ہمارے خمیر میں جمہوریت نہیں ہے

ہمارے خمیر میں جمہوریت نہیں ہے
 ہمارے خمیر میں جمہوریت نہیں ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 ہم ایک جدید ریاست ، جو تاریخی طور پر کمزور بنیادوں پر استوار ہے، قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا کام نہایت دشوار،بلکہ بعض اوقات ناممکن، دکھائی دیتا ہے۔ اقوا م ماضی کے تجربات سے رہنمائی حاصل کرتی ہیں، لیکن ہمارا ماضی جنگجو اور فاتح بادشاہوں محمود غزنوی، قطب الدین ایبک، بابر، اکبر اور کچھ بعد میں ابدالی کی زرہ پوش یادوں کا اسیر ہے۔ ہمارے پاس قانون ساز اور دانشور حکمرانوں کی کوئی مثال نہیں۔ بے شک اکبر نے ایک عالیشان سلطنت کی بنیاد رکھی تھی، مگر وہ بھی اپنے اندر بہت سی خامیاں لئے ہوئے تھی ،کیونکہ وہ سلطنت نہ تو جانشینی کا مسلہ ¿ حل کر سکی، نہ، جیسا کہ اُس وقت یورپ میں ہو رہا تھا، کوئی سیاسی اور قانونی ڈھانچہ تشکیل دے سکی اور نہ ہی کوئی قابل ِ ذکر تعلیمی ادارہ قائم کیا گیا ۔پندرہویں اور سولہویں صدی میں یورپ کو تاریک دورسے نکال کر آگاہی کے راستے پر گامزن کرنے والی علم کی نشاة ِ ثانیہ....the Renaissance.... کی روشنی انڈیا کے ساحلوں تک نہ پہنچ سکی۔ اس کے بعد یورپی مہم جو اور تاجر انڈیا آنا شروع ہو گئے، تاہم مغلوں کو دوسری دنیا ﺅں کی طرف جھانکے کی عادت نہیں تھی، اس لئے یہاں علم و ترقی کا دروازہ نہ کھل سکا۔ یہی وجہ ہے کہ غیر ملکی یلغار کے سامنے مغل سلطنت لاچارگی کے عالم میں دم توڑ گئی۔

