ابصار عبدالعلی مرحوم کا آخری انٹرویو

ابصار عبدالعلی مرحوم کا آخری انٹرویو
 ابصار عبدالعلی مرحوم کا آخری انٹرویو

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ممتاز براڈ کاسٹر، شاعر ، ادیب اور حمید نظامی پریس انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ابصار عبدالعلی 20 دسمبر کو حرکت قلب بند ہو جانے سے اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے مرحوم پاکستان ٹیلی وژن کے ابتدائی نیوز۔ کاسٹرز میں شامل تھے، اچھے شاعر اور تجزیہ نگار اور، تعلقات عامہ کا طویل تجربہ رکھتے تھے۔ انہیں محمد علی جوہر اور جواہر لعل نہرو کے جرائد میں کام کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ ابصار عبدالعلی نے گذشتہ ہفتے مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ کے شعبہ تحقیق و تجزیہ کے اجلاس میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی اور شرکاء کے سوالات کے جواب میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

اجلاس میں رؤف طاہر، خود میرے او ر تاثیر مصطفےٰ کے علاوہ حاجی احمد نعیم ملک، احمد ہمایوں خان،شاہد نذیر چودھری، احمدصابر سبحانی ،عامر ارشاد صوفی، سید کلیم شاہ، ملک غلام مصطفے، امجد نصیر ملک، رضوان الحق ،جاوید اقبال بھٹی،فاروق دلدار، ، مرزا کامران بیگ،محمد یامین صدیقی، ملک امجد نصیر، اور سرفراز علی، نے بھی شرکت کی۔


ابصار عبدالعلی نے ٹیلی وژن خبرناموں، اور ٹاک شوز کے ماضی حال اور مستقبل پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا: پاکستان میں ٹیلی وژن آنے سے پہلے ریڈیومیں خبریں پڑھنے والے نیوز ریڈر کہلاتے تھے۔ ریڈیو کے ابتدائی نیوز ریڈرز میں مصطفےٰ علی ہمدانی نے بہت عزت پائی پھر شکیل احمد کو ریڈیو نیوز ریڈرز میں سٹار نیوز ریڈر کی حیثیت حاصل ہوئی۔ انہوں نے اپنے باوقار لہجے میں 1956ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران خبریں پڑھ کر قوم میں ایک جو ش و جذبہ پیدا کیا اور عوام کے دل جیت لئے۔ تاہم ریڈیو اور ٹیلی وژن پر خبروں کی پیشکش میں بہت فرق ہے۔ پاکستان ٹیلی وژن کے ابتدائی نیوز کاسٹرز میں زیادہ تر ریڈیو سے آئے ہوئے نیوز ریڈرز تھے۔

ابتداء میں طارق عزیز، مظفر حسین اور پھر سلطان غازی ریڈیو سے ٹیلی وژن میں آئے۔ ایک موقع پر شکیل احمد کو بھی ٹیلی وژن پر خبریں پڑھنے کی آفر ہوئی ، لیکن جلد ہی آفر کرنے والوں کو یہ احساس ہوا کہ ٹیلی وژن پر خبریں پڑھنے کے تقاضے بالکل مختلف ہیں جس وجہ سے ریڈیو پر خبریں پڑھنے کے ماہر شکیل احمد کو ٹیلی وژن پر خبریں پڑھنے کا موقع نہ مل سکا۔ٹیلی وژن پر خبریں پڑھنے والے کو اس انداز میں خبریں پڑھنی ہوتی ہیں گویا وہ کمرے میں اپنے سامنے بیٹھے لوگوں سے مخاطب ہے۔

ٹیلی وژن پر خبریں پڑھنے والا شخص خبریں پڑھنے کے علاوہ کمنٹری وغیرہ کا کوئی کام نہیں کرتا تھا۔ایک موقع پر پاکستان ٹیلی وژن کے لئے محض نیوز کاسٹر کے طور پر افراد کوبھرتی کرنے کا فیصلہ کیا گیا، تاکہ ایسے افراد ٹیلی وژن پر خبریں پڑھنے کے تمام تقاضوں کا شعور رکھتے ہوئے حقیقی نیوز کاسٹر کا کام کرسکیں۔ اس سلسلے میں یہ پوسٹ مشتہر کرکے کوئی ایک سو افراد میں سے میرا انتخاب ہوا۔ ابتدا میں میری والدہ ٹیلی وژن پر میرے کام کرنے کے حق میں نہیں تھیں ۔ ان کا خیال تھا کہ ٹیلی وژن کا ماحول بھی فلم انڈسٹری جیسا ہی ہے۔ تاہم جلد ہی انہیں نیوز کاسٹر کا کام صاف ستھرا ہونے کا احساس ہوگیا۔


