مائیں صرف بیٹیوں کی نہیں بیٹوں کی بھی ہوتی ہیں
ہمارے معاشرے میں لڑکوں کو گھر کا کوئی کام نہ کرنے پر کبھی یہ نہیں کہا جاتاکہ ’’وقت کا کچھ پتا نہیں ہوتا آج ماں اور بہن موجود ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم زندگی گزارنے کا طور طریقہ نہ سیکھو‘‘ بلکہ الٹا ہمارے ہاں مائیں اس بات کو بڑھاوا دیتی ہیں کہ تم لڑکے ہو اس لئے کچن میں نہ آؤ‘ تمہارا کمرہ سمٹ جائے گا‘ کپڑے استری تم کیوں کرو گے؟ یہ سب کام عورتوں کے کرنے کے ہوتے ہیں۔ بچپن سے ایک بات لڑکیوں کو کہی جاتی ہے کہ تم تو پرایا دھن ہو‘ کل کو بیاہ کر دوسرے گھر چلی جاؤ گی‘ اتنا پڑھ لکھ کر کیا کرنا ہے‘ ہانڈی روٹی ہی تو کرنی ہے اور پھر جب کوئی لڑکی گھر داری میں دلچسپی نہ لے، تب بھی یہ کہا جاتا ہے‘ کچھ سیکھ لو، کل کو دوسرے گھر جاؤ گی تو کوئی فکر نہ ہوگی۔ میں ان ماؤں سے کہنا چاہوں گی کہ آئیے! مل کر تربیت کا انداز بدلیں۔ اپنے بیٹوں کی آئندہ زندگی آسان کریں۔ اسلامی تعلیمات میں بھی یہی سبق ملتا ہے کہ ضرورت پڑنے پر مردوں نے بھی گھر کے کام کاج میں ممکنہ حد تک حصہ لیا ہے۔ والدین کو کچھ باتوں پر عمل کرنا ہو گا جیسے -:
کھانا بنانا
آج کے دور میں تو خیر سے کچھ گھرانوں کی لڑکیوں کو بھی کھانا پکانے میں دلچسپی نہیں‘ کہاں یہ کہ لڑکوں کو ہو مگر یہ کہ چائے بنانے اور انڈا تلنے سے بھی بے بہرہ ہونا بالکل ہی غلط ہے یا پھر یہ سوچنا کہ لڑکوں کا کچن میں کوئی کام نہیں ہوتا‘ اس لیے وقت بے وقت ضرورت پڑنے پر بھی کچھ نہیں کرنا ہے جیسا رویہ قطعی درست نہیں۔ اس لیے اپنے بیٹوں کو سمجھائیں کہ کچن میں آنا ان کی انا کو قطعی مجروح نہیں کرے گا‘ اس لیے وہ بھی آپ کی مدد کرے تاکہ کل کو جاب کے سلسلے میں باہر بھی جانا پڑے تو وہ خود سب کچھ یا کچھ نہ کچھ کرسکے۔
کپڑے دھونا اور استری کرنا
آج کے مشینی دور میں ہر گھر میں کپڑے دھونے کے لیے مشین موجود ہے‘ اس سب کے باوجود لڑکوں کو عادت ہوتی ہے کہ وہ میلے کپڑے کمرے میں ڈال کر چلے جاتے ہیں۔ ایسے میں کم از کم آپ کو بیٹوں کو یہ عادت ڈالنی چاہیے کہ میلے کپڑے ڈرم میں یا پھر مشین میں ڈالیں اور اگر آپ کے گھر میں کپڑے استری کرنے والی ماسی نہیں آتی تو پھر تو یقینی طور پر چودہ‘ پندرہ سال کی عمر سے بیٹوں کو کپڑے استری کرنا سکھائیں تاکہ وہ اس کام میں طاق اور اپنے کپڑے استری کرنے کے معاملے میں خود مختار ہوں۔
الماری اور اس کی حالت زار
وہ مائیں جو بیٹوں کو کچھ زیادہ ہی لاڈ پیار سے پالتی ہیں‘ وہ ان کی الماریاں اور دیگر چیزیں سیٹ کرکے رکھتی ہیں اور اگر وہ نہ کریں تو الماری کا حال تو پوچھو ہی مت۔ اس لیے بہتر ہے کہ بچپن سے چھوٹی الماریوں میں بیٹوں کا سامان رکھیں اور ان کو اس بات کا عادی بنائیں کہ وہ خود اپنی الماری سیٹ کریں اور آپ پر انحصار نہ کریں۔
کمرہ سمیٹنا
عمومی طور پر لڑکوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ اپنے کپڑے‘ کتابیں اور دیگر استعمال کی چیزیں کمرے میں پھیلا کر رکھتے ہیں اور ماؤں کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ کمرہ صاف کرتے ہوئے چیزیں سمیٹ کر رکھیں اور پھر جب چیزیں اِدھر اُدھر ہوجاتی ہیں تو شور الگ ہوتا ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ انہیں چھوٹی عمر سے ہی یہ بات سمجھائی جائے کہ وہ چیزیں سمیٹ کر رکھیں تاکہ آپ کی زندگی میں بھی آسانی ہو اور بلاوجہ کے شور شرابے سے بھی بچا جاسکے۔
چائے کا کپ
یوں تو ہمارے معاشرے میں ماسیوں سے استعمال شدہ برتن دھلوانے کا رواج ہے مگر ہم پاکستانی چائے پینے کے کچھ زیادہ ہی شوقین ہیں۔ اس لیے دن میں دو سے تین بار چائے بنتی ہی بنتی ہے اور پھر لڑکے اپنا استعمال شدہ مگ تک دھونا گوارا نہیں کرتے‘ اس لیے یہ کام بھی مائیں سرانجام دیتی ہیں چونکہ ان کے پاس گھر کے کام ہی اتنے ہوتے ہیں کہ ان کے پاس اپنے لیے وقت نہیں ہوتا‘ اس لیے بہتر ہوگا کہ وہ بیٹوں کو کہیں کہ اگر دن میں کسی بھی وقت وہ چائے کا کوئی مگ استعمال کریں یا پھر کوئی اور برتن تو وہ اسے خود دھو کر رکھیں تاکہ آپ کے لیے آسانی ہو اور انہیں بھی چھوٹے چھوٹے کاموں کی عادت ہو۔ کچھ باتیں سن کر یا پھر پڑھ کر بڑی عجیب لگتی ہیں کہ پاکستانی ماؤں کو اس بات کی تربیت دی جائے کہ وہ اپنی تربیت کا انداز بدل لیں مگر سچ تو یہ ہے کہ آج پوری دنیا میں تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اور وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو تبدیلی کو قبول کرتی ہیں۔ تبدیلی وقت کی ضرورت ہوتی ہے‘ اس لیے آئیے! آپ بھی خود کو مثبت طور پر تبدیل کریں اور اپنی زندگی میں بھی آسانی لائیں۔