پاکستان، جس کو ہم آسمانی طاقتوں کی طرف سے اپنے لئے خصوصی عطیہ سمجھتے ہیں، میں جو جدید سیاست متعارف ہوئی، وہ یہاں کی سرزمین سے پھوٹنے والی دانائی اور تجربات کا نچوڑ نہیں تھی، بلکہ اسے ایک اور قوم نے ایک پرائی سرزمین سے یہاں درآمد کیا تھا، اس لئے ہم اُن تحریری قوانین، جمہوری ضوابط اور فرد ِ واحد کی بجائے افراد کے باہم اشتراک سے بننے والی حکومت کے تصورات کی حقیقی تفہیم سے قاصر رہے۔ اس کج فہمی کے نتیجے میں ہمارا معاشرہ انتشار کا شکار ہو گیا۔ ہمارے طبقہ ¿ اشرافیہ نے یورپی طرز زندگی اپنالیا اور انگریزی بولنا شروع کر دی، تاہم انگریز یہاں صرف 98 سال تک حکمران رہے اور یہ عرصہ، گرچہ سطحی تبدیلی لا سکا، ثقافتی اور فکری تبدیلی کے لئے کافی نہیں تھا۔یہاں مسلمانان ِ بر ِ صغیر کو ایک اور مسلہ¿ بھی درپیش تھا آٹھ سوسالہ دور ِ حکومت میں مسلمان ہندومت کو ختم تو نہ کرسکے ،لیکن ان اٹھ صدیوں نے ہندو ﺅںکے ذہن سے مسلمان حکمرانوںسے پہلے کی یادوں کو محو کر دیا، چنانچہ انہوںنے (کرکٹ کی اصطلاح میں ) ایک نئی اننگز کی ابتدا کر دی اور کتاب ِ زیست کا ایک نیا صفحہ پلٹنے میں کامیاب ہوگئے ،چنانچہ جب مسلمان ”حاضر و موجود“ کے پیچ و خم میںغلطاں یا ماضی کے التباسات سے سند یافتہ احساس ِ برتری کے نشے سے سرشار تھے، غیر مسلموں نے، جن کو یہ ”سہولتیں “ میسر نہیں تھیں، فوراً ہی مغربی اطوارکو اپنا لیا۔
اس پس ِ منظر میںسر سیداحمد خاں کی جدید تعلیم کے لئے کاوشیں مسلمانوںکے حق میں دودھاری تلوار ثابت ہوئیں۔ اگرچہ علی گڑھ نے جدید تعلیم دینے کی روایت قائم کی، لیکن اس نے مسلمانوں کو فرمانبرداری کا درس بھی دیا۔ اس نے مسلمانوںکو سمجھایا کہ انگریزوںکی مخالفت کرنا اُن کے مفاد میں نہیںہے۔ بہرحال 1857ءکی شورش کے بعد ، جب مسلمان زیر ِ عتاب تھے، یہ ایک اچھی حکمت ِ عملی تھی، کیونکہ انگریز مسلمانوں کو بغاوت ہند کا ذمہ دار سمجھتے تھے۔ یہ مفاہمت وقتی فائدے کے لئے تو ٹھیک تھی، مگر اس کے دور رس نتائج تباہ کن نکلے۔ جب کانگرس کے رہنما بہت پہلے آزادی ہند اور جمہوریت کی بات کررہے تھے، مسلمان اکابرین غیر ملکی حکمرانوں سے وفاداری نبھانے کی سعی میں تھے۔ چنانچہ یہ بات تعجب خیز نہیںکہ اُس وقت مسلم لیگ کی بجائے انڈین نیشنل کانگرس زیادہ ترقی پسند جماعت تھی،چنانچہ جب کانگرس نے انگریز کے خلاف جدوجہد شروع کی تو مسلم لیگ نے کانگرس کے خلاف جدوجہد کا آغاز کر دیا۔ اس تاریخ کو، جس کے مستقبل پر دور رس نتائج مرتب ہوئے، فراموش کرنا غلطی ہو گی۔