نیوز کاسٹر کے انتخاب کے لئے مطلوبہ شخص کا لب و لہجہ اور اس کی شخصیت کو دیکھا جاتا ہے۔ اس کا لب و لہجہ اس کی شخصیت کے مطابق ہونا چاہئے۔ نیوز کاسٹر کے طور پر میرا انتخاب1967ء میں ہوا، جبکہ جناب مصلح الدین احمد لاہور میں پی ٹی وی کے نیوز ایڈیٹر تھے۔ مجھے چار بار آڈیشن دینا پڑا۔ اس کے بعد پھر مجھے اگلے روز آنے کو کہا گیا، جس پر میں نے کہا ،کہ اب میں کل نہیں آؤں گا، کیونکہ اس طرح میرا خود پر اعتماد کم ہورہا ہے۔

مصَلح الدین صاحب تک یہ بات پہنچی تو انہوں نے کہا کہ آپ کل شیروانی پہن کر آجائیں اور خبریں پڑھیں۔ مَیں نے کہا کہ آخر میں نے کروڑوں لوگوں کے سامنے خبریں پڑھنی ہیں،اِس کے لئے آپ مجھے کچھ تربیت تو دیں۔انہوں نے کہا کہ تم ٹیلی وژن ٹیلنٹ ہو آرٹسٹ نہیں، تمہیں تربیت کی ضرورت نہیں۔ٹیلنٹ آرٹسٹ سے ایک درجہ اوپر ہوتا ہے۔ان دنوں نیوز کاسٹر کا کام اتنا آسان نہیں تھا۔ سخت گرمی میں ایک ایک ہزار واٹ کے بلبوں کے سامنے اوپر تک بٹن بند کرکے شیروانی میں بیٹھنا اور گرمی برداشت کرنا آسان کام نہیں تھا، لیکن نیوز کاسٹر کی طرف سے اپنی اس طرح کی کیفیا ت کا اظہار نہیں ہونا چاہئے۔

اس زمانے میں نیوز روم میں تین افراد موجود ہوتے تھے، جو خبریں تیار کرتے، تینوں کی ہینڈ رائٹنگ الگ ہوتی تھی، اس وقت نیوز کاسٹر کی سہولت کے لئے آج کی طرح ٹیلی پرومپٹر نہیں ہوتا تھا۔ ہمیں خبروں کی تعداد کے مطابق اپنی پڑھنے کی رفتار کم یا زیادہ کرنا پڑتی تھی، حاضر دماغی سے کام لینا پڑتا تھا۔ خبروں کا Retake نہیں ہوتا۔ بعض اوقات اگر پروڈیوسر سے کوئی کوتاہی ہوجاتی ہے تو اسے بھی آ پ نے اپنی حاضر دماغی سےCover کرنا ہوتا ہے۔ نیوز کاسٹنگ کے تین بنیادی اصول ہیں۔


*۔۔۔ خبر سچ ہو، خبر رپور ٹ کرتے وقت آپ کو کسی طرح کا دباؤ قبول نہیں کرنا چاہئے،آپ کی خبر سے کسی دوسرے کو کم سے کم نقصان پہنچنا چاہئے۔ پی ٹی وی میں اس اصول پر سختی سے عمل کیا جاتا تھا۔ خبروں میں اسم صفت Adjectives کا استعمال نہیں کیا جاتا۔ اس وقت ہمیں پی ٹی وی میں فی بلیٹن کے حساب سے پڑھنے کا معاوضہ ملتا تھا۔ شام کے بلیٹن کا معاوضہ چالیس روپے اور رات نو بجے والے بلیٹن کا معاوضہ60روپے تھا۔

ملازمت مستقل نہیں تھی ، لیکن اس کام میں وقت کی پابندی اور ذمہ داری کا سختی سے مظاہرہ کرنا ہوتا۔ میں سوچتا ہوں کہ اس وقت بھی حکومت کی طرف سے محض وعدوں والی ’’کر دیا جائے گا‘‘ جیسے بیانات کی خبروں کی بھرمار تھی اور آج بھی حکومتی خبریں ً ہو جائے گا ً کے پیرائے ہی میں ہوتی ہیں۔کردیا گیا ہے ً کی خبریں اب بھی نہیں ہوتیں۔


موجودہ زمانے میں نیوز کاسٹر کے علاوہ ا ینکر پرسن بھی آگئے ہیں، بہت سے نیوز چینلز ہیں جن پر نیوز کے علاوہ حالات حاضرہ پر ٹاک شوز بھی ہوتے ہیں ، لیکن ان پروگرامز کو کنڈکٹ کرنے والے اینکر پرسنز سے ٹیلی وژن دیکھنے والے مطمئن نہیں۔ اینکر پرسنز کی آواز کسی بھی صورت میں اونچی نہیں ہونی چاہئے۔ آواز اونچی ہونے کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ انسان کے پاس دلائل ختم ہوگئے ہیں۔ آواز کے اونچا ہوجانے کا مطلب جھگڑے کا آغاز ہے۔

مصیبت یہ ہے کہ بہت سے اینکرز خود اپنی اور تجزیہ نگاروں کی آواز بھی کوشش کرکے اونچی کرانے اور جھگڑے کے ذریعے ہائپ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ان کی ریٹنگ اونچی ہوسکے۔ ٹیلی وژن چینلز کی تعداد کے ساتھ ساتھ تجزیہ نگاروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج ہر شخص تجزیہ نگار ہے۔نئے سے نئے چہرے سامنے آرہے ہیں۔ ایسے بھی ہوتے ہیں، جنہیں زیر بحث واقعہ یا معاملے کے متعلق کچھ بھی علم نہیں ہوتا۔ ایک ہی شخص کو ہر فن مولا سمجھ لیا جاتا ہے۔ معیشت پر بات کرنا بہت مشکل کام ہے، لیکن اس پر بھی ہر کوئی بولتا ہے۔

ٹیلی وژن اینکرز کا کام ایک استاد کا بھی ہے۔ اسے تلفظ کا اور صحت بیان کا بہت خیال رکھنا پڑتا ہے۔ ایک سطر میں زیادہ سے زیادہ پندرہ الفاظ ہونے چاہئیں۔ الفاظ پڑھنے کے لحاظ سے واضح ہونے چاہئیں۔ سطور میں اوقاف کا دھیان رکھنا چاہئے۔ خبر پڑھتے وقت نیوز کاسٹر کو کسی واقعہ سے جذباتی نہیں ہونا چاہئے ،دِل میں کچھ محسوس کرے بھی تو اس کا لہجے سے اظہار نہیں ہونا چاہئے۔ خبریں پڑھتے وقت جذباتی ہونا غیر پیشہ وارانہ رویہ ہے۔

موجودہ دور کی ٹیلیوژن نیوز کو بریکنگ نیوز نے بہت خراب کیا ہے۔یہ خبر بریک ہونے سے پہلے ہی Ticker،یعنی سکرین کے نیچے چلنے والی خبروں کی لائن میں آچکی ہوتی ہے۔ اس طرح یہ بریکنگ نیوز کے بجائے بروکن نیوز بن کر رہ جاتی ہے۔یہ خبروں کے Tempo کو متاثر کرتی ہے۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ یہ خبر ہوتی ہی نہیں، بلکہ اس کے ذریعے محض سنسنی پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔یہ خبر کے ساتھ جبر کی ایک صورت ہے۔

نیوز پڑھنے والے میں کپکپاہٹ نہیں ہونی چاہئے۔ اس کے لہجے سے ایسا محسوس نہ ہو جیسے وہ جھوٹ بول رہا ہے۔اب خبریں چوبیس گھنٹے میں کئی بار دہرائی جاتی ہیں ، پروگرام بھی دہرائے جاتے ہیں،لیکن ان کے ساتھ Repeat کئے جانے کا کوئی اشارہ نہیں دیا جاتا۔اسی طرح انتخابات کے دوران سیاسی تقریروں یا جلسوں کی، جس کوریج کا معاوضہ لیا جاتا ہے اس کے اشتہار ہونے کی بھی کوئی نشاندہی نہیں کی جاتی۔
جہاں تک اینکرز کا تعلق ہے انہیں تحمل اور صبر سے کام کرنا ہوتا ہے۔ ان میں اپنے سوال کا جواب حاصل کرنے کی صلاحیت ہونی چاہئے۔ان کا بحث کے وقت کسی بھی صورت میں موڈ آف نہیں ہونا چاہئے ٹیلی وژن رپورٹرز کو بھی بہت باخبر انسان ہونا چاہئے۔ انہیں ملکی اور بین الاقوامی تمام حالات پر مسلسل گہری نظر رکھنی چاہئے ، صرف اسی صورت میں وہ درست کام کرسکتے ہیں، جس طرح ہیرے جواہرات کی خوبیوں کا شناسا انسان ہی جوہری کا کام کرسکتا ہے اسی طرح ایک رپورٹر کے لئے خبروں کا شناسا ہونا ضروری ہے۔

سوشل میڈیا کا بے حد پھیلاؤ بھی معاشرے میں بہت بگاڑ پیدا کر رہا ہے۔ جھوٹی اور قومی اتحاد اور مفاد کو نقصان پہنچانے والی خبریں جعلی اکاؤنٹس سے جاری کی جاتی ہیں، جس کی روک تھام کے لئے قوانین بننے چاہئیں۔
ٹیلی وژن چینلز کے مالکان کے علاوہ بہت سے اینکر پرسنز بھی اپنی تیزی طراری سے کروڑوں کمارہے ہیں۔ اینکر پرسنز جوکبھی موٹر سائیکل پر تھے اب وہ ہیلی کاپٹر پر ہیں۔ایسے چینلز یا اینکر پرسنز کہیں نہ کہیں اور بھی خفیہ طور پر ’’پے رول‘‘ پر ہیں۔ اکثر خبروں کے ساتھ گانے ڈال دئیے جاتے ہیں ، یہ بدذوقی اور میڈیا کی مسلمہ اقدار اور اخلاقیات کے خلاف ہے۔

ہمارے خبر ناموں میں انڈین اداکاراؤں کو بھی بہانے بہانے سے مسلسل دکھایا جاتا ہے ، ہمارے ہاں ٹیلی وژن کے ابتدائی دِنوں میں ترقیاتی خبریں زیادہ ہوا کرتی تھیں ، ڈرامے کے ذریعے بھی اصلاح اور شعور کی بالیدگی کا کام لیا جاتا تھا، لیکن اب زیادہ لوگ ڈرامہ چھوڑ کر ٹاک شوز دیکھتے ہیں ،جس میں خبروں اور خبروں کے پس منظر کے بجائے کھیل تماشا زیادہ ہوتا ہے۔ آج کے چینلز پر خبریں اٹھائی جاتی ہیں اور ان کے سلسلے میں Hype پیدا کرکے انہیں بیچ ہی میں چھوڑ دیا جاتا ہے کوئی’’فالو اپ‘‘نہیں دیا جاتا۔ دراصل روٹی اور خبر دونوں کی پسند کا معیار یہ ہے کہ یہ تازہ ہو اور گرما گرم ہو۔

سچی خبر وہ ہے جس کی بعد میں تردید نہ ہوسکے۔رپورٹر کو صرف سچی بات ہی آگے بڑھانی ہوتی ہے، جورپورٹر اپنا اعتماد کھو بیٹھے وہ کہیں کا نہیں رہتا۔اگر ہمارا اپنا میڈیا اعتماد کھوبیٹھے تو لوگ بی بی سی جیسے غیر ملکی ذرائع پر اعتماد کرنے لگتے ہیں۔ ایسی صورت میں غیر ملکی ذرائع ہمارے قومی مفادات کو سخت نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں۔ بعض اوقات کسی قتل یا مصیبت کی صورت میں ٹی وی والے صدمے سے دو چار خاندان کے افراد سے ان کے تاثرات پوچھتے ہوئے پائے جاتے ہیں جو قطعی غیر پیشہ وارانہ رویہ ہے۔ٹیلی وژن پر ظاہر ہونے کی خواہش تو بہت لوگوں میں ہے، لیکن اس کے لئے بنیادی طور پر وسیع مطالعہ اور زبان و معانی کے تعلق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

تلفظ درست نہ ہو تو اینکر پرسنز زیر زبر کے فرق سے ہی معانی کیا سے کیا بناڈالتے ہیں۔ نئے آنے والوں کو ماضی اور حال کے اچھے لب و لہجے والے اور روانی سے بولنے والے پر اعتماد نیوز کاسٹرز اور اینکر پرسنز سے سیکھنا چاہئے۔ موجودہ افراد میں سے جنید اپنے لب و لہجے کے لحاظ سے بہت اچھے ہیں۔ عبید اللہ صدیقی کو بھی اسی صف میں رکھا جائے گا۔ماضی میں سلطان غازی باکمال تھے۔ خالد حمید اور حسن جلیل اور مہ پارہ صفدر بھی خبریں اچھا پڑھنے والوں میں شامل ہیں۔ انگریزی خبروں کے پڑھنے میں اسلام آباد سے شائستہ زید کا نام سامنے آتا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -