”جب عظیم حکمران شیر شاہ سوری نے حکم دیا کہ اسکی بہو کوبرہنہ کرکے........ “ سلطان کا ایساخوفناک فیصلہ جسے سن کر پوری سلطنت کانپ اٹھی تھی
لاہور(ایس چودھری)شیر شاہ سوری نے اپنے دور حکومت میں انصاف اور تعمیرات کے شعبے کو بے حد ترقی دی،رواداری ،احکام شریعت کے تحت قصاص ودیت کا نظام موثر کیا ۔زمینوں کے حسابات کا نظام رائج کرکے پٹوار کا شعبہ قائم کیا ۔وہ رعایا کو اپنی اولاد کی طرح سمجھتا اوراسکے درد کو اپنا درد سمجھتا تھا ۔” شیر شاہ سوری کا عہدنامہ “ نامی کتاب میں اسکی منصف مزاجی کا ایسا واقعہ بھی بیان کیا گیا ہے جسے سن کر پوری سلطنت کانپ اٹھی تھی۔انگریز مورخ الفنسٹن نے بھی اس واقعہ کو اپنی تاریخی کتاب میں بیان کیا تھا ۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک بار سلطان شیر شاہ سوری کا بیٹا محمد شاہ عادل آگرہ کی گلیوں میں ہاتھی پر سوار ہوکر گھوم رہا تھا ۔ایک گلی سے گزرتے ہوئے اسکی نگاہ بے حجاب ہوگئی۔اس نے دیکھا کہ ایک حسین وجمیل دوشیزہ اپنے گھر کے غسل خانہ میں نہا رہی تھی ۔وہ مہاجن کی بیوی تھی۔ گھر کی چہار دیواری نیچی ہونے سے محمد شاہ عادل کی نگاہ اس عورت پر ایسی پڑی کہ وہ ہاتھی روک کر وہیں کھڑا ہوگیا ۔اسے شرارت سوجھی اور آوارہ گرد اوباش کی طرح اس نے پان کا ایک بیڑہ بھی اس کی طرف پھینک کر اسکو اپنی طرف مائل کرنا چاہا۔ عورت حیادار تھی اور ایک نامحرم کے سامنے بے پردہ ہونے پر وہ غم سے ڈھ گئی اور اس نے خود کشی کا ارادہ کرلیا ۔یہ دیکھ کر اسکے شوہر نے اسکو روکا اور کہا کہ وہ شیر شاہ سوری کی عدالت انصاف کا دروازہ کھٹکھٹائے گا۔مہاجن نے پان کا وہی بیڑہ اٹھایا اورشیر شاہ سوری کے دربار میں پہنچ گیا۔دربار لگا ہوا تھا ۔ مہاجن نے جاتے ہی دہائی دی اور سلطان شیر شاہ سوری کو محمد شاہ عادل کی بے باکی کا واقعہ سنا ڈالا ۔یہ سنتے ہی شیر شاہ سوری کا ہاتھ شمشیرکے دستے پر گیا۔وہ شدت غضب سے بولا” انصاف کا تقاضا ہے کہ محمد شاہ عادل کی نیچ حرکت کا بدلہ اس سے لیا جائے “
اس نے حکم دیا کہ مہاجن اسی ہاتھی پر سوار ہوکرمحمد شاہ عادل کے گھر جائے اور اسکی کی بیوی اسی طرح برہنہ کرکے اس کے سامنے لایا جائے اور یہ مہاجن اس کی طرف بھی پان کا بیڑہ پھینکے۔
ایسا انصاف جو اپنے دل پر پتھر رکھ کر اپنے ہی خلاف اور اپنے گھر کی عزت وناموس کی پرواہ کیے بغیر دیا گیا ہو ، شاید ہی کہیں ہمیں ملے۔ یہ حکم سن کر پورا دربار کانپ اٹھا ۔ امراء اور اراکینِ سلطنت نے محمد شاہ عادل کے ناموس کی حفاظت کے لیے سفارش کی ۔توشیر شاہ سوری نے پوری متانت کے ساتھ جواب دیا ”ناموس مہاجن کی بھی ہے۔سن لوکہ میں ایسے موقع پر کسی کی سفارش قبول نہیں کرتا ۔میری نگاہ میں میری اولاد اور رعایا دونوں مساوی ہیں ۔میری اولاد ایسی گھٹیا حرکت کرے اور میں اس کے ساتھ نرمی کروں ، یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا“
مہاجن نے جب عدل وانصاف کایہ فیصلہ سنا اور ایسا عدل ،جو اس کے وہم وگماں میں بھی نہیں آسکتا تھا ،تو وہ شیر شاہ سوری کے قدموں میں گرپڑا اور اس نے خود عاجزی اور اصرار کے ساتھ درخواست کی کہ یہ حکم نافذ نہ کیا جائے میں اپنے دعوے سے دست بردار ہوتاہوں۔شیر شاہ سوری کے اس عدل کا چرچاپوری ریاست میں ہوا اور ان اکابریں اور روسا تک بھی یہ پیغام پہنچ گیا کہ کسی غریب یا کمتر کی ناموس کو پائمال کرنے پر انہیں سخت سزا ہوگی۔