اس پس ِ منظر میں انڈیا کا آغاز بہتر ہوا اور اس کی وجہ یہ نہیںتھی کہ وہ ایک بڑا ملک تھا، بلکہ اس کی وجہ آزادی سے پہلے کے رہنما صرف پنڈت نہرو ہی نہیں، بلکہ بہت سے دیگر بھی تھے ،جنہوںنے انگریز راج کے دوران قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور آزادی کے لئے جدوجہد کا سبق سیکھا۔ اس دوران مسلم لیگ کا طریق ِ کار مختلف تھا۔ اس کے پاس قائداعظم محمد علی جناحؒ ہی بلند قامت رہنما تھے۔ مسلم لیگ کی دیگر قیادت ان کے پائے کی نہیں تھی آج کے پاکستان کے مسخرہ نما سیاست دانوںسے وہ بھی بدرجہا بہتر تھے، مگر اُس وقت کی مسلم لیگی قیادت پٹیل، آزاد اور دیگر رہنماﺅںکے مقابلے کی نہیں تھی۔ اب ستم یہ ہوا کہ ایک تو آغاز اچھا نہیں تھا ، پھر ہم مذہبی قوتوںکے ہتھے چڑھ گئے۔ ہمیں قیام ِ پاکستان کے فوراً بعد ہی آئین سازی(جیسا کہ بھارت نے کی) کرنی چاہیے تھی، اس کی بجائے ہم فصاحت و بلاغت کے دریا بہاتے ہوئے ”قرار داد ِ مقاصد “ کی بے مقصدیت میں کھو گئے۔ اس کے بعد غالباً پاکستان کے مقدر میں لکھ دیا گیا کہ وہ ”مقاصد “ طے کرتا رہے مگر انہیں حاصل کرنے کے لئے کوئی عملی قدم نہ اٹھاسکے۔
پاکستان کا دانشور طبقہ ایک سیدھی سادی بات کی تفہیم سے قاصر رہا کہ بھارت بھی پاکستان کی طرح ( یا شاید ا س سے بھی زیادہ ) ایک مذہبی ملک ہے۔وہاں رام دیو، سیتا، بابالوگ، جوگی، درویش اوربہت سے مذہبی کردار ہیں اور آج بھی میچوں میں توہم پرستی کا مظاہر ہ دیکھنے میں آتا ہے چنانچہ وہ ہم سے اوہام کے میدان میں کم تر نہیںہیں، تاہم انڈیا کے بانیوںنے عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذہب کو ریاست کے معاملات سے الگ رکھا ،جبکہ ہم نے سیکولرازم کو جہنم جانے کا مختصرترین اور یقینی راستہ گردانا۔ تمام انسانوںکو آزادی ہے کہ وہ اپنی روحانی نجات کے لئے جو راہ چاہے اپنائے چاہے وہ مسجد میں جائے ، مندر میں جائے یاچرچ میں۔اس معاملے میں ہر کوئی آزاد ہے اور اس پر کوئی جبر نہیںہے۔ ہزاروں سال پر محیط تاریخ ہمیں سبق دیتی ہے کہ مذہب کو ذاتی معاملہ سمجھ کر سیاست کے ساتھ ہم آہنگ نہیںکرنا چاہیے۔ افسوس ، ہم نے یہ سبق نہ سیکھا ، چنانچہ آج پاکستان کا چہرہ مسخ ہو چکا ہے۔ ملالہ پر حملہ ہی کافی نہیں تھا، اب پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں پر بھی حملے شروع ہو گئے ہیں۔نہ جانے انتہا پسندی کے عفریت نے ابھی ہمارا کتنا خون پینا ہے؟
آج صورت ِ حال گھمبیر ہے لیکن یہ نہ سمجھا جائے کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے یا یہ اپنا جغرافیائی وجود کھونے والی ہے۔ ایسا نہیںہے بات صرف اتنی ہے ہم نسل در نسل اپنی سوچ اور عمل میں ہم آہنگی پیدا کرنے میں کامیاب نہیںہوئے ۔ ہم ساحل پر رہ کر موتی نکالنے کی آرزو کرتے ہوئے ناکامی نہیں، بلکہ غیر حقیقی رویوں کا شکار ہوئے ہیں۔ ہم نے خوابوںسے شیش محل تعمیر کرنا سیکھ لئے ہیں۔ آج جب پلوںکے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے ، ہم فطرت کے قوانین کو اپنانے میں ناکام توہمات کی دنیا سجائے ہوئے ہیں۔

پاکستان میں کچھ چیزیں ممنوع ہیں، جیسا کہ مے نوشی، تاہم ان پر پابندی ہٹائی جانی چاہیے۔ اجازت دینے سے ایسا نہیں کہ لوگ گلیوں بازاروں میں پی کر ادھم مچاتے پھریں گو کہ خدشہ ہے کہ شروع میں ایسا ہی ہو گا بلکہ اس لئے کہ پابندی نہ موثر ہے، نہ مستعمل۔ اس سے صرف منافقت کو ہی ہوا مل رہی ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اس موضوع پر بات نہیں کی جا سکتی، اگر آپ لب کشائی کی جسارت کریںگے تو مذہب کے ٹھیکدار آپ پر چڑھ دوڑیں گے اور ہو سکتا ہے کہ آپ کو کافر بھی قرار دے دیا جائے.... اس میںکون سی دیر لگتی ہے.... اب حال یہ ہے کہ ہم جدیدعہد میں ایک قدم رکھنا چاہتے ہیں ،جبکہ ہمارا دوسرا قدم ابھی تک قرون ِ وسطیٰ میںہے۔ چونکہ جمہوریت ہمارے خون میں شامل نہیں، اس لئے ہم اُس صبر سے بھی تہی دامن ہیںجو اس کی کامیابی کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ اب ذرا موجودہ ماحول پر نظر ڈالیں انتخابات سر پر ہیں اور معجزانہ تبدیلی کے طالب نعرہ زن ہیںکہ ملکوتی قوتیں آکر سارا گند صاف کردیں ۔ ہم کچھ چیزیں سیکھنے کے لئے بنے ہی نہیں ہیں ان میں سے ایک صبر ہے اور دوسری معقولیت۔ تاریخ ہمارے لئے سنگ ِ راہ سے زیادہ اہم نہیںہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ انتخابات سے فرشتوں یا پاک دامن لوگوں کی حکومت قائم نہیںہو سکتی ۔ ہو سکتا ہے کہ یہی ، یااسی طرح کے، افراد دوبارہ اسمبلی میں آجائیں ،لیکن اقوام کو جمہوری رویے سیکھنے اور جمہوری اداروں کو استحکام بخشنے میں وقت لگتا ہے، اگرچہ انتخابات کوئی مثالی حکومت کی ضمانت نہیں ہیں، بلکہ ان کی شفافیت بھی مشکوک ہوتی ہے، پھربھی ان کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ ہم نے اور بھی تجربات کئے ہیں اور ان کے نتیجے میں آج ہم کس حال سے دوچار ہیں۔ اب معاملہ اس نہج پر ہے کہ اگر ان انتخابات کو سبوتاژ کیا گیا تو ہم ایک مرتبہ پھر ماضی میں ہوںگے اور طے کی گئی منزل کی طرف از سر ِ نو جادہ پیمائی کرنا پڑے گی۔بہت سے لوگ معیشت کی بدحالی کا بھی رونا رو رہے ہیں اور ان کے آنسو بھی بجا ہیں اُن کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جمہوری نظام ہی معیشت کی راہیں متعین کرتا ہے۔ جب تک ہماری سیاست میںاہل اور ماہر لوگ نہیںآئیںگے، ہم درست معاشی فیصلے بھی نہیںکر سکیںگے۔ اس کام کے لئے آسمان سے فرشتوں کا نزول نہیںہو گا۔
اب یہ نعرہ”سیاست نہیں ، ریاست بچاﺅ“ مقبول ہو چلا ہے اور اس کی تشہیر کرنے والے داد کے مستحق ہیں، تاہم ایک سوال ہے کہ شیخ الاسلام صاحب کے پاس اس پیمانے پرتشہیر بازی کے لئے رقم کہاںسے آئی؟اور پھر ان کے پیش ِ نظر مقاصد کیا ہیں؟کیا اس معرکے میں وہ تن ِ تنہا ہیں یا ان کی پشت پر کوئی اور بھی ہے؟ ان سوالوں کے جواب آنے والا وقت دے گا۔ فی الحال گفتار کے غازی مایوسی پھیلانے کا دائمی فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ شور مچانے میں کوئی حرج نہیں کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں، تاہم خیال رہے کہ اس نازک موڑ پر ہم کسی مہم جوئی کے ہرگز متحمل نہیںہوسکتے ۔ سیاست کوئی جادوئی طاقت نہیں رکھتی، لیکن ہمارے پاس کوئی معجزاتی قوت ہے بھی تو نہیں.... چنانچہ صبر سے آگے بڑھتے رہیں۔

 نوٹ ! اس کالم کے جملہ حقوق بحق رائٹ ویژن میڈیا سنڈیکیٹ پاکستان محفوظ ہیں۔ اس کی کسی بھی صورت میں ری پروڈکشن کی اجازت نہیں ہے۔

مصنف، معروف کالم نگار اور سیاسی تجزیہ کار ہیں۔

مزید :

کالم -