایسے حادثات پر یورپ یا امریک میں عام دفعات نہیں لگائی جاتیں،بلکہ سنگین جرائم کی دفعات لگتی ہیں اور ایسے مقدمات بھی موجود ہیں جن میں ڈرائیوروں کو24 سال تک سزا سنائی گئی، جو قتل کے مقدمے کی سب سے بڑی سزا ہے۔

اِس واقعہ کی جو ایف آئی آر درج کی گئی ہے،اُس کا صریحاً فائدہ ملزمہ کو ہو گا۔ایف آئی آر موقع پر موجود کسی چشم دید گواہ کی بجائے مرنے والے شخص عمران عارف کے بھائی امتیاز عارف کی مدعیت میں درج کی گئی ہے جو یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں اور موقع پر موجود نہیں تھے۔ ایف آئی آر میں لکھا گیا ہے کہ مجھے فون پر اطلاع ملی حادثہ ہو گیا ہے۔قانونی ماہرین جانتے ہیں ایسی ایف آئی آر کا عدالتوں میں کیا حال ہوتا ہے۔اس حادثے میں دیگر افراد بھی زخمی ہوئے،اُن میں سے کسی کو مدعی بنایا جا سکتا تھا، پولیس جب کیس کو مضبوط بنانا چاہتی ہے تو مدعی کی موقع پر موجودگی بھی ظاہر کر دیتی ہے،مگر یہاں ایک واضح کمزوری کو ایف آئی آر میں چھوڑا گیا ہے۔ملزم نتاشہ کی جائے حادثہ پر جو وڈیو بنائی گئی ہیں اُن میں وہ ہوش و حواس میں نظر نہیں آ رہیں اور صاف لگ رہا ہے کی نشہ آور چیز کے زیر اثر ہیں،مگر پولیس کی طرف سے فوراً ہی یہ بیان جاری کر دیا گیا کہ ملزمہ نے شراب نہیں پی رکھی تھی،اُسے نفسیاتی مریض ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اُس کے وکیل نے عدالت میں یہ بیان بھی دیا ہے، آج کل سوشل میڈیا کا زمانہ ہے اور کوئی بات چھپی نہیں رہتی۔سوشل میڈیا صارفین یہ حقائق سامنے لے آئے ہیں کہ نتاشہ ایک بڑی کمپنی کی چیف ایگزیکٹو افسر اور آٹھ کمپنیوں کی ڈائریکٹر ہیں اگر وہ نفسیاتی مرض میں مبتلا ہو کر گاڑی تک نہیں سنبھال سکتی تھی تو اُسے کمپنیوں کی بھاری ذمہ داری کیسے سونپی گئی۔ یہاں سوال یہ بھی ہے کہ اگر وہ اتنے سنگین نفسیاتی مرض میں مبتلا ہوتی تو اُس کے شوہر کیا اُسے گاڑی چلانے دیتے، اُس کے پاس کیا ڈرائیوروں کی کمی تھی، چونکہ نشے میں ڈرائیونگ کرنا جرم کو مزید سنگین بنا دیتا ہے اور اُس صورت میں کہ جب آپ کے پاس ڈرائیورنگ لائسنس بھی نہ ہو،تو یہاں واضح طور پر اثر و رسوخ اور دباؤ کا اندازہ ہو رہا ہے، جس نے کام دکھایا اور پولیس نے حادثے کی ایک عام سی ایف آئی آر درج کر لی۔اسی طرح دفعات بھی عمومی لگائی گئی ہیں جن میں آسانی سے ضمانت ہو جاتی ہے۔

پاکستان میں ویسے ہی حادثات پر سخت سزائیں دینے کا قانون رائج نہیں،پبلک ٹرانسپورٹ کے ڈرائیور درجنوں حادثات میں ملوث ہونے کے باوجود بڑی گاڑیاں چلا رہے ہوتے ہیں۔عام طور پر حادثے کا شکار ہونے والے کے لواحقین یہ بیان دے کر جان چھڑا لیتے ہیں کہ انہوں نے معاف کیا،کارروائی نہیں کرنا چاہتے،کیونکہ وہ جانتے ہیں یہاں انصاف لینے کے لئے بھی قدم قدم پر پیسے خرچ کرنے پڑیں گے۔پبلک پراسیکیوٹر کبھی صحیح کیس نہیں لڑے گا،اس کے لئے اپنا وکیل بھاری معاوضے پر پیش کرنا پڑے گا۔ پولیس کے اخراجات علیحدہ اور وقت کا ضیاع بھی،اس لئے قانون کا خوف ختم ہوتا جا رہا ہے۔مجھے ایک بار بس ڈرائیور ملا،اُس نے فخریہ بتایا وہ ملتان سے اسلام آباد پانچ گھنٹے میں پہنچاتا ہے اور اس کی سپیڈ140 کلو میٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے،میں نے پوچھا کیا کمپنی والے تم سے نہیں پوچھتے ایک گھنٹہ پہلے کیسے آ گئے ہو، کہنے لگا اُلٹا شاباش ملتی ہے۔ اُس نے یہ بتا کر حیران کر دیا چار بڑے حادثے کر چکا ہے،مگر دو دن سے زیادہ حوالات میں نہیں رہا۔ہم روتے ہیں کہ پاکستان میں ٹریفک حادثات بہت ہوتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ ہم نے سڑکوں کو قتل گاہیں خود بنایا ہے،جب بڑی گاڑی پر بیٹھے شخص کو پتہ ہو وہ اگر سامنے آنے والے کیڑے مکوڑوں کو روند بھی دے گا تو کوئی کارروائی نہیں ہو گی، پھر اُسے کیسے انسانی جانوں کے ضیاع سے روکا جا سکے گا۔ہم نے ہیلمٹ نہ پہننے، ون وے توڑنے،غلط پارکنگ کرنے، اوور سپیڈ اور ایسے دیگر جرائم پر تو جرمانے بڑھا دیئے،مگر سڑکوں پر اپنی غفلت، لاپرواہی، تیز رفتاری اور قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کر کے انسانی جانیں لینے والوں کو کڑی سزائیں دینے کے قوانین نہیں بنائے،کیونکہ ایسے قوانین بن گئے تو بڑے گھرانوں کے لاڈلے بھی302 جیسی دفعات کی زد میں آ جائیں گے۔ کراچی کا حادثہ دلخراش اور اندوہناک ضرور ہے،مگر اس خوش فہمی میں نہ رہیے اس پر قانون انگڑائی لے کر بیدار ہو جائے گا۔قانون نے اس پر بھی جلد مٹی ڈال دینی ہے اور کسی نثے حادثے کے انتظار میں کمبل اوڑھ کے سو جانا